انڈونیشیا میں ’اسلامی مقابلہ ٴحسن‘ تیونس کی خاتون فاطمہ
بن غفریش نے جیت لیا ہے، جنھوں نے فائنل مقابلے کی 17 امیدواروں کو شکست
دینے کے بعد 'مس ورلڈ مسلمہ 2014' کا تاج اپنے سر پر سجا لیا ہے۔
چوتھے بین الاقوامی اسلامی مقابلہ حسن فائنل کا انعقاد جمعے کے روز 21
نومبر کو سنٹرل جاوا کے ایک قدیم ترین مندر 'برمائن' میں کیا گیا۔
|
|
یہ مقابلہ ہر سال انڈونشیا کی ایک چیریٹی تنظیم 'ورلڈ مسلمہ فاونڈیشن' کی
طرف سے کرایا جاتا ہے، جو دنیا بھر میں جنگ، تنازعات اور قدرتی آفات سے
متاثر ہونے والی خواتین کی امداد کے لیے کام کرتی ہے۔
وائس آف امریکہ کے مطابق مقابلے کے فائنل راونڈ میں خواتین اسلامی فیشن کے
ساتھ زرق برق گاؤن اور حجاب پہن کر اسٹیج پر جلوہ گر ہوئیں۔ لیکن، مقابلہ
جیتنے کے لیے یہاں ان کی ہزاروں وولٹ کی مسکراہٹ ہی کافی نہیں تھی، کیونکہ
اس مقابلے میں حسن کا معیار صرف ظاہری حسن نہیں ہے بلکہ، مسلم مس ورلڈ کا
خطاب جیتنے کے لیے انھیں پرہیزگاری، اسلام سے متعلق معلومات اور دور جدید
کے بارے میں ان کے خیالات کی بنیاد پر پرکھا جاتا ہے۔
مس ورلڈ مسلمہ کا تاج پہننے والی 25 سالہ فاطمہ بن غفریش کمپیوٹر انجنیئر
کی حیثیت سے کام کرتی ہیں۔ اس موقع پر فاطمہ بن غفریش نےایک جذباتی تقریر
کرتے ہوئے دنیا سے فلسطین اور شام کی آزادی کے لیے ہمدردانہ اپیل کی۔
فاطمہ بن غفریش کو مس ورلڈ مسلمہ کا تاج سونپنے کے لیے پچھلے سال کی مسلم
مس ورلڈ نائجیریا کی 21 سالہ مس اوبئبی عائشہ اجیبولہ نے اس تقریب میں
خصوصی شرکت کی۔
مس ورلڈ مسلمہ جیتنے پر فاطمہ کو دو لوگوں کے لیے مکہ شریف کا ہوائی ٹکٹ
،سونے کی گھڑی اور 10,000 مالیت کے دینار کا تحفہ پیش کیا گیا۔
ورلڈ مسلمہ فاونڈیشن کے مطابق، فائنل امیدوراوں کو ججوں کی جانب سے سماجی
سرگرمیوں، گلوبل مسائل پر ان کی معلومات اور کمیونٹی خدمت کے ساتھ ساتھ
دینی اسلام سے وابستگی کی بنیاد پر اسکور دیا گیا۔ تاہم، مس ورلڈ مسلمہ اور
رنر اپ مس ورلڈ کا فیصلہ 100 یتیم نوجوانوں کے ایک گروپ نے کیا۔
|
|
منتظمین کا کہنا ہے کہ مقابلے کا مقصد اسلام کی تفہیم کو بڑھانا اور غربت
کو کم کرنا ہے۔ بقول منتظمین، ہماری نظر میں یہ مقابلہ حسن نہیں ہے، بلکہ
اس مقابلے کو ہم ایک ایوارڈ سمجھتے ہیں، جو ایک ایسی خاتون کو دیا جاتا ہے۔
جس میں دوسروں کے لیے رول ماڈل بننے کی صلاحیت ہوتی ہے ۔منتظمین نے بتایا
کہ انڈونیشیا کے مقدس ہندو مندر میں اسلامی مقابلہ حسن کرانا ایک سوچا
سمجھا فیصلہ تھا، جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمان دیگر عقائد کا احترام
کرتے ہیں۔
اسلامی مقابلہ حسن کا انعقاد پہلی بار2011ء میں ہوا، جبکہ 2013 ء سے مقابلے
میں دنیا بھر کی مسلم خواتین کو حصہ لینے کی دعوت دی گئی
رواں برس کے مقابلے میں انڈیا، امریکہ، برطانیہ، ایران، مصر، نیدرلینڈ،
فلسطین،جرمنی، بنگلہ دیش، نائجیریا اور کئی دیگر ملکوں کی نوجوان مسلمان
خواتین نے حصہ لیا، جبکہ انڈونیشیا کی 8 خواتین مقابلے میں شریک ہوئیں۔
مقابلے کا آغاز 13 نومبر کو جاوا کے شہر یوگیا کارتا میں ہوا۔مقابلے کے
دیگر راونڈز میں شرکاء نے یتیم خانوں، نرسنگ ہومز کا دورہ کیا جبکہ 25
امیدوراوں کی کہانیاں اور سماجی سرگرمیوں کی ویڈیوز بھی تنظیم کی ویب سائٹ
پر دکھائی گئی ہیں جس میں نوجوان خواتین نے بتایا کہ وہ کیوں حجاب پہنتی
ہیں۔
مقابلے کی عمومی شرائط کے مطابق، مس ورلڈ مسلمہ مقابلے کے لیے شرکاء کا سر
پر اسکارف یا حجاب لینا لازمی ہے اسی طرح لباس کے حوالے سے ایسا لباس پہننا
ضروری ہے جس میں صرف ان کا ہاتھ اور چہرہ نظر آئے۔
مس ورلڈ مسلمہ انتظامی اعتبار سے کئی طرح کی تنقید بھی برداشت کرنی پڑی
رواں برس بھی مقابلے میں شرکت کرنے کی خواہشمند خواتین انڈونیشیا کی افسر
شاہی کا شکار بن گئیں یا پھر انھیں گھروں سے مقابلے میں شرکت کی اجازت نہیں
ملی۔
اسی طرح، ایک بھارتی خاتون جب مس ورلڈ مسلمہ مقابلے میں شرکت کرنے کے
ائرپورٹ پر پہنچی تو حجاب پہن کر تنہا سفر کرنے کی وجہ سے انھیں سیکیورٹی
کی جانب سے سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا، جس کی وجہ سے وہ مقابلے میں شرکت
نہیں کر سکی۔ |