صلیبیوں کی اسلامی ممالک میں چیرہ دستیاں

مسلم ریاست کے انتظامی وداخلہ اورامور خارجہ جب تک صلیبیوں اور دیگر غیر مسلموں کی دست برد سے محفوظ رہے اس وقت تک اسلامی ریاست محفوظ و مستحکم اور معاشرہ پرسکو ن رہا۔ جب سے غیر مسلموں خاص کر صلیبیوں کا عمل دخل ہوا پوری دنیامیں آج اسلامی ریاستیں دہشت گردی کا شکار ہیں، کہیں غربت و افلاس نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں، کہیں معاشی اور معاشرتی ناانصافیوں نے مسلم امہ کو مفلوک الحال بنارکھا ہے۔ کسی بھی ریاست میں انصاف نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی، طاقتور کمزور کا استحصال کر رہا ہے۔ مسلمان تو قرآن و سنت کے اقرار اور عمل سے مسلمان بنتا ہے لیکن اس وقت سب سے زیادہ اپنے دین سے بیگانہ اگر ہے تو مسلمان ہے۔ قرآن و سنت کے احکامات سے یکسر روگردانی اس حد تک کہ احکامات قرآنی کو سننا بھی گوارا نہیں۔ ان احکامات کو دقیانوسی خیالات کہہ کر مولویوں کی باتیں قرار دیتے ہیں ۔حالانکہ مولویوں کا اپنا تعلق دین سے صرف اپنے معاشی مسائل کے حل تک ہے۔ ایک دور تھا کہ صلیبیوں کی غلامی میں جکڑے ملک میں اہل علم و عمل حضرات معدوم وسائل کے باوجود داعی الیٰ الحق تھے ۔ گدا سے حاصل کردہ قوت سے دین کی عمارت کو مستحکم کرتے رہے یہاں تک کہ قوم خم ٹھوک کر میدان میں اتری اور اپنے نظریہ قرآن و سنت کی بقا اور نفاذ کے لیئے جان و مال کی قربانیاں دے کر نشان منزل تو پالیا۔
لیکن ایک غاصبانہ نظام حکومت وجود میں آیا۔ پاک وطن کو ایک نادیدہ جال میں قید کردیا کہ 67 سال بعد بھی صلیبیوں فرنگیوں کے جال سے آزادی نہ ملی۔ قلیل تعداد میں غاصب اور ظالم ملک کے تخت و تاج پر قابض چلے آتے ہیں۔ ان لوگوں کا آداب حکمرانی سے دور کا واسطہ نہیں۔ غاصبوں اور لٹیروں کے مختلف ناموں سے کئی گروہ ہیں۔ خوش کن نعروں سے سسکتی عوام کو اپنی شعبدہ بازیوں سے قعر مذلت میں ڈال رکھا ہے۔ ان لوگوں کا ذریعہ معاش عوام کا خون چوسنا اور انکے وسائل پر قبضہ کرنا ہے۔ عوام اتنے بے بس نہیں لیکن جہاں دنیا کے بڑے مکار صلیبی ،یہودی اور اصنامی نت نئے منصوبوں سے شعبدہ بازوں کو نوازیں وہاں مخلص عوام کیا کریں؟۔ عوام کا تو یہ حال ہے کہ تابناک مستقبل کی امید میں سڑکوں پر دھکے کھاتے ہیں، کھلے آسمان تلے کھلی سڑکوں اور چوراہوں میں مہینوں چلہ کشی کرتے ہیں۔ صرف اس امید میں کہ شائد انہیں اپنے مقتولوں کا قصاس مل جائے، لوٹی گئی دولت واپس مل جائے، بھوک اور افلاس سے رستگاری ہوجائے، شائد جس نظام اور نظریہ کے نفاذ کے لیئے پاکساتان بنا تھا وہی نافذ ہوجائے۔ جب کہیں امید کی کرن نظر آتی ہے تو صلیبی یار اپنے یاروں کی مدد کے لیئے سرگرم عمل ہوجاتے ہیں۔ مقام حیرت و استعجاب ہے کہ اپنے ملکوں کے گھمبیر مسائل سے اعراض کرتے ہوئے پاکستان کا رخ کرتے ہیں ہیں ۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ پاکستان کے عوام جس دلدل میں ہیں کہیں اس سے انہیں نجات نہ مل جائے۔ اگر پاکستان کے عوام اس دلدل سے نکل گئے تو صلیبیوں یعنی برطانیہ اورامریکہ اور اسکے دیگر ساتھیوں کا کیا بنے گا۔ میرے ایک زیرک دوست نے فرمایا کہ ہم خواہ مخواہ دوسروں پر الزام دھرتے ہیں ۔ اگر اس ملک کا نمک کھانے والے خود نمک حرامی نہ کریں تو باہر والے کیا کرسکتے ہیں۔ بالکل درست فرمایا۔ امریکی یا دیگر سازشی تو ہمیں میں سے کالی بھیڑیں اور غدار تلاش کرکے اپنے مقاصد پورے کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں قرآنی اصطلاح میں منافق کہا گیا۔ ایسے لوگ مال تو جمع کر لیتے ہیں لیکن دنیا و آخرت کی ذلت اور درد ناک عذاب انکا مقدر ہے۔ ہمارے نام نہاد سیاسی رہنما مشکل کشائی کے لیئے برطانیہ اور امریکہ جاتے ہیں۔ وہاں سے انہیں اپنے اقتدار کی طوالت اور عوام کو نئے مسائل میں الجھا نے کا طریقہ کار دیا جاتا ہے۔ یا پھر صلیبی مکار خود آکر ان لوگوں سے ملاقات کرکے انہیں نئی فریب کاریا ں سکھاتے ہیں۔ اس وقت سب سے پیش پیش امریکہ ہے۔ جو پاکستان کو اپنے اور تمام عالم کفر کے لیئے سب سے بڑا خطرہ تصور کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسکی تمام تر توجہ پاکستان پر مرکوز ہے۔ دیگر اسلامی ریاستوں سے وہ بہت حدتک مطمئن ہے۔ سعودیہ میں اسکے متعدد فوجی اڈے موجود ہیں اور اسکی پالیسیوں کو عملی شکل بھی کچھ دی گئی ہے اور کچھ زیر تکمیل ہے۔ مثلا بے جا آزادیء نسواں وغیرہ۔ جو ممالک امریکہ کو گھاس نہیں ڈالتے وہاں اس نے اپنے زرخرید گماشتوں کے ذریعہ ریاستوں کو کمزور کرنے کے لیئے فسادات اور دہشت گردی جیسے منصوبے شروع کرارکھے ہیں۔ پاکستان کے سابقہ اور موجودہ حکمران بھی اب اعلانیہ طور پر پاکستان میں اسکے وائسرائے ہیں۔ شائد عمران خان صاحب سے امریکہ کچھ خائف ہو جیسا کہ چند روز قبل امریکی سفیر سے شاہ محمود قریشی کی ملاقاتیں اور پھر بنی گالہ میں امریکی سفیر کا بنفس نفیس جانا ایک غیر معمولی عمل ہے۔ کیونکہ کہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے تو یہ کہ کر دھرنا ختم کیا کہ موجودہ حکومت نہیں جائے گی کیونکہ اسکی حمائت میں امریکہ ہے۔گویا کہ ہمارے حکمران امریکہ کی کٹھ پتلیاں ہیں اور یہ بات بھی زبان زد عام ہے کہ امریکہ ہمارے ملک میں حکمران تبدیل کرتا ہے۔ کیا ہم پاکستان کے کروڑوں عوام اتنے بے بس ہوگئے کہ چند سو امریکی پٹھو پورے ملک کے اٹھاراں کروڑ عوام کا سودا کرتے ہیں اور ہم کچھ نہیں کرسکتے ۔ اگر غیرتمندوں کی طرح جینا ہے تو کچھ کرنا ہوگا۔ کیا ملک کے دانشورطبقہ کو نظر نہیں آتا کہ ٹی وی پر اشتہار آتا ہے اب پاکستان کی تعمیر امریکی اور پاکستانی عوام مل کر کریں گے۔ میں پاکستان کے تمام علما، مشائخ ، اہل علم و فن حضرات سے ، میڈیا والوں سے اور سیاسی رہنماؤں سے پوچھتا ہوں کہ پاکستان کے عوام کیا پولیو کا شکار ہوگئے ہیں ، جاہل ہیں، نکمے ہیں ،صاحبان علم و دانش مرگئے ہیں کہ امریکی عوام ہمیں سہارا دیں گے۔ میٹھی گولیوں میں زہر کھلا رہے ہیں۔ ہمارے اسلامی تشخص کو ختم کرنے اور معاشرے میں آزادیء نسواں کے نام پر عریانی اور فحاشی کا سیلاب لانے کی کوشش ہورہی ہے۔ جب قوم میں تقویٰ نہ رہے گا تو نام کے مسلمانوں سے کوئی خطرہ نہیں۔ وہ ایسے ہیں جیسے مسلمانوں کا قبرستان ۔ ہے کوئی جو امریکہ کا ہوش ٹھکانے لگائے ؟
AKBAR HUSAIN HASHMI
About the Author: AKBAR HUSAIN HASHMI Read More Articles by AKBAR HUSAIN HASHMI: 146 Articles with 140765 views BELONG TO HASHMI FAMILY.. View More