مسلم بچیوں کی شادی کا مسئلہ
(Falahuddin Falahi, India)
مسلم سماج میں لڑکیوں کی شادی
ایک بڑا اور سنگین مسئلہ بنتی جا رہی ہے ۔بہت سے احباب خطوط ،فون اور
ملاقاتوں کے ذریعہ اپنی بچیوں کی شادی کے لیے مناسب رشتوں کی بات کرتے ہیں
۔بچیوں کی بڑھتی عمر اور رشتوں کے نہ ہونے کی وجہ سے لڑکیاں اور ان کے
والدین ذہنی تناؤ کا شکار ہو رہے ہیں ۔اس طرح کے ناخوشگوار واقعات بھی
دیکھنے کو مل جاتے ہیں کہ بعض بچیاں کسی کے ساتھ فرار ہو جاتی ہیں یا پھر
اپنی مرضی سے بعض دفعہ غیر مسلم لڑکوں تک سے شادی کر لیتی ہیں ۔یہ صورت ِحال
والدین اور ان کے متعلقین کو ذہنی مریض بنا رہی ہے ۔بہت سی بچیاں عمر کے اس
پڑاؤ پر پہنچ چکی ہیں کہ جہاں شادی کے امکانات تقریباً مفقود ہیں۔
لڑکیوں کی شادی نہ ہونے یا بہت پریشانی اور تگ ودو کے بعد ہونے کا ایک سبب
یہ بھی ہے کہ آج کل بچیاں ماحول کے دیکھا دیکھی جدید تعلیم حاصل کرنے کی
دُھن میں بغیر سوچے سمجھے اور بغیر کسی عملی منصوبہ بندی کے ایسے مقام پر
پہونچ جاتی ہیں کہ جہاں پہونچ کر مسلم بچیوں کے لیے شادی او ر دیگر سماجی
مسائل کھڑے ہو جاتے ہیں ۔تعلیم حاصل کرناکوئی بری بات نہیں ہے، لیکن اس
میدان میں انہیں اور ان کے والدین و سر پرستوں کو حسبِ حال ایسے عملی
مضامین کا انتخاب کرنا چاہئے جو آئندہ انکے لیے قابل عمل بھی ہوں اور انکی
وجہ سے انکی شادی وغیرہ میں بھی کوئی رکاوٹ کھڑی نہ ہو۔مثال کے طور پر
ایجوکیشن ،میڈیکل ،نرسنگ،ہوم سائنس اور اس طرح کے دیگر مضامین لئے جا سکتے
ہیں کیونکہ شادی کے بعد اگر لڑکی دوسری جگہ منتقل ہوتی ہے تو اسکی یہ تعلیم
وہاں بھی اس کے خاندان اور سماج کے لیے مفید ثابت ہو ۔
خصوصاً لڑکیوں کی شادی میں ایک بڑی رکاوٹ اس بھاگ دوڑ کی زندگی میں ایک
دوسرے سے متعارف نہ ہونا اور ایک دوسرے سے ملاقات کے لیے وقت نہ نکالنا بھی
ہے ۔مرد اگر مختلف مواقع پر لوگوں سے ملتے جلتے بھی ہیں تو انکا یہ ملنا
جلنا بالکل رسمی ہوتا ہے ۔نہ وہ اپنے گھر یلو حالات احباب کو بتاتے ہیں اور
نہ لوگوں سے ان کے حالات معلوم کرتے ہیں ،اور تقریباً یہی رویہ ان لوگوں کا
بھی ہے جو ایک ہی جماعت یا تنظیم سے وابسطہ ہیں اور فکری اور ذہنی طور پر
ہم آہنگ ہیں۔
لڑکیوں کے رشتے نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اگر کہیں سے کوئی مناسب
رشتہ آتا ہے تو والدین کبھی اسکی تعلیم کا بہانہ بنا کر ،کبھی ذات برادری
کا بہانہ بنا کر اور کبھی بہتر سے بہتر کی تلاش اور آرزو میں تاخیر کرتے
چلے جاتے ہیں اور نتیجتاً لڑکی اس حالت کو پہونچ جاتی ہے کہ اس کے رشتے آنا
بند ہو جاتے ہیں ۔
لڑکیوں کے رشتوں میں دقت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آج کا نوجوان اور ان کے
والدین خوبصورت سے خوبصورت لڑکی کی خواہش رکھتے ہیں اور دین اور سیرت و
کردار ان کے یہاں کوئی اہمیت اور وزن نہیں رکھتا ۔شاید اسی وجہ سے کسی نے
کہا ہے ۔
خوبصورت لڑکیوں کے ہاتھ پیلے ہو گئے
خوب سیرت لڑکیاں بس ہاتھ ملتی رہ گئیں
بہت سے لوگ اپنی بچیوں کو دینی جامعات اور مدارس میں تعلیم دلواتے ہیں اور
اس سے ان کے پیش نظر یہ بات بھی ہو تی ہے کہ ان کے رشتوں میں قدر ِ آسانی
ہو جائے گی اور یہ بات مشاہدہ میں آئی بھی ہے کہ دینی تعلیم حاصل کرنے والی
بچیوں کی شادی قدرِ آسانی سے ہو جاتی ہے۔اس کا ایک سبب تو یہ معلوم ہوتا ہے
کہ مسلمانوں کی ایک خاصی تعداد آج بھی ایسی بچیوں کو پسند کرتی ہے اور
انہیں یہ بھی امید رہتی ہے کہ دینی تعلیم سے آراستہ یہ بچیاں جب ان کے
گھروں میں آئیں گی تو ان کے گھروں میں دین کی خوشبو پھیلے گی اور ان کے
گھروں کا ماحول دینی بنے گا ۔
بچیوں کی شادی میں ایک رکاوٹ یہ بات بھی ہوتی ہے کہ بچیوں کے والدین لڑکے
والوں کے سامنے بعض اوقات ایسی نا معقول اور نا مناسب شرطیں رکھ دیتے ہیں
جنہیں لڑکے والوں کا دینی ذھن اور انکی شرافت تسلیم کرنے سے انکار کر دیتی
ہے۔ مثلاً بعض لڑکی والے جہیز دینے اور لمبی چوڑی بارات اپنے دروازے پر
بلانے کی ضد کرتے ہیں اور ایسا نہ کرنے پر اپنے اور اپنے خاندان کی ناک کٹ
جانے کی دُھائی دیتے ہیں ۔
شادی نہ ہونے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ سماج آج اس بات کو بھول گیا ہے کہ
قرآن نے اسکی ذمہ داری ٹھہرائی ہے کہ وہ اپنے سماج کے غیر شادی شدہ لوگوں
کی شادی کرائے اور اس کے لیے فکر مند ہو ۔
آخیر میں چند مشورے قرآن اور حدیث کی تعلیمات اور عملی تجربات کی روشنی میں
پیش کئے جا رہے ہیں ۔
۱۔اﷲ کے رسول ؐنے شادی کے سلسلے میں فرمایا ہے :
’’عورت سے چار چیزوں کی وجہ سے شادی کی جاتی ہے :اس کے مال کی وجہ سے ،اس
کی خاندانی شرافت کی وجہ سے ،اس کی خوبصورتی کی وجہ سے اور اس کے دین دار
ہونے کی وجہ سے ،تو تم دین دار عورت کو حاصل کرو ،تمہارا بھلا ہو !‘‘(بخاری
و مسلم )
’’عورتوں سے (صرف) ان کے ظاہری حسن و جمال کی وجہ سے شادی نہ کرو ،ہو سکتا
ہے ان کا حسن و جمال ان کو تباہ کر دے (اور وہ اچھی بیوی نہ بنیں ،غرور حسن
کے فتنہ کا شکار ہو جائیں )اور ان سے شادی نہ کرو ان کے مال کی وجہ سے ،ہو
سکتا ہے ان کا مال ان کو طغیان و سرکشی میں مبتلا کر دے ،بلکہ دین داری کی
بنیاد پر شادی کرو،سیاہ رنگت والی دین دار باندی (گوری اور خاندانی بے دین
عورت کے مقابلہ میں )بہتر اور افضل ہے ۔‘‘(المنتقیٰ)
’’جب تمہارے پاس شادی کا پیغام کوئی ایسا شخص لائے جو تمہاری نظر میں دین
دار اور اچھے اخلاق کا ہو تو اس سے شادی کردو،اگر تم ایسا نہ کروگے تو مسلم
معاشرہ فتنہ اور فساد میں مبتلا ہو جائے گا ۔(اور دیکھ لیجئے اپنے پیغمبر
ؐکی بات نہ ماننے کی وجہ سے مسلم معاشرہ کیسے کسیے فتنوں کی آماج گاہ بن
گیا ہے )۔‘‘(ترمذی )
ان ہدیات رسول ؐکا مقصد یہی معلوم ہوتا ہے کہ رشتے کے سلسلے میں صرف
خوبصورتی اور مالی حالت کو پیش نظر رکھنا اور دین و اخلاق کو نظراندازکر
دینا ہر گز مناسب نہیں ۔اس لئے کہ درحقیقت یہی چیزیں خاندان اور انسانی
معاشرے کو خوشگوار اور امن و سکون کا گہوارہ بناتی ہیں ۔نیز دین و اخلاق کے
ذریعے ہی ہم اس بات کی توقع رکھ سکتے ہیں کہ آئندہ آنے والی نسلیں ہماری
آنکھوں کی ٹھنڈک اور خدا کی فرماں بردار ہوں گی ۔
شادی بیاہ ہی نہیں بلکہ زندگی کے جس معاملہ میں بھی ہم قرآن و حدیث کی
پیروی کریں گے اور ان سے قریب تر ہو کر چلیں گے ان شا ء اﷲ دنیا و آخرت میں
فائدے میں رہیں گے ۔
والدین اور سرپرستوں کو چاہئے کہ جب بھی انہیں کوئی مناسب رشتہ میسر آجائے،
وہ اسے اﷲ کی طرف سے نعمت اور رحمت سمجھ کر شادی میں جلدی کریں اور اسے
ہاتھ سے نہ جانے دیں ۔حضرت موسی ؑ کی شادی کا قصہ قرآن مجید میں بیان ہوا
ہے کہ وہ تنِ تنہا ،بے سروسامانی کی حالت میں مصر سے مدین پہونچے ۔وہاں
انہوں نے جانوروں کو پانی پلانے کے سلسلے میں کچھ لڑکیوں کی مدد کی ۔لڑکیوں
کے والد نے اس نوجوان کو اپنے گھر بلایا اور اسکے حالات و کوائف دریافت کئے
اور جب ان کو یہ اندازہ اور یقین ہو گیا کہ یہ صالح ،محنتی اور لائق نوجوان
ہے تو انہوں نے اپنی ایک بچی کی شادی موسیؑ سے کردی ۔تاریخ اسلامی گواہ ہے
کہ کتنے ہی اساتذہ نے اپنی بچیوں کی شادی اپنے لائق شاگرد وں سے کی اور یہ
شادیاں نہایت کامیاب رہیں ۔موجودہ دور میں بھی جو لوگ اس پالیسی پر عمل
کرتے ہیں وہ بہت کامیاب ہیں ۔
۲۔موجودہ بدلتے ہوئے حالات میں عام طور سے لوگ ایک دوسرے سے متعارف نہیں ہو
پاتے، اس غرض کے لیے انٹر نیٹ اوراخبارات بہت معاون ثابت ہوتے ہیں ۔انٹر
نیٹ کا استعمال اور ان کے ذریعہ آنے والے رشتوں کے سلسلے میں بہت احتیاط کی
ضرورت ہے ۔کئی معاملے اس طرح کے سامنے آئے ہیں کہ لوگوں نے سبز باغ دکھا کر
اور جھوٹی سچی ڈگریاں بتا کر شادیاں کیں ۔جھوٹی جنت کے فریب میں آکر کئی
لڑکی والوں نے اپنی پیاری بچیوں کی شادی ان فریبیوں سے کر دی اور بعد میں
انہیں وہ نقصان اٹھانا پڑا جس کے تصور سے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔اگر
معلومات حاصل کرنے کے بعد رشتے کئے جائیں تو اس نقصان سے بچا جا سکتا ہے
۔ہمارے علم میں ایسے بھی معاملے ہیں جو اخبارات اور نیٹ کے ذریعہ ہوئے ہیں
اور الحمد اﷲ! بہت کامیاب ہیں ۔
۳۔اس سلسلے میں سماج کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے ۔سماج کے لوگوں کو اسے
نیکی اور کارِ خیر سمجھ کر انجام دینا چاہئے ،کیونکہ رشتوں کے سلسلے میں جو
اچھے برے نتائج سامنے آتے ہیں، سماج کو بھی اس میں حصہ دار بننا پڑتا ہے
۔یوں تو سماج میں بہت سے ایسے ذاتی اور اجتماعی ادارے موجود ہیں جو رشتوں
کے سلسلے میں تعاون کرتے ہیں ۔کچھ تو اس خدمت کی اجرت بھی وصول کرتے ہیں
۔ان سب کے باوجود ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک قابل بھروسہ ،غیرتجارتی ادارہ
قائم کیا جائے جو رشتوں کے سلسلے میں باہم متعارف کرانے کا فریضہ انجام دے
۔اس کے لیے مناسب فیس لی جا سکتی ہے تاکہ یہ کام تسلسل کے ساتھ ہو سکے ۔اگر
کچھ دینی ادارے یا تنظیمیں اس سلسلے میں پیش رفت کریں تو یہ کام کچھ مشکل
نہیں ۔
۴۔جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ہے کہ آج بھی مسلم سماج میں الحمد اﷲ ایسے لوگ
موجود ہیں جو اسلامی تعلیمات کے مطابق شادی بیاہ کا فریضہ انجام دیتے ہیں
۔ان میں ہر سطح کے لوگ شامل ہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے لوگوں کی
حوصلہ افزائی کی جائے اور ایسی شادیوں کی اخبارات و نیٹ پر تشہیر کی جائے
،تاکہ عوام کو روشنی اور حوصلہ ملے ۔
۵۔آخری بات یہ کہ والدین اور سرپرستوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو
دین سے ضرور واقف کرائیں۔ان کے لیے ایسے مواقع فراہم کریں جن میں وہ دینی
معلومات حاصل کر سکیں نیز دینی لٹریچر،ترجمہ قرآن ،سیرت رسول ؐاور دیگر کتب
ان کو مطالعے کے لیے دیں۔تاکہ بچوں کے ذہن میں اپنی زندگی کا اصل مقصد تازہ
رہے ۔اور وہ خدا اور رسول ؐکی ہدایت کو اہمیت دیتے ہوئے ان پر عمل پیرا ہو
سکیں۔اس کے ساتھ ہی اﷲ رب العزت سے دعا کی جائے کیونکہ سارے معاملے اﷲ کے
ہاتھ میں ہیں ۔اﷲ سے ہمارا رشتہ جتنا مضبوط ہوگا اتنا ہی زیادہ ہم اسکی مدد
کے مستحق ہوں گے ۔٭٭ |
|