مرگی ایک دماغی مرض ہے اور یہ ایک ایسی بیماری ہے جو بہت
سی وجوہات کی وجہ سے ہوسکتی ہے-لیکن لوگوں کے درمیان اس مرض سے متعلق متعدد
غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں جس کی بنیادی وجہ اس حوالے سے مناسب آگہی کا نہ
ہونا ہے- مرگی کے بارے میں لوگوں میں پائی جانے والی غلط فہمیاں دور کرنے
کے لیے اور اس کی وجوہات اور علاج بارے میں جاننے کے لیے ہماری ویب کی ٹیم
نے معروف نیورولجسٹ ڈاکٹر محمد شاہد مصظفیٰ سے خصوصی بات چیت کی- آئیے آپ
کو بھی بتائیں کہ ڈاکٹر صاحب مرگی کی بیماری کے بارے میں کیا کہتے ہیں:
|
|
ڈاکٹر شاہد کہتے ہیں کہ “ جسے عام طور پر مرگی کے نام سے جانا جاتا ہے میں
اسے دوروں کی بیماری کہتا ہوں جبکہ بعض لوگ اسے جھٹکوں کی بیماری بھی کہتے
ہیں- اس بیماری کو انگریزی میں Epilepsy کہا جاتا ہے-
“ میں اسے دوروں کی بیماری اس لیے کہتا ہوں کہ انسان کے دماغ میں جو بجلی
کی حرکت ہوتی ہے وہ وقتی طور پر جب بے قابو ہوجاتی ہے- اور ایک ہی وقت میں
پورے دماغ میں بہت زیادہ برقی رو پھیل جاتی ہے تو انسان کے جسم پر ایک دورے
کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے“-
ڈاکٹر شاہد کے مطابق اس بیماری کی عام
علامات یہ ہیں کہ:
1- اچانک سے بے ہوشی کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے-
2- اچانک انسان نیچے گر جاتا ہے-
3- انسان کا جسم اکڑ سکتا ہے-
4- انسان کو جھٹکے لگ سکتے ہیں-
5- انسان کا منہ ایک جانب ٹیڑھا ہوسکتا ہے-
6- سانس وقتی طور پر رک سکتی ہے جس کی وجہ سے ہونٹ نیلے پڑ سکتے ہیں-
7- منہ میں جھاگ آسکتی ہے جبکہ زبان دانتوں کے درمیان آکر کٹ سکتی ہے-
8- کپڑوں میں پیشاب بھی خارج ہوسکتا ہے-
ڈاکٹر شاہد کہتے ہیں کہ “ مرگی کے زیادہ مریضوں کی صورتحال خطرناک نہیں
ہوتی اور ان کے دوروں کو دواؤں کی مدد سے قابو کیا جاسکتا ہے اور یہ لوگ
ایک نارمل زندگی بسر کر سکتے ہیں“-
|
|
“ مرگی کے کم ہی مریض ایسے ہوتے ہیں جن میں یہ بیماری کسی خطرناک وجہ سے
ہوتی ہے٬ مثلاً انہیں برین ٹیومر ہوسکتا ہے٬ دماغ کے اندر کوئی انفیکشن
موجود ہوسکتا ہے٬ دماغ کے اندر سر کی کسی چوٹ کی وجہ سے کوئی زخم یا نشان
رہ سکتا ہے٬ کوئی پیدائشی نقص ہوسکتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دماغ پر
دباؤ بہت زیادہ ہو“-
“ اگر آپ کے سامنے کسی کو مرگی کا دورہ پڑے تو اس کے منہ میں انگلی ڈال کر
منہ کھولنے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی اسے کچھ سونگھانے یا سانس پہنچانے
کی ضرورت ہے- کیونکہ زیادہ تر مرگی کے دورے 2 سے 3 منٹ میں خود ہی ختم
ہوجاتے ہیں“-
“ آپ کو صرف اتنا کرنا ہے کہ مریض کو ایک جانب کروٹ پر لیٹا دیں تاکہ اگر
اس کے منہ سے جھاگ نکل رہی ہے یا پھر وہ قے کرتا ہے تو وہ سانس کی نالی میں
