(ایک جامع روحانی کمالات
شخصیت )
تصوف پر مختلف کتب پڑھنے کا اتفاق ہوا۔علم و دانش کے حوالے سے اولیاء اﷲ کی
کتب نہایت اونچے معیار پر ہیں ۔برصغیر پاک و ہند میں اسلام کے فروغ و اشاعت
اور امن و محبت کا درس دینے کے ساتھ ساتھ انکی روحانی تربیت کا خصوصی اقدام
کیاگیا ۔یہی وجہ ہے کہ ہمیں اولیا ء اﷲ کے ہاں مذہب اور رنگ و نسل سے
بالاتر ہو کر انسانیت کی خدمت کو ہی اولیت دی گئی ۔جس سے آپس میں نفرتوں
اور مذاہب کے درمیان ٹکراؤاور جھگڑوں کو یکسر ختم کر دیا ہم نے دیکھا ہے کہ
آج بھی اولیا اﷲ کے مزاروں پر مختلف مذاہب کے لوگ جھوک در جھوک حاضری دیتے
نظر آتے ہیں جو بین المذاہب ہم آہنگی وامن وآتشی کا مظہر ہے۔
انجینئر حضر ت خواجہ فیروز حسن چشتی،نقشبندی،قادری،الرفاعی المعروف "
باباجی"کی حالیہ اشاعت کردہ کتاب "رہنمائے طریقت و منازل روحانی "پڑھنے کا
اتفاق ہو ا جس میں بابا جی نے اپنے حالات زندگی کے ساتھ ساتھ روحانی منازل
کو کیسے پایہ تکمیل تک پہنچایا تفصیلاً بیان کیا گیا ہے باباجی کی یہ کتاب
تصوف پر لکھی گئی کتب میں ایک نمایا ں اضافہ ہے سب سے منفرد چیز جو باباجی
کی شخصیت میں نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے رزق حلال کے
حصول کے لیئے کٹھن مراحل سے زندگی گزاری ہے اور اپنی روحانی سرگرمیوں سے
بھی لوگوں کو فیض یاب کرتے رہے۔ملک کی تعمیرو ترقی کے حوالے سے انہوں نے
تربیلا ڈیم ،غازی بروتھا ہائیڈو پاور پراجیکٹ جبکہ بیرون ملک عراق میں موصل
ڈیم اور عرب امارات میں بطور انجینئر خدمات سرانجام دی ہیں ۔بابا جی اگر
چاہتے تو دیگر روحانی شخصیات کی طر ح گوشہ نشینی اختیار کر کے صدیوں پرانے
خانگاہی نظام کا حصہ بن سکتے تھے مگر انہوں نے اپنے ہاتھوں سے رزق حلال
کمانے کو ترجیح دی اوربقول علامہ اقبال
ـ"نکل کر خانگاہوں سے ادا کر حکم شبیری "
کے تحت عملی طو رپر دنیا اور آخرت کے امور کو ساتھ ساتھ رکھا۔بابا جی نے اس
کتاب میں تفصیلاًاپنی زندگی کے ہر مخفی پہلو پر روشنی ڈالی بابا جی کو عراق
،سعودی عرب ،یو اے ای اور کئی دیگر ممالک میں جانے کا اتفاق ہو ااور اس
دوران جو واقعات ہوئے انکو بمعہ تواریخ کتاب میں درج کیا خاص طور پر انہوں
نے لکھا کہ جب وہ مسجد قبا میں گئے و ہاں ایک فقیر انکو ملا جس نے بابا جی
سے فرمایا کہ اگر دولت چاہتے تو یہاں ریگستان بھرے پڑے ہیں اور اگر اﷲ
چاہتے ہو تو واپس پاکستان جاکر مخلوق خدا کی اصلاح کا کا م کریں چنانچہ
باباجی نے بھاری معاوضے پر مشتمل ملازمت چھوڑ کر پاکستان میں آنا پسند کیا
اور مختلف فلاحی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کیا ۔
بابا جی کی دیرینہ خواہش تھی کہ وہ امن و محبت کا درس دینے کے ساتھ جو آج
کے ماڈرن دور اور مغربی ثقافت سے متاثر پاکستانی بوڑھے افراد جنھیں ان کی
اولادوں نے اپنے گھروں سے نکال دیا ہے اور عمر کے اس حصے میں جہاں وہ نہ تو
کما سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی کا م کرنے کے قابل ہیں اور انھیں دیکھ بھال کی
ضرورت ہے ایسے افراد کے لیئے باباجی آزاد کشمیر تحصیل ہجیرہ کے گاؤں(
گھمبیرکا ہموڑہ)کے مقام پر اولڈ ہاؤس بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں بابا جی
مخیر حضرات سے اس کار خیر میں حصہ لینے کی اپیل کرتے ہیں۔
"زندگی کی فکر نہ زمانے کی فکر ۔ مجھے ہے رب کو اپنا بنانے کی فکر"
بابا جی جب مدینہ پاک سے جب واپس پاکستان آئے اس وقت ملک میں تفرقہ بازی
عروج پر تھی آپ نے ایک امن ماڈل تیار کیا جو کہ آٹھ فٹ اونچا پانچ فٹ چوڑا
لوہے کا درخت تھا اس کی شاخیں چاروں صوبوں اور کشمیر کی عکاسی کرتی تھیں اس
ماڈل کو لیکر بابا جی اپنے مریدین کے ہمراہ لاہو ر سے ٹیکسلا تک قافلے کی
شکل میں آئے اور راستے میں اتحادو یگانگت اور بین المذاہب ہم آہنگی کا
مظاہر ہ کیا اس ماڈل کو مصطفی آباد ٹیکسلا میں نصب کیا اور یہاں پر بہت پر
ـوقار تقریب منعقد کی گئی جس میں نامور عالم دین اور اوصافی شخصیتوں نے
شرکت کی ۔
بابا جی حضرت خواجہ محی الدین غزنوی ،نقشبندی نیروی کے خلیفہ ہیں حضرت پیر
محمد فضل ربانی زیدی زیب سجادہ نشین آستانہ عالیہ نیریاں شریف نے بابا جی
کے بارے میں کہا کہ ہمارے مرشد پاک خواجہ محی الدین غزنوی نیروی نے بابا جی
فیروز حسن کو اپنے سینے سے لگا کر بیٹا کہا اور کہا یہ ہمارے سینے کے وارث
ہیں جو ان کے پاس جائے گا مرادیں پائے گا خالی نہیں جائے گا ان کا آستانہ
قلندری ہے دنیا کے لیئے فیض کی جگہ ہے اور یہ ہما رے سلسلہ طریقت یعنی
نیروی سلسلہ طریقت کو چلائیں گے ۔بابا جی روحانی طریقہ علاج کے ذریعے ہائی
بلڈ پریشر ،معدے کا السر ،دمہ،شوگر ،دل کی تمام تکالیف ڈپریشن ،جوڑوں کا
درد ،کینسر ،بے خوابی ،گردے اور مثانہ کی پتھری میں مبتلا بہت سے مریضوں کا
علاج کر چکے ہیں بابا جی کوابتک چار روحانی سلسلوں کی خلافتیں عطا ہو چکی
ہیں جبکہ بابا جی سلسلہ محمدی کے بانی ہیں اور ان کے سینکڑوں مریدین ملک
بھر میں موجو د ہیں۔ |