مفکر پاکستان علامہ ڈاکٹر
محمد اقبال ؒ نے کیا خوب فرمایا ہے کہ علم وہ دولت ہے جس کو کوئی چور ٗ
چوری نہیں کرسکتا اس لیے علم حاصل کرو اور دنیا پر حکمرانی کرو۔علامہ کی اس
بات کی حقیقت اس وقت کھلتی ہے جب ہم ترقی یافتہ ممالک میں تعلیم کی بلند
ترین شرح خواندگی کو دیکھتے ہیں۔ علم ا ور تحقیق کی بدولت ان کے ایجاد کی
ہوئی چیزوں کو ہم استعمال کرتے ہیں تو حیرتوں کے نئے جہاں کھلتے ہیں ۔ حضرت
محمد ﷺ دنیا میں سب سے بڑے معلم تسلیم کیے جاتے ہیں۔یہ نبی کریم ﷺ کا ہی
ارشاد ہے کہ علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے ۔ ہم مسلمان
تو فخریہ کہلاتے ہیں لیکن تعلیم کے فروغ کے حوالے سے ہماری حکومتوں اور
اداروں کے اقدامات انتہائی ناکافی ہیں۔بات کو شروع کرنے سے پہلے یہ بتانا
ضروری سمجھتا ہوں کہ ایک جگہ میں نے آٹھویں جماعت کی اردو کی کتاب دیکھی
سوچا وقت ہے تو کیوں نہ اس کا مطالعہ کرلیا جائے ۔مجھے اس وقت حیرت ہوئی کہ
ٹیکسٹ بک بورڈ کی شائع کردہ کتاب میں1971 ء کی جنگ میں جام شہادت نوش کرنے
والے پاک فوج کے لانس نائیک محفوظ حسین شہید( نشان حیدر ) کا نام لال حسین
شہید نشان حیدر لکھاہوا تھا۔ مزید جتنی بھی کہانیاں پڑھیں وہ دلچسپی سے
خالی دکھائی دیں۔اگر ٹیکسٹ بک بورڈ کا یہ عالم ہے تو پرائیویٹ سکولوں میں
پڑھائی جانے والی کتابوں کا معیار اور اسلوب کیا ہوگا۔گزشتہ دنوں اخبار میں
ایک خبر شائع ہوئی کہ پنجاب میں 10 ہزار سرکاری سکول بنیادی سہولتوں سے
محