سائنس کے نظریات توہم پرستی کے
منافی ہیں۔توہم پرستی کا حقیقی زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔انسان کائنات کو
تسخیر کر رہا ہے۔اور اسکے اسرارورموز سے آئے روز پردہ اٹھا رہا ہے۔ سائنس
کی ترقی نے حضرت انسان کی عقل کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ اولاد آدم عروج کی
سیڑیوں کے زینہ چڑھی جا رہی ہے۔مگر اس کے باوجود انسان کی سوچ آج بھی بہت
سے معاملات میں قید نظر آتی ہے۔جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔تسخیر کائنات
کا موجب بننے والا انسان آج بھی توہم پر ستی کا شکار نظر آتا ہے،اور نہ صرف
یہ ہمارے معاشرے میں پھن تانے کھڑا ہے بلکہ اس نے مغربی معاشرے کو بھی اپنی
لپیٹ میں لے رکھا ہے۔توہم پرستی کا مطلب ایسے عقائدجن کا حقیقت سے کوئی
واسطہ نہیں اور انسانی اورعقل انسانی اسے ماننے سے انکار کر دے۔انسان کی
زندگی میں بہت سے حادثات وواقعات اچانک رونما ہو جا تے ہیں، جن کا ایسے
عقائد سے کوئی تعلق نہیں ہوتااور ہم ان کے بارے میں غیر سائنسی اصول پیش
کرنے لگتے ہیں۔انسان کی سائنسی ترقی اپنے عروج پر ہے۔انسان اپنے بارے میں
اوراپنے ہم جنوں کے بارے میں بہت کچھ جان چکا ہے۔اس کے باوجود بھی انسانی
زندگی میں یہ غیر عقلی عقائد اپنی جگہ موجود ہیں۔جیسے بہت سے لوگ آج بھی
یقین رکھتے ہیں کہ اگر کالی بلی راستہ کاٹ لے تو جس کام، جس مقصد کے لیے جا
رہے ہیں وہ پورا نہیں ہوسکتا ۔ ماضی کا انسان تو ہم پرستی کا زیادہ شکار
تھا، جیسے غاروں کے انسان کی زندگی دیکھیں تو وہ جس چیز سے خوف کھا تا تھا
اسکی عبادت شروع کر دیتا، یہ نہیں کہا جا سکتا کہ آج کا دور ان تمام باتوں
سے پاک ہے۔اب ماضی جیسی توہم پرستی تو نہیں رہی لیکن آج کے جدید دور کی
توہم پرستی نے اس کی جگہ لے لی ہے۔اسکا وجود معاشرے میں کہی نہ کہی موجود
ہے۔مغرب ترقی کے لحاظ سے سب سے آگے جا رہا ہے مگرمغربی ممالک کے لوگ نمبر18
سے بہت خوف کھاتے ہیں۔ ان کے نزدیک نمبر18بہت بد قسمت ہندسہ سمجھا جاتا ہے
۔اس کے علاوہ وہ لوگ سیڑھیوں کے نیچے سے گزرنے کو بھی بدقسمتی سے عبارت
کرتے ہیں۔یہ بھی عقیدہ ہے کہ بلی کی توکئی زندگیاں ہوتی ہیں یعنی وہ آٹھ
بار مرنے کے بعد بھی زندہ ہو سکتی ہیں، اگر آپ اپنی سالگرہ کے دن ایک ہی
پھوک میں ساری موم بتیاں بجھا دیں تو آپ کی جوخواہش ہو گی پو ری ہو گی۔گھر
کے اندر کرکٹ کھیلنا خوش قسمتی کودعوت دینا ہے۔جب کتا روتا ہے تومانو ہیبت
کی علامت ، میز پر سونابھی بدقسمتی،اگر پاؤں میں درد ہے توآپ کا سفر متوقع
ہے اور اس طرح کے متعدد نظریات پائے جاتے ہیں۔توہم پرستی کے وجودکی سب سے
بڑی وجہ آباواجداد کی طرف سے ورثے میں ملنے والے رسم و رواج بھی ہو سکتے
ہیں ۔بچپن سے جو عقیدہ ہم دیکھتے چلے آئیں اس کا جدید علم کے ساتھ ٹکراؤ
اور پھر صحیح سمت رہنمائی میں دقت محسوس ہو تی ہے۔بالکل ایسے جیسے ہمارا
کائنات کے بارے میں علم محدود ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ انسان کے علم میں اضافہ
ہو رہا ہے۔انسان جو کہ فطری طور پر تجسس رکھتا ہے ، جس کے باعث دنیا آج
ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور جب تک انسان سکون و اطمینان حاصل نہیں کر لیتا
