میرا ضمیر مطمئن ہے

لوگ جان بوجھ کر چوہدری صاحب سے ان کے ماضی کے حوالے سے کوئی بات کر دیتے مگر چوہدری صاحب بڑے مطمن انداز میں ہر سوال کا جواب دیتے۔ اسی حوالے سے آج میں نے ایک سوال کر دیا۔جس کو سن کر پہلے انہوں نے مجھے گھورا پھر سینہ پھلایا۔ سینے پر زور سے ہاتھ مارا اور بولے میرا ضمیر مطمئن ہے۔ میرے پاس جو کچھ ہے میں نے محنت سے کمایا ہے۔ کسی کا حق نہیں مارا۔ لوگوں کی خدمت کی ہے اور اس خدمت کے صلے میں وہ میرا حق مجھے دیتے رہے ہیں۔ میں نے کبھی ہاتھ پھیلا کر پیسے نہیں مانگے۔ لوگ خوشی سے دیتے رہے ہیں۔ میرے بارے فضول باتیں میرے ان دشمنوں نے پھیلائی ہیں جو میرے ساتھ کام کرتے رہے ۔ ویسے ان لوگوں کو کام کرنا آتا نہیں تھابس وہ ملازم تھے سرکار کے مفت خور ملازم۔یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا بھلا سوچتے ہی نہیں۔ صرف پیسے مانگتے ہیں۔ لوگوں کے کام وہ کس طرح کرتے انہیں کام آتا ہی نہیں تھا صرف حسد کرنا یا تنقید کرنا آتا تھا۔ میں جب تک کام کرتا رہا ہوں وہ لوگ مجھ سے حسدکر تے رہے۔ انہوں نے ہی مجھ پر بے جا الزامات لگا کر مجھے محکمے سے نکلوا دیاتھا۔ میرے بعد دیکھیں محکمے کا کیا حال ہوا۔ چونکہ کسی کو کام کا پتہ ہی نہیں تھااسلئے میرے بعد ہر بندے کو احساس ہوا کہ جس شخص کے دم سے محکمہ چل رہا تھا اسے نکال کر محکمے کے ساتھ بھی زیادتی کی گئی۔

میں نے چودھری صاحب کو پھر ایک چبھتا ہوا سوال کیا۔ چودھری صاحب آپ کو آج سے تقریباً پچیس سال پہلے نوکری سے نکالا گیا تھا۔ آپ ایک کلرک تھے اور آپ پر کرپشن کے الزامات تھے۔ اس وقت آپ کے پاس کروڑوں روپے تھے جو سب آپ نے رشوت میں حاصل کئے تھے اور آپ نے اپنے اسی سرمائے کے زور پر خود کو تمام الزامات سے بری کروایا۔ کیا یہ بات سچ نہیں ہے؟ چودھری صاحب نے دلیری سے جواب دیا ہاں سچ ہے لیکن میں کرپٹ نہیں تھا۔میں نے کبھی رشوت نہیں لی ۔ رشوت تو وہ ہے جو زبردستی مانگ کر وصول کی جائے ۔ میرے ساتھی کرپٹ اور رشوت خور تھے۔مجھے پکڑنے اور پھر بری کر نے والے اہلکار کرپٹ اور رشوت خور تھے۔ انہوں نے مجھ سے زبردستی بہت سے پیسے وصول کئے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اﷲ کا احسان ہے اس نے مجھے بچایا اور بہتر مستقبل دیا۔ میں نے بڑی صاف ستھری اور اچھی زندگی گزاری ہے ۔ کبھی رشوت کا سوچا ہی نہیں ۔ صرف خدمت کی ہے اور اس خدمت کے عوض لوگوں نے اپنی خوشی سے جو دیا ہے وہی میرے پاس ہے اسی لئے آج میرا ضمیر مطمئن ہے۔

چوہدری کے والد ایک مزدور تھے، کسی زمیندار کے گھر پر ملازم تھے۔ باپ ایک دو دفعہ اپنے چھوٹے سے بچے کو بھی کام پر لے گیا۔ زمیندار کی نظر پڑی تو اس نے ملازم کو برا بھلا کہا کہ چھوٹے سے بچے کو پڑھانے کی بجائے کام پر لگا رہے ہو۔ پھر زمیندار نے سختی سے کہا کہ اسے پڑھاؤ۔ اخراجات میں دے دوں گا۔ یوں زمیندار کی مہربانی سے چوہدری نے میٹرک کر لیا۔ اب نوکری کا مرحلہ درپیش تھا۔ چوہدری بلا کا ذہین تھا۔ علاقے کا منتخب نمائندہ ان دنوں وزیر تھا۔ گاؤں کے ایک معتبر سے اس کے نام رقعہ لے کر چوہدری شہر وزیر صاحب کے گھر پہنچ گیا۔ گھر کے ایک کونے میں وزیر صاحب نے ایک دو کمرے اس مقصد کے لئے رکھے تھے کہ حلقے سے کوئی ضرورت مند آئے تو ایک دو دن وہاں ٹھہر سکے۔ چوہدری نے وزیر صاحب کو نوکری کی درخواست دی اور وہیں مستقل رہائش اختیار کر لی۔ وزیر صاحب نے ایک دو دفعہ جانے کا کہا تو بڑی سادگی سے پوچھا کہ کہاں جاؤں؟ جیب میں پیسے نہیں، رہنے کو جگہ نہیں۔ وزیر صاحب نے دیکھا کہ چوہدری صاحب نوکری لئے بغیر نہیں جائیں گے تو اپنے محکمے میں ہی ایک جگہ کلرک کی نوکری لے دی۔