نہ جائے- دوسری بات اگر مریض کوئی چست کپڑے پہنے ہوئے ہے مثلا٬ ٹائی لگائی
ہوئی ہے یا قمیض کے بٹن اوپر تک بند ہیں تو انہیں کھول دیں تاکہ اسے سانس
لینے میں مشکل نہ پیش آئے“-
“ اگر مریض کسی نوکیلی چیز کے پاس ہے مثلاً فرنیچر یا میز کے وغیرہ کے قریب
ہے تو اسے وہاں سے دور کردیں کیونکہ مرگی میں مریض کو جھٹکے لگتے ہیں اور
اس صورت میں وہ زخمی بھی ہوسکتا ہے- اس سے زیادہ کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے“-
ڈاکٹر شاہد کہتے ہیں کہ “ جب کسی کو مرگی کا دورہ پڑے تو اسے نیورولوجسٹ سے
ضرور رابطہ کرنا چاہیے تاکہ اس بیماری کی درست وجہ جانی جاسکے“-
|
|
ڈاکٹر شاہد کا کہنا ہے کہ “ جب کسی کو مرگی کا دورہ پڑے تو مریض کو بغور
دیکھیں کہ کہیں گردن ایک جانب تو ٹیڑھی نہیں ہوجاتی ٬ منہ کا ایک حصہ جھٹکے
تو نہیں مارتا٬ دورے کی شروعات کسی ایک بازو سے تو نہیں ہوتی- اس کے علاوہ
مریض کی غیر ارادی حرکات پر بھی غور کریں مثلاً مریض کے ہونٹ تو نہیں کپکپا
رہے“-
“ یہ تمام علامات اگر ڈاکٹر کے سامنے رکھی جائیں تو اسے مریض کو سمجھنے اور
اس کا علاج کرنے میں آسانی ہو جاتی ہے اور یوں وہ مریض کو بہترین دوا تجویز
کر سکتا ہے“-
ڈاکٹر شاہد کہتے ہیں کہ “ آج کل کے دور میں تقریباً ہر فرد کے پاس کیمرے
والا موبائل ہوتا ہے اس لیے اگر ممکن ہو تو دورے کے دوران مریض کی ویڈیو
بھی بنا لی جائے کیونکہ ویڈیو کو دیکھ ڈاکٹر جان سکے گا کہ یہ مرگی کی دورہ
کس طرح کا تھا اور اس کا علاج کس طرح ممکن ہے“-
“ مرگی کے مریض کے دماغ مختلف ٹیسٹ کیے جاسکتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ
دورے کس نوعیت کے ہیں٬ کب تک جاری رہ سکتے ہیں اور اسے کس طرح کی دوا دینی
چاہیے یا دینی بھی چاہیے کہ نہیں“-
ڈاکٹر شاہد کے مطابق “ مرگی کے دوروں کے لیے مارکیٹ میں 20 سے 22 اقسام کی
دوائیں دستیاب ہیں جو مریض کو تجویز کی جاسکتی ہیں- سب سے اہم بات یہ ہے کہ
ڈاکٹر جو دوا تجویز کرے صرف وہی دوا استعمال کرنی چاہیے اور 2 سے 3 سال تک
لازمی کھانی چاہیے“-
“ اکثر لوگ مریض کو دیکھ کر کہنا شروع ہوجاتے ہیں کہ اس پر جادو ہے یا اس
پر جن چڑھ گیا ہے یا پھر مریض کے سر پر جوتے مارنا شروع کردیتے ہیں٬ یہ سب
جہالت ہے اس کے سوا کچھ نہیں“-
“ مرگی کا مریض ایک نارمل شخص ہوتا ہے اور وہ بھی ایک نارمل زندگی گزار
سکتا ہے- دنیا کی تاریخ میں کئی ایسی معروف شخصیات گزری ہیں جنہیں مرگی کے
دورے پڑتے تھے- جیسے کہ نپولین کو مرگی کا سامنا تھا یا سیزر جولیس جن پر
کئی فلمیں بھی بن چکی ہیں انہیں بھی مرگی کے دوروں کا سامنا کرنا پڑتا
تھا“-
ڈاکٹر شاہد کا کہنا ہے کہ “ میرا یہ پیغام ضرور مرگی کے مریضوں یا اس کے
رشتے داروں تک پہنچائیں کہ مرگی کو جادو ٹونا نہ سمجھیں بلکہ اس کا علاج
کروائیں کیونکہ مرگی مریض بھی ایک نارمل زندگی بسر کرسکتا ہے“-
|
|
|