تقریبا دوہفتے کی کاروائی اور60 گھنٹے کی مسلسل جدوجہد،
شدید گھیرا بندی اور 45 ہزار جوانوں کی طاقت استعمال کرنے کے بعد بدھ کی
رات میں ستلوک آشرم کے بابا رام پال کوپولس گرفتار کرنے میں کامیاب ہوگئی
تاہم آشرم میں اب بھی ہزاروں حامی موجود ہیں۔ اور ان کے لئے مسلسل لنگر چل
رہا ہے۔
اس سے قبل منگل کو بابا کے ستلوک آشرم کے باہر 45 ہزار سیکورٹی فورسز اور
رامپال کے حامیوں کے درمیان 6 گھنٹے تک جدوجہد جاری رہی تھی ۔ آشرم کے اندر
سے پٹرول بم اور پتھر پھینکے گئے ۔ گولیاں چلائی گئیں۔متعدد پولس اہلکار
زخمی ہوئے۔لیکن پولس نے بابا کی گرفتاری کے لئے کوئی اقدام نہیں کیا ۔ نہ
ہی گولیاں چلائی اور نہ ہی کوئی دوسری کاروائی کی ۔ہاں پولس والوں نے دنیا
کے سامنے اپنی بزدلی پر پردہ ڈالنے کے لئے میڈیا پر شدید حملہ کیا ،
پروگرام کوریج کرنے کے لئے گئے صحافیوں کو ڈورا ڈورا کرمارا ۔ ان کے کیمروں
کوتوڑ ا۔ اس سے قبل ہریانہ کے نومنتخب وزیر اعلی منوہر لال کھٹر نے بھی سنت
رام پال سے انتہائی عجز وانکساری کے ساتھ یہ دراخواست کی تہی کہ وہ بغاوت
پر آمادہ ہونے کے بجائے عدالت میں حاضر ہوجائے لیکن بابا نے اس پہ بھی کوئی
توجہ نہیں دی تھی۔
قتل کے معاملے میں پیشی کے لئے پنجاب و ہریانہ ہائی کورٹ کے حکم سے مسلسل
انکار کرنے والے بابا کے بروالا (حصار، ہریانہ) میں واقع آشرم سے کئی
چونکانے والی حیرت انگیز چیزیں ملی ہیں۔ساتھ ہی رام پال سے متعلق کئی
ایسےانکشافات بھی سامنے آئے ہیں جس سے عصمت دری کے جرم میں جیل کی سلاخوں
کے پیچھے بند بابا آسارام کے کرتوت بابارام پال کے سامنے ہیچ نظر آرہے ہیں
۔بارہ ایکڑ میں بنا یہ آشرم ہندوؤں کی مذہبی عبادت گاہ نہیں بلکہ فحاشی اور
برائی کا مرکزی اڈہ تھا ۔عورتوں کی عصمت دری ہوتی تھی ۔ غریبوں کو لوٹا
جاتھا ۔ ریٹائرڈ کمانڈوز کا استعمال کرکے طاقت کا ناجائز استعمال کیا جا
رہا تھا۔ تلاش مہم کے دوران پولس کو جو معلومات دستیا ب ہوئی اس کے روشنی
میں ذیل میں پیش ہے بابارام پال کے کالے کرتوتوں کی ایک جھلک
خواتین بیت الخلاء میں نصب تھے سی سی ٹی وی کیمرے
بتایا جاتا ہے کہ ستلوک آشرم میں تلاشی کے دوران پولیس کو کنڈوم، خاتون بیت
الخلاء میں خفیہ کیمرے، نشیلی دوائیں، بیہوشی کی حالت میں پہنچانے والی
گیس، اور فحش کتاب سمیت بہت ساری قابل اعتراض چیزیں دستیاب ہوئی ہیں۔
آشرم میں کیمروں سے خواتین کی نگرانی کی جاتی تھی۔آشرم کے مرکزی دروازے کے
ساتھ بنے خواتین ٹوائلٹ کے باہر لگے کیمرے کا منہ بھی اندر کی طرف تھا۔آشرم
کے اندر نائٹروزن گیس کی بدبو آ رہی ہے۔محکمہ صحت کے افسران اس کو خطرناک
بتاتے ہوئے نشیلی گیس کہہ رہے ہیں۔
عصمت دری کا الزام
بدھ کو آشرم سے باہر آنے پر خواتین نے بھی چونکانے والے کئی انکشافات کئے
ہیں۔ان کے مطابق ذاتی کمانڈو انہیں یرغمال بنا کر عصمت دری تک کرتے
تھے۔مخالفت کرنے پر کئی دنوں تک پہننے کو کپڑے تک نہیں دیا جاتا تھا۔ ایسی
جگہ رکھا جاتھاجہاں تک ان کی آواز نہیں پہنچ سکتی تھی۔پولیس نے بھی معاملے
کی تصدیق کی ہے۔ان کے مطابق، عورتیں یہاں دوائی لینے آتی تھیں لیکن دوا
دینے کے بجائے ان کے ساتھ عصمت دری کی جاتی تھی تھی۔
آشرم سے باہر آئی ایک خاتون نے بتایا کہ گزشتہ کئی دنوں سے اس کے ساتھ عصمت
دری کی جارہی تھی ۔وہ اپنے شوہر اور بچے کے ساتھ یہاں آئی تھی۔سات دن سے وہ
آشرم میں ہی تھی۔پانچ دنوں سے اس کا شوہر سے رابطہ نہیں ہو پا رہا تھا۔
دودھ سے نہاتا تھا رامپال
آشرم میں پوجا کے لئے آئے ایک عقیدتمند نے بتایا کہ رامپال کو دودھ سے غسل
دیا جاتا تھا اور بعد میں اسی دودھ کی کھیر بنا کر پرساد کے طور پر بانٹ
دیا جاتا تھاعقیدت مندوں کو کہا جاتاتھا کہ یہی کھیر ان کی زندگی میں مٹھاس
لائے گی۔
این ایس جی اور ایس پی جی سے ٹرینڈ کمانڈو معمور تھے سیکورٹی پر
ہریانہ پولیس اپنی تفتیش میں اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ بابا رامپال کے کم سے
کم 300 سکیورٹی اہلکاروں کو آرمی اور پولیس سے ریٹائر لوگوں نے ٹرینڈ
کیا۔ٹریننگ دینے والوں میں نیشنل سیکورٹی گارڈز (این ایس جی) اور اسپیشل
پروٹیکشن گروپ (ایس پی جی) کے لوگ شامل ہیں۔انٹیلی جنس سے منسلک ذرائع کہتے
ہیں کہ رامپال کی فوج میں 25 سے 35 سال کے افراد بھرتی کیے گئے ہیں۔ان کے
پاس پوائنٹ 315 بور کی رائفل، پوائنٹ 32 بور کی رائفل اور پستول ہیں۔
آشرم میں بنوا رکھی تھی سرنگ
روہتک کروتھا میں واقع آشرم میں رامپال نے سرنگ بنوا رکھی تھی۔وہ اکثر اسی
سرنگ میں لگی لفٹ کے ذریعے ظاہر ہوتا تھا۔ یہاں تمام جدید سہولیات موجود
ہیں۔آشرم میں چھاپاماری کے دوران یہاں 30 کلو سونے کے زیورات ملے ہیں ۔ان
میں زیادہ تر خواتین کے قیمتی زیوارات ہیں۔یہاں نوٹوں سے بھری کئی بوریاں
اور سککوں سے بھری 17 بوریاں ملی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی غیر ملکی شراب کی کئی
بوتلیں اورعیاشی کے کئی اور سامان بھی برآمد ہوئے ہیں۔
کون تھا یہ رام پال
رام پال بابا ایک انجینئر تاو۔ ۱۹ سالوں تک انہوں نے محکمہ زراعت میں
ملازمت کی۔ ۲۰۰۰ میں لاپرواہی کے سبب اسے نکال دیا گیا ۔ اس سے قبل ۱۹۹۹
میں وہ کرونتھا کے اندراپنا ست لوک آشرم قائم کر چکا تات ۔ ۲۰۰۱ میں
بروال کا آشرم بنا جو ۳ ایکڑ پر تھا لیکن ۲۰۰۸ تک ۱۲ ایکڑ میں پھیل گیا۔
دیکھتے دیکھتے ہریانہ وہ دیگر ریاستوں میں بھی کئی کئی ایکڑ پر بہت سارے
آشرم عالمِ وجود میں آگئے۔ ۲۰۰۶ میں رام پال بابا نے دیانند سرسوتی پر
تنقید کردی جس سے کرونتھا کے آریہ سماجی چراغ پا ہوگئے۔ ۱۲ جولائی ۲۰۰۶
کو جب آریہ سماجی ست لوک آشرم کے باہر مظاہرہ کررہے تھے تو ان پر اندر سے
گولی چلائی گئی جس میں ایک نوجوان ہلاک ہو گیا۔
کیا تھا معاملہ؟
مشہور ستلوک آشرم کے باہر جمع بھیڑ پر ہوئی فائرنگ میں جس نوجوان کی موت ہو
گئی تھی اس کے بھائی کا کہنا تھا کہ گولی آشرم کی جانب سے چلی تھی۔اس
معاملے میں بابا رامپال اور ان کے 37 حامیوں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔اسی
معاملے پر 12 مئی 2013 کو کروتھا میں پولیس اور گاؤں کے باشندوں کے درمیان
پرتشدد جھڑپیں ہوئیں جس میں تین لوگوں کی موت ہو گئی ۔ 14 مئی 2013 کو
پولیس نے آشرم خالی کرایا۔رامپال بروالا میں واقع آشرم میں چلے گئے۔کروتھا
آشرم کو انتظامیہ نے قبضے میں لے لیا۔انہی معاملات میں بابا رامپال اور ان
کے پیروکاروں کے خلاف مقدمہ چل رہا ہے۔عدالت کے احکام کے باوجو ہائی کورٹ
میں حاضر نہ ہونے پر حصار کورٹ میں 14 مئی، 2014 کو کی ویڈیو کانفرنسنگ کے
ذریعہ رام پال کی پیشی ہوئی۔سماعت کے دن حامیوں نے کورٹ احاطے میں گھس کر
خوب ہنگامہ کیا ۔وکلاء کے ساتھ ہاتھا پائی کی اور ججوں کے خلاف نعرے بازی
بھی کی۔ہائی کورٹ نے خود نوٹس لیا۔ان کو پیش ہونے کا حکم دیا گیا۔کئی سماعت
پر بابا پیش نہیں ہوئے تو عدالت نے رامپال اور ان کے حامیوں کی خدمت کمیٹی
کے چیئرمین رامکمار ڈھاکہ کے خلاف غیر ضمانتی وارنٹ جاری کیا۔ڈھاکہ پیش ہو
چکے ہیں، انہیں ضمانت بھی مل گئی ہے۔بابا رامپال کو پہلے پانچ نومبر، پھر
10 نومبر اور پھر 17 نومبر کو پیش ہونے کی تاریخ دی گئی۔لیکن ہر بار وہ
میڈیکل رپورٹ بھجوا تا رہا ۔
اگر رام پال مسلمان ہوتا؟
یہ داستان ہے ایک سنت کی اسی کی طرح کی کہانی باپوآسارام کی ہے جو ان دنوں
جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند ہے۔ اور نہ جانے ہندوستان میں کتنے ایشے آشرم
ہیں جہاں عقیدت کے نام پر عورتوں کی عصمت لوٹی جاتی ہے ۔ عیاشی اور فحاشی
زناکاری کی محفلیں سجائی جاتی ہیں۔
بفرض محال اگر س طرح کا واقعہ کسی مسجد یا مدرسہ میں پیش آیا ہوتا ۔ کسی
مسجد کے امام یا مدرسہ کے استاذ نے رام پال کے کالے کرتوتوں میں سے کسی ایک
کا بھی ارتکاب کیا ہوتا تو اس وقت مرکزی اور ریاستی حکومت کی کاروائی کا
انداز یہی ہوتا؟ ۔ ہندوستانی عوام اسی انداز سے اپنے ردعمل کا اظہار کرتی،؟
سیاسی لیڈراں اسی زبان میں باتیں کرتے ؟۔ ہندوستانی میڈیااسی انداز سے دنیا
کے سامنے اسے پیش کرتی؟ ۔میر اخیال ہے اگر ان سب کا ایک جز بھی مدرسہ
یامسجد میں پیش آیا ہوتا تو حکومت تمام مدارس اور مساجد کو کٹہرے میں
لاکھڑا کردیتی ۔ میڈیا فرد واحد کے جرم کو ہرایک پرچسپاں کرچکی ہوتی۔ اور
یہی کہا جاتاکہ یہ آشرم نہیں زنا کا ری کے اڈے ہیں۔ ان آشرموں میں دھرم کے
ٹھیکڈار دھرم پر سیاہ داغ لگاتے ہیں۔عیاشی اور شہوت پرستی کی تکمیل کرتے
ہیں۔ |