اب چوہدری وزیر صاحب کے گھر سے دفتر جانے لگا اور تاثر یہ دینے لگا کہ وہ وزیر صاحب کا عزیز ہے۔جن لوگوں کو وزیر صاحب سے کام تھے فوراً چوہدری کے پاس پہنچ گئے۔ ایک ہفتے ہی میں دو تین موٹی اسامیاں چوہدری کے وساطت سے وزیر صاحب کو ملیں اورمعقول رقم کے عوض وزیر صاحب سے کچھ کام کروا لئے وزیر صاحب کو فائدہ نظر آیا تو چوہدری کو گھر میں ہی رہنے دیا۔ اب وزیر صاحب کے عزیز کے طور پر بہت سے سودے چوہدری کرتا اور فائدہ دونوں اٹھاتے۔ وزیر صاحب کی وزارت ختم ہونے تک چوہدری نے معقول پیسے کما لیے تھے۔ اپنا گھر بھی بنا لیا تھا۔ اب چوہدری کلرک ہونے کے باوجود اپنے محکمے کا انتہائی فعال آدمی تھا۔ کھلم کھلا لوگوں سے پیسے وصول کرتا مگر اس میں ایک خوبی تھی کہ وصول ہونے والی رقم اوپر تک ہر آدمی کو خود پہنچا کر آتا۔ طریقہ واردات بھی انتہائی شاندار تھا۔ چیئرمین کو پتہ ہو یا نہ ہو، کام کرنے والے کو کہتا کہ چیئرمین نے اس کام کے اتنے لاکھ مانگے ہیں اور میرا تو تم کو پتہ ہے میں کبھی لالچی نہیں رہا۔ اپنی خوشی سے کچھ دے دو تو ٹھیک اور اگر نہ بھی تو بھی ٹھیک۔ لیکن لوگ اس کا علیحدہ حصہ بھی دیتے تھے کہ اس کو پیسے دینا کام ہو جانے کی یقینی ضمانت تھا۔

ایک دفعہ اس کے محکمے میں ایک حقیقی ایماندار افسر آ گیا۔ چوہدری اس کے حصے کے پیسے دینے پہنچا تو چیئرمین نے اس حرکت کو گستاخی جانا۔ اردگرد بہت سے لوگ جو چوہدری کے اثر اور چودہراہت سے تنگ تھے، چیئرمین کے کان بھرنے لگے۔ دو ہفتوں میں چیئرمین نے چوہدری کو فارغ کیا اور اس پر ایک کیس بھی بنوا دیا۔ کیس چونکہ جلدی میں ٹھوس ثبوتوں کے بغیر بنایا گیا تھا اس لئے جلد ہی کیس ختم ہو گیا اور چوہدری بری ہو گیا۔ اس وقت چوہدری کے پاس کروڑوں روپے تھے جن سے اس کے سارے خاندان، بھائیوں، بیٹوں اور بھتیجوں نے چوہدری کی سرپرستی میں بہت سے کام شروع کئے۔ چوہدری کا تعارف ایک ریٹائرڈ بڑے سرکاری افسر کے طور پر ہوتا ہے اور اس کے سبھی عزیزاس کے مشورے پر عمل کرتے ہیں۔ چوہدری کا ایک بھتیجا میڈیا چینل بھی چلاتا ہے جس پر کبھی کبھی چوہدری صاحب مبصر کے طور پر آتے اور اپنے ارشاداتِ عالیہ سے قوم کو فیضیاب کرتے ہیں۔ نجی محفلوں میں ان کی باتیں مزے دار ہوتی ہیں۔ ہر لیڈر کے بارے میں بتاتے ہیں کہ مشورے کے لئے آتا ہے۔ مگر فلاں مسئلے پر میرے کہنے پر عمل نہ کرنے پر اسے فلاں خمیازہ بھگتنا پڑا۔ سرکاری افسر کے طور پر ان کا مرتبہ کیا تھا، یہ پوچھنے پر کہتے ہیں کہ بس اپنے محکمے کا عملاً میں ہی چیئرمین تھا۔ ویسے کئی چیئرمین آئے مگر اختیار کے حساب سے ان کی کوئی حیثیت نہ تھی۔ محکمہ میں ہی چلاتا تھا اور میں نے اپنا کام بڑی محنت اور ایمانداری سے کیا ہے۔ میرا ضمیر مطمئن ہے۔

میں سوچتا ہوں یہ کیا کمال ضمیر ہے کہ بہت کچھ کرنے کے بعد بھی بہت مطمئن ہے۔رشوت کو رشوت نہیں اپنی خدمت کا صلہ جانتا ہے۔ شاید یہ اب قومی ضمیر ہے۔پوری قوم کا ضمیر۔ کسی کو جائز اور ناجائز کا فرق پتہ ہی نہیں۔ کسی کو حرام اور حلال کی تمیز ہی نہیں۔ سب کچھ سمیٹ لینے کی ایک دوڑ لگی ہے اور ہردوڑنے والا اس کوشش میں ہے کہ اس دوڑ میں سب سے آگے نظر آئے۔اس معاشرے میں پیسہ ہی سب کچھ ہے اور پیسے ہی سے سب کچھ ہے ۔ عزت ،وقار ، مرتبہ سب پیسے ہی کے بل پر ہے۔اس رحجان کو اور اس سوچ کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک یہ رحجان اور یہ سوچ ختم نہیں ہو گی ہم ذہنی اور اخلاقی پسماندگی کا شکار رہیں گے۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500816 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More