خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن

تنگ تھی آب و ہوا، در پے آزاد تھے لوگ
ہم نے اس وقت بھی اس شہر سے ہجرت نہیں کی
سنا ہے معاشرہ بدل رہا ہے تاریکی ڈوب رہی ہے، مسافت تھم رہی ہے منزل قریب ہے ۔لیکن مجھے تو آج بھی غیرت کے نام پر قتل کیا جا رہا ہے آج بھی قرآن سے شادی ، وٹا سٹا اور نا جانے کون کونسی رسومات کے نام پر مجھے قربان کیا جا رہا ہے ،آخر کیوں ؟کیا اس لئے کے میں ایک عورت ہوں؟کیا دنیا کے تمام مذاہب نے مجھے پنا ہ نہیں دی ۔کیا میں نے مرد کے مد مقابل زندگی کے ہر شعبےمیں کامیابی حاصل نہیں کی ۔خواتین پر تشدد کے خلاف ایک دن کےسمینارز ، ورک شاپس، تقاریر اور ٹی وی پروگرامز ، کیا ان سب کو فائدہ تاریکی کے اندھیروں میں ڈوبتی دیہاتوں اور قصبوں میں دن رات جانوروں کی طرح کام کرنے والی عورت کو ہو گا؟ کیاہمارے کالم اور آرٹیکلز ان 58 فیصد خواتین کی آواز بن پائیں گے جو اپنا نام بھی نہیں لکھ سکتیں۔ نہیں یہ صرف 42 فیصد خواندہ خواتین کی نمائندگی کر سکتے ہیں جن میں سے بیشتر تعلیمی اسناد سنھبالے گھر داری میں مگن ہیں۔ کہتے ہیں طلوع اسلام سے پہلے زمانہ جہالیت میں لوگ بیٹیوں کو زندہ جلا دیتے تھے لیکن پھر اسلام کا ظہور ہواجس نے عورت کو وہ عزت و احترام عطا کیا کہ جنت اس کے قدموں تلے رکھ دی۔کیا اسلام نے عورت کو یہ عزت و مرتبہ اسی لیے دیا تھا کہ اسے جہیز نہ لانے پرآگ لگاکر جلا دیا جائے یا ذاتی دشمنی کی بنا پر اس کے چہرے پر تیزاب پھینک دیا جائےیا اس لیے کے روزگار کی تلاش میں گھر سے نکلے تو غلیظ نظروں اور جنسی طور پر ہراساں کر کے اس کا خیر مقدم کیا جائے۔ ہمارے ملک کی اکیاون فیصد آبادی خواتین پر مشتعمل ہے جن کی صلاحیتیں مردوں سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ تعلیم کا میدان ہو یا کھیلوں کی دنیا خواتین نے ہر شعبے میں مردوں کا بھرپور مقابلہ کیا ہے۔تو اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ہم اپنی آبادی کا اکیاون فیصد حصہ نظر انداز کرکے ترقی کی راہیں ہموار کر سکیں گے۔؟؟؟؟؟
 
ruba arooj
About the Author: ruba arooj Read More Articles by ruba arooj: 2 Articles with 4029 views Reporter at NEO TV, writer at Naibaat newspaper.. View More