جاننے کا یہ عمل اسی طرح جاری رہے گا۔زمین انسان کی تخلیق سے پہلے وجود میں
آئی ۔اس کے بننے کے عمل میں جو باتیں روز اول سے سنتے آرہے ہیں وہی باتیں
آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ ہیں۔ توہم پرستی کے حوالے سے آنے والے
عقائد بھی اس طرح سے قائم ہیں۔یہ درست ہے کہ وقت کے ساتھ ان میں جدت آرہی
ہے۔لیکن آج بھی لوگ اس حوالے سے بات کرتے ہیں۔کسی بھی اچانک ہونے والے واقع
کوکسی نہ کسی طرح توہم پرستی کی طرف لے جاتے ہیں۔ان کا حقیقت سے کوئی تعلق
نہیں۔اگر آپ میں کام کرنے کی لگن اور ارادے کی مضبوطی موجودہے تو چاہے کالی
بلی راستہ کاٹ لے پھر بھی آپ اپنے مقصد میں ضرور کامیاب ہوں گے۔ایسی باتوں
پر وہ لوگ یقین رکھتے ہیں جو ارادے کے کمزور اور کم عقل ہوں۔سائنس بھی بہت
سی باتوں کو ثابت کر چکی ہے جیسے لوگوں میں یہ بات بہت مقبول تھی کہ چاندپہ
بھی ایک بڑھیا رہتی ہے۔جو ہر وقت چرخہ کاتتی رہتی ہے۔آج انسان نے اپنے علم
کی بدولت چاند تک رسائی حاصل کر لی ہے۔وہ چاند کی زمین کو چھو آیا ہے لیکن
ایسی کسی بھی بات کی تصدیق نہیں کی کہ چاند پر کوئی بڑھیا ہے اور نہ ہی
کوئی چر خہ، اس بات کا کوئی ثبوت نہیں یہ صرف قصہ کہا نیوں تک ہی محدود
ہے۔یہ کائنات ہے اور اس میں توڑ پھوڑ کا عمل جا ری ہے۔جیسے حیات انسانی کی
بقاکے لیے زندگی اور موت کا عمل جاری ہے۔اس لیے ٹوٹتے ہوئے ستاروں کو بد
قسمتی سے منسلک کر نا غلط ہے۔صرف مغربی ممالک میں ہی نہیں بلکہ پاکستان میں
بھی بہت سی تو ہیمات موجود ہیں جیسے آنکھ پھڑکے تو کچھ برا ہوتاہے۔اُلو
بولے تو وہ جس علاقے میں بول رہا ہے،وہاں بدقسمتی آنے والی ہے۔کوئی گلاس یا
شیشہ ٹوٹے تو اچھا تصور نہیں کیا جاتا۔اگر کہیں سے کچھ کھانے کو آئے تو
برتن خالی نہیں لوٹانے چاہیے۔خواب میں اگر بھینس نظر آجائے توبھی بری قسمت
کادور شروع ہو نے والا ہے۔بچوں پر سے پھیلانگنا نہیں چاہیے اس سے بچوں کی
نشودنما رک جاتی ہے اور اس کے علاوہ بغیر کسی وجہ کے قینچی چلا نا گھر میں
لڑائی کا سبب بن سکتی ہے۔اسطرح گھر کے اندر چھتری کھولنا بھی پریشانی کا
سبب بن سکتی ہے۔ان جیسی دیگر بہت سی تو ہمات نے معاشرے کو جکڑ لیا ہے۔المیہ
یہ ہے کہ ہم علم حاصل کرنے کے باوجود ایسی غیر سائنس باتوں پر آنکھیں بند
کر لیتے ہیں جس کا حقیقت سے کوئی عمل دخل نہیں ہے۔یہ سب باتیں اپنی جگہ
انسان کو اپنی عقل استعمال کرنی چاہیے۔اﷲ رب العزت نے ہر انسان کو شعور
عطاء کیااور اس کے ساتھ ساتھ ہی کائنات پر غورو فکر کی دعوت دی ہے۔ضرورت اس
بات کی ہے کہ ان تمام عقائد ونظریات کو اپنے علم کی روشنی اور عمل کے مطابق
پر کھا جائے۔اور پھر ان کا عملی زندگی میں اثر دیکھ کر حقیقت سے تعلق جوڑنے
کے بعد ہی یقین کیا جائے اور دیگر علم وکم شعور لوگوں کو بھی اس بارے میں
آگاہ کیا جائے اور شعور تو بچوں سے بھی لیا جا سکتا ہے جیسا کہ کسی نے ایک
بچہ سے پوچھا کہ اگر کالی بلی راستہ کاٹ جائے تو اس کا کیا مطلب ہے تو بچے
نے جواب دیااس کا مطلب ہے کہ بلی بھی کہیں جا رہی ہے صرف اس جواب پر غور کر
لیا جائے تو ساری توہمات خودبخودبہ معنی ہو جائیں گی۔ |