چہلم کی اہمیت کس وجہ سےہے ؟ کیا
صرف اس لئے کہ امام عالی کی شہادت کے چالیس دن گذر چکے ہیں ؟ آخر اس کی کیا
خاصیت ہے ؟دنیا کی بزرگ اور نمایاں شخصیات جب ایک عظیم مقصد کی راہ میں
شہید ہوجاتی ہیں وہ اگرچہ اس تحریک ، اس انقلاب یا اس معاشرے کو اپنے فقدان
کے ذریعہ ایک اہم اور گرانقدر شخصیت سے محروم کر دیتی ہیں لیکن اپنی
فداکاری اور اپنے خون و شہادت کے ذریعہ اس تحریک کو زندہ کر جاتی ہیں ۔
بالکل اسی طرح جیسے تاریخ میں ہمارے شہدا کا وجود رہا ہے جس کی ایک واضح
مثال واقعۂ کربلا ہے۔
امام حسین علیہ السلام جیسی بے مثل اور گرانقدر شخصیت جب اس دنیا سے اٹھ
جاتی ہے اگرچہ معاشرہ کا اس شخصیت سے محروم ہونا نا قابل جبران نقصان اور
خلا کا باعث ہے لیکن ان کی قربانی اتنی عظیم ہے کہ تحریک حسینی زندہ جاوید
بن جاتی ہے ۔ یہ ہے قربانی اور فداکاری کی تاثیر ۔ یہ ہے خون کی خاصیت ۔ جب
دعوے انسانوں کے خون سے جامہ عمل پہن لیتے ہیں تو ہمیشہ کے لئے زندہ ہوجاتے
ہیں۔ چہلم کی خصوصیت یہی ہے کہ اس دن سید الشہداء کی شہادت کی یاد تازہ
ہوئی اور یہ بہت اہم چیز ہے ۔ فرض کیجیےاگر تاریخ میں یہ عظیم واقعہ رونما
ہوتا یعنی حسین ابن علی اور ان کے باوفا ساتھیوں کی شہادت ہوجاتی اور بنی
امیہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتے یعنی جس طرح انہوں نے امام عالی مقام اور
ان کے ساتھیوں کے جسم مبارک کو خاک و خون میں غلطاں کیا اسی طرح اس وقت کے
لوگوں اور آنے والی نسلوں کے ذہنوں سے ان کی یاد بھی مٹا دیتے تو کیا ایسی
صورت میں اس شہادت کا اسلام کو کوئی فائدہ پہنچتا ؟
یا یہ فرض کریں کہ اس وقت اس کا ایک اثر ہوتا لیکن کیا آنے والی نسلوں پر
اور مستقبل کی بلاؤں ، مصیبتوں ، تاریکیوں اور یزیدان وقت پر بھی اس کا
کوئی خاص اثر ہوتا ؟
ایک قوم کی مظلومیت اس وقت دوسری ستمدیدہ زخمی اقوام کے لئے مرہم بن سکتی
ہے جب یہ مظلومیت ایک فریاد بن جائے ۔ اس مظلومیت کی آواز دوسرے لوگوں کے
کانوں تک بھی پہنچے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے دور میں تمام بڑی طاقتیں ہماری
ایک صدائے احتجاج پر آواز بلند کرتی ہیں تاکہ ہماری فریاد بلند نہ ہونے
پائے ۔ اسی لئے وہ بے تان شا پیسہ خرچ کر رہے ہیں تاکہ دنیا نہ سمجھ پائے
کہ کربلا کی جنگ کیا تھی ، کیوں پیش آئی ، اس کا محرک کون تھا ، کس کے
ذریعہ تھوپی گئی ۔ اس وقت بھی استکباری طاقتوں کی پوری کوشش تھی کہ جو بھی
جتنا بھی خرچ ہو کسی بھی طرح سے حسین کا نام ، ان کی یاد ، ان کی شہادت اور
کربلا و عاشورا لوگوں کے لئے درس نہ بننے پائے اور اس کی گونج دوسری اقوام
کے کانوں تک نہ پہنچے ۔ البتہ شروع میں خود ان کی بھی سمجھ میں نہیں آیا
تھا کہ یہ شہادت کیا کرسکتی ہے لیکن جتنا زمانہ گزرتا گیا ان کی سمجھ میں
آنے لگا ۔ یہاں تک کہ بنی عباس کے دوران حکومت میں امام عالی مقام کی قبر
کو منہدم کیا گیا ۔ اسے پانی سے گھیر دیا گیا ۔ تاکہ اس کا کوئی نام نشان
باقی نہ رہے ۔ یہ ہے شہداء اور شہادت کی یاد کا اثر ۔ شہادت اس وقت تک اپنا
اثر نہیں دکا تی جب تک اسے زندہ نہ رکھا جائے گا اس کی یاد نہ منائی جائے
اور اس کے خون میں جوش نہ پیدا ہو اور چہلم وہ دن ہے جب پیغام حسینی کو
زندہ رکنے کا پرچم لہرایا گیا اور وہ دن ہے جب شہداء کی بقا کا اعلان ہوا
اب چاہے امام حسین (ع) کے پہلے چہلم میں اہل حرم کربلا آئے ہوں یا نہ ہوں
کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ چہلم وہ دن ہے جب پہلی بار امام حسین کے زائر،ان کی
زیارت کو آئے ۔ پیغمبر اسلام اور مولائے کائنات کے اصحاب میں سے جابر ابن
عبد اللہ انصاری اور عطیہ آئے امام کی زیارت کے لئے ۔ جابر اگرچہ نابینا
تھے لیکن عطیہ کاہاتھ پکڑ کر امام حسین علیہ السلام کی قبر پر آئے اور زار
و قطار رونے لگے ۔ امام حسین علیہ السلام سے گفتگو کی ، درد دل بیان کیا ۔
امام حسین ( ع ) کی یاد کو زندہ کیا اور زیارت قبور شہدا کی سنت کا احیاء
کیا ۔ ایسا اہم دن ہے چہلم کا دن ۔ |