سر پر باؤنسر لگنے کی وجہ سے آسٹریلوی کرکٹر فلپ ہیوز کے
انتقال کرنے جانے کے بعد جس نئے سوال نے جنم لیا ہے وہ یہ ہے کہ کیا واقعی
ہیلمٹس سر کی حفاظت کرسکتے ہیں؟ اور اگر کر بھی سکتے ہیں تو کس حد تک؟
فلپ کو باؤنسر لگنے سے گدی کے بائیں جانب زخم آیا تھا اور یہ حصہ ہیلمٹ کے
بالکل نیچے ہونے کی وجہ سے بھی غیر محفوظ ہوتا ہے-
|
|
اگرچہ ہیلمٹ کا استعمال کچھ عرصہ قبل ہی لازمی قرار دیا گیا ہے لیکن سوال
یہ اٹھتا ہے کہ کیا ان ہیلمٹ میں مزید بہتری لائی جاسکتی ہے اور وہ بھی
ایسی کہ جو کھیلتے ہوئے کھلاڑی کے لیے پریشانی کا سبب بھی نہ بنے؟
اس حوالے سے یونیورسٹی آف سڈنی کے کرکٹ بائیومیٹرک ریسرچ کے سربراہ رینے
فرڈیننڈز کا کہنا ہے کہ
“ میرے نزدیک ابھی مزید بہتری لائی جاسکتی ہے اور کھلائی کو کچھ اس نوعیت
کی حفاظت فراہم کی جائے جو ہیلمٹ سے مزید آگے کے حصوں کو بھی محفوظ بنانے
کی صلاحیت رکھتی ہو“-
“ کومپوزٹ فوم یا اسی سے ملتے جلتے مادے سے بنی کوئی ٹوپی بھی استعمال کی
جاسکتی ہے جو کہ ہیلمٹ کے نیچے کے حصے سے پیچھے تک جائے٬ کیونکہ ایسا مادہ
بیس بال کی 50 سے 70 فیصد چوٹ برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے“-
فلپ ہیوز نے برطانیہ کی ماسوری کمپنی کا ہیلمٹ پہن رکھا تھا اور اس حادثے
کے حوالے سے کپمنی کا کہنا ہے کہ ہیوز نے اس وقت کمپنی کا جدید ہیلمٹ نہیں
پہن رکھا تھا جو اس جگہ پر بھی اضافی تحفظ فراہم کرتا جہاں انھیں گیند لگی
تھی اور ان کی موت واقع ہوئی۔
کمپنی کے مطابق مذکورہ حصہ سر اور گردن کا بہت غیر محفوظ حصہ ہوتا ہے اور
اس حصے کی مکمل حفاظت ہیلمٹ کے ذریعے ممکن نہیں-
|
|
یاد رہے کہ چہرے کو محفوظ رکھنے والی جالی 1970 کی دہائی میں لازمی قرار دی
گئی جبکہ گلے کو محفوظ رکھنے والی پٹی کو 1980 کی دہائی میں لازمی قرار دیا
گیا۔
تحقیق کے نتیجے میں یہ تجویز پیش کی گئی ہے کہ ممکن ہے اگر ہیلمٹ کے شیل کو
سر کے پچھلے حصے کی طرف بڑھا دیا جائے تو اس سے شاید سر کی زیادہ بہتر
حفاظت ہوسکے۔
دوسری جانب جدید ہیلمٹس کچھ اس انداز سے ڈیزائن کیے گئے ہیں کہ وہ گیند کی
طاقت کو اپنے اندر برداشت کر لیتے ہیں لیکن اس کے علاوہ بھی کئی ایسی چیزیں
ابھی باقی ہیں جن میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ |