حقوق انسانی نہایت اہم موضوع ہے اپنے حقوق سے آگاہی ہر
انسان کا بنیادی حق ہے انسانی حقوق کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ
انسان ، کیونکہ جب انسان نے اِس دنیا میں قدم رکھا تو وہ رہن سہن کے طور
طریقوں سے آشنا تھا ، جوں جوں وقت گزرتا گیا ، اسے بہت سی چیزوں کا ادراک
ہوا دوسروں کے ساتھ مل جل کے رہنے کا تصور پیدا ہوا اس طرح ایک منظم
معاشرتی زندگی کا آغاز ہوا ریاست کا عام شہری ہونے کی حیثیت سے افراد پر
جہاں ذ مہ داریاں اور فرائض عائد ہوتے ہیں وہاں شہریوں کے لئے شہریت کے کچھ
حقوق بھی متعین لیے گئے ہیں جب منظم معاشرتی زندگی کا آغاز ہوا تو اُس کے
ساتھ ہی فرد کیحقوق کا احساس بھی پیدا ہوا اور جیسے جیسے معاشرتی زندگی میں
فرد کی حیثیت نمایاں ہوتی رہی اس طرح انسان کی حقوق کا تصور بھی نمایاں
ہوتا رہا ، مختلف دور میں مفکرین نے انسانی حقوق کی تعریف مختلف کی ہے ،
انسائیکلو پیڈیا آف برٹینکا میں اس کی تعریف اس طرح کی گئی ہے کہــ’’انسانی
حقوق زندگی کی ان لازمی شرائط کا نام ہے جو فرد کو وودیت ہوئی ہیں انہیں
معاشرہ تسلیم کرتا ہی اور ریاست تحفظ فراہم کرتی ہے ‘‘ ۔ معاشرے میں باعزت
زندگی گزارنے کے لیے انسانی حقوق کی پاسداری بہت ضروری ہے کیونکہ ان کے
بغیر انسان ، انسانیت کے مرتبے پرنہیں پہنچ سکتا اور جب انسانی حقوق کی حد
سے زیادہ حق تلفی ہورہی ہو تو پھر اس کے لیے قانون نافذکرنے والے ادارے
حرکت میں آجاتے ہیں ہمارے ملک میں اکثریت کا تعلق مذہب اسلام سے ہے
۔درحقیقت قرآن و سنت کی روشنی میں واضع کیے گئے قوانین سب انسانوں کے حقوق
کا بھر پور تحفظ کرتے ہیں۔ مغرب میں ان قوانین کو انسانی حقوق کے خلاف
بتایا جاتا ہے اور اسلام کو جابرانہ نظام زندگی بنا کر پیش کیا جاتا
ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
حقوق معاشرتی زندگی کی وہ شرائط ہیں جن کے بغیر انسان اپنی شخصیت اجاگر
نہیں کرسکتا ، گویا ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام شہریوں کو ایسی
سہولتیں فراہم کرے جس سے فرد اپنے مزاج اور صلاحیتوں کے مطابق اُسے استعمال
کر سکے ، انسانی حقوق کو ریاست تسلیم کرتی ہے اور اس پر یہ ذمہ داری بھی
عائد ہوتی ہے کہ انہیں نافذ کرے اورجب ان حقوق کو آئینی تحفظ مل جاتاہے تو
پھر یہ بنیادی انسانی حقوق کی حیثیت اختیار کرتے ہیں یہ ساری کائنات ایک ہی
خدا ئے واحد کی تخلیق کردہ ہے ، خدا کی اس واحد تخلیق میں سب سے افضل انسان
ہیں جسے اشرف المخلوقات کا درجہ دیا گیا ہے آج صدیوں بعد جب انسان شعور کی
ان منزلوں کو پہنچا ہے جہاں انسان اور انسانیت کی اہمیت کومحسوس کرتے ہوئے
اقوام عالم نے انسانی حقوق کا نعرہ بلند کرنا شروع کیا ہے دنیا بھر میں بے
شمار عالمی تنظیم وجود میں آئیں جو دنیا بھر میں ہونے والی انسانی حقوق کی
پامالیوں کے خلاف آواز بلند کرنے کی سعی میں مصروف ہیں ، لیکن ہمارے مذہب
اسلام نے چودہ سو سال قبل ہی انسان کو نہ صرف انسانی حقوق کے تصور سے آشنا
کیا ، بلکہ حقوق و فرائض کا تعین بھی کیا خطبہ حجتہ الوداع اس کی اہم مثال
ہے ، اس کے علاوہ انسانوں کی ساتھساتھ جانوروں پر بھی رحم کرنے کی تعلیم دی
انسان اپنی تخلیق کے اعتبار سے تمام مخلوقات سے افضل ہے آدم کی تخلیق کے
ساتھ ساتھ ہی انسان کو انسانیت کے اہم ترین منصب پر فائض کیا گیا حتٰی کہ
فرشتوں سی نوری مخلوق نے مٹی سے تخلیق کئے گئے آدم کو سجدہ کیا ،انسان
کائنات میں خدا کا نائب قرار دیا گیا ہے ۔خدا کی نزدیک کوئی انسان بھی
دوسرے انسان سے بد تر نہیں بلکہ برابر ہیں۔ اسلامی معاشرہ ایک متوازن
معاشرہ ہے، اور پاکستان ایک اسلامی مملکت ہے اسلامی معاشرے میں والدین ،
اولاد، عورتوں بچوں اور باہمی رشتوں کی درمیان حقوق کے لئے حقوق کا نہ صرف
تعین کیا گیا ہے بلکہ افراد پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی ہے کہ وہ احسن
طریقے سے اپنے فرائض سر انجام دیں ۔ انسانی حقوق میں سر فہرست زندگی کا
تحفظ ہے( جو کہ یہاں نہ ہونے کے برابر ہے ) اس لئے انسانی معاشرے میں
انسانی حقوق فراہم کرنے کے لئے امن برقرار رکھنا ضروری ہے اخبارات سے ظاہر
ہوتا ہے کہ شاید ہی کوئی دن ایسا ہو جب پاکستان کے مختلف علاقوں میں قتل ،
زنا، چوری اور ڈاکہ زنی کا کوئی نہ کوئی واقعہ رونما نہ ہو اہو اب تو یہ
واقعات روز مرہ کا معمول بن چکے ہیں، جوں جوں سیاست میں کرپشن بڑھ رہی ہے
جرائم میں کچھ ایسے نئے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے جو عوام کے لئے بے حد
تشویش کا باعث ہیں ، بھتہ وصول کرنے کی وباء جو پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ
میں لے چکی ہے جنھوں نے لوگوں میں خوف و ہراس کی لہر دوڑادی ہے، کسی بھی
دورے حکومت میں انسانی زندگی کی کوئی اہمیت نہیں رہی عوام ایک استعمال کرنے
والی کی چیز بنتی جارہی ہے یہاں بم دھماکے ہوں تو عوام زد میں آجاتی ہے کسی
پولیس یا رینجرز سے اتفاقاً نہتے عوام پر گولی چل جاتی ہے، گھروں میں گھس
کر قتل ہوجاتے ہیں جن میں ننھے بچے ، عورتیں ، بزرگ شامل ہوتے ہیں اور
اختتام پر یہ سننے کوملتا ہے کہ ملزم کی تلاش جاری ہے، مسجدوں میں نمازیوں
پر اندھاد ھند فائرنگ ہوجاتی ہے عورتوں کی عزت محفوظ نہیں ، عورتوں اور
بچوں پر بیہمانہ تشددمیں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ، ان روح فرسا واقعات کے
علاوہ پورے ملک کے طول و عرض میں شہر کی کوئی جگہ بھی دھماکوں سے محفوظ
نہیں چاہے وہ مسجد ہو یا بارونق بازار، ریلوے اسٹیشن ہو یا مزار، اسکول ہو
یا کالج سب سے محفوظ سمجھی جانے والی جگہ واہگہ باڈر بھی، پچھلے دنوں کتنے
انسانوں کی زندگی کو نگل گیا، شاہراوں پر ، بسوں میں راہ چلتے ہوئے لوٹ مار
، سڑکوں پر کھڑی گاڑیاں کی دن دھاڑے چوری ، سر کٹی لاش ، نامعلوم شخص کی
مسخ شدہ لاش ملنا یہ اب معمول کا کام ہوتا جارہا ہے ،قبائلی جھگڑوں میں
اکثر جانے ضائع ہوتی رہتی ہیں اس طرح کے جھگڑے اور تصادم ہمیں دورِ جاہلیت
کی یاد دلاتے رہتے ہیں اور ہم سوچتے ہیں کہ کیا یہ ایک آزاد اور ترقی یافتہ
ملک ہے۔۔۔۔۔ ؟ یہاں وڈیروں اور قبائلی جاگیر داروں کسی اصول یاقانون کے
پابند نہیں یہاں انسانی حقوق کس چڑیا کا نام ہے کسی کے علم میں نہیں یہاں
درجنوں جانے کسی بھی معمولی جھگڑے کی نظر ہوجاتی ہیں ، زرا زرا سی بات پر
لوگ اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، جان و مال کے تحفظ کے بعد
انسا نی عزت و حر مت کا تحفظنہہونے کے برابر ہے یہاں مرد اپنے آپ کو فوقیت
دیتا ہے اور عورتوں پر ظلم و جبر عام ہیں، انسانی حقوق کے لحاظ سے اسلام
میں مرد و عورت برابر ہیں ان دونوں کی عزت و وقار میں کوئی فرق نہیں ، پھر
ایسا کیا ہے جو ہمیں اسلام پر عمل کرنے سے روکتاہے ۔۔۔۔۔؟ خواتین کے خلاف
سر زد ہونے والے بہت سے ایسیجرائم جنکا تعلق گھریلو تشدد یا جنسی تشدد سے
ہے رپورٹ نہ ہونے کے باعث بے نقاب نہیں ہوتے۔ پولیسذرائع کے مطابق عورت کے
خلاف کئے جانے والے جرائم کے صرف35%واقعات تھانوں میں رجسٹرڈ ہوتے ہیں ،
گزشتہ سال عورتوں کے خلاف17,000کیس رپورٹ ہوئے اس تعداد سے اندازہ لگتا ہے
کہ اصل تعداد پچاس ہزار کے لگ بھگ ہوگی۔کسی ترقی مذیر ملک کے لئے غربت ،
مفلسی اور بے روزگاری سب سے بڑی محرومی ہے ، دو وقت کی روٹی کے لئے ایک
غریب کو بہت پاپڑ بیلنا پڑتا ہے ، اس کو خون پسینہ ایک کرنا ہوتا ہے اگر
حالات سازگار نہ ہوں تو وہ سختیاں جھیلنے کی بجائے تشدد پراُتر آتا ہے ، ہم
نے مزدور طبقہ کو صرف حقارت سے دیکھنا اپنا فرض سمجھ لیا ہے ہم ان سے صرف
کام تو لے لیتے ہیں مگر ان کا معاوضہ وقت پر ادا نہیں کرتے ، ہمارا فرض ہے
کہ ہم ان کا معاوضہ وقت پر ادا کریں اور ان کی معاشی پریشانی بے بچائیں ۔
تعلیم کی سہولیات میں کمی کا ابھی تک خاطر خواں تدارک نہیں ہوا، شرح
خواندگی کے لحاظ سے پاکستان دنیا کے کم پڑھے لکھے معاشروں میں سے ایک ہے یہ
کیسی شرمناک بات ہے کہ پاکستان کا مقام دنیا کے122 ترقی پذیر ممالک میں111
نمبر پر ہے یہ تعلیم ہی ہے جو ہمیں خدا کی پہنچاننے میں انسان کی مدد گار
ہے اس کی بدولت انسان اچھائی اور برائی میں تمیز کرنے کے قابل ہوتا ہے مسلم
ریاست کا فرض ہے کہ وہ ایسے اقدامات کرے کہ رعایا کے لئے علم کا حصول ممکن
ہو ، علم ہی انسان کو شعور عطا کرتا ہے اور شعور کی کسوٹی پر انسان اپنے ہر
عمل کو پرکھتا ہے ہمارے ملک کی35% آبادی شرح خواندگی ہے مطلب یہ کہ64 % لوگ
جاہل ہیں جو انسانی حقوق کی نگہداشت کرنے کی اہلیت نہیں رکھ سکتے ، تعلیم
عام ہوگی تو ہم اسلام کے اصولوں سے واقف ہوں گے ہمارے عوام کی اکثریت
مسلمان ہونے کے باوجود اسلام کے تقاضوں سے کوسوں دور ہیں ، ہمارے آئین کے
شروع میں ہی یہ واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!
ـ’’ تمام کائنات کا اقتدار اعلیٰ خدا ہے ، اور پاکستان کے عوام کے پاس یہ
اختیار ایک مقدس امانت ہے جنہیں وہ اﷲ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کے تحت
بروئے کار لائیں گے‘‘
ہماری ایک بہت بڑی خامی وہ دقیانوسی قوانین ہیں جنہیں انگزوں نے اپنے مفاد
کے لئے لاگو کیا اور ہم خواہ مخواہ اُس سے چمٹے ہوئے ہیں، اور اکیسویں صدی
میں داخل ہونے کے باوجودہم صرف اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں یہ سب
کچھ جان لینے کے بعد کہ پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال غیر تسلی بخش
ہے ، ذہن میں خود بخود یہ سوال اُٹھتا ہے کہ آخر رحمتہ للعالمینﷺ پر ایمان
لانے والے اور اُن کے تقدس اور ناموس پر جان نچھاور کرنے والے معاشرے میں
اتنے بڑے پیمانے پر انسانی خلاف ورذیاں کیوں ہوتی ہیں ۔ جوآدمی آزاد فضا
میں سانس نہ لے سکے ، اس کے لئے انسانی حقوق کا تصور محال ہے ۔خدا کا شکر
ہے کہ ہم آزادی کی نعمت سے ملامال ہیں لیکن ہماری یہ بدقسمتی ہے کہ پاکستان
کے قیام سے پہلے ہم نے سالہاسال غلامی کی زندگی گزاری ہے ، یہ ستم ظرفی
نہیں تو اور کیا ہے آج بھی ہم کئی شعبوں میں انگریزوں کی کھنچی ہوئی لکیرکے
فقیر بنے ہوئے ہیں یہی وجہ ہے کہ انسانی حقوق کے زیادہ تر شعبوں میں ہمیں
پیشرفت بہت سست نظر آتی ہے، لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ صدیوں سے
جو زنگ ہمارے ذہنوں پر لگا ہے اُس کو صاف کرنے کے لئے کئی دہائیوں کی ضرورت
ہے، اگر ہم اس حقیقت کو تسلیم کر لیں تو ہماری مشکلات دور ہوجائیں ہمارے
بہت سارے مسائل حل ہوجائیں ، اور انسانی حقوق کا مسئلہ ہمارے لئے کوئی
مسئلہ نہ رہے گا ۔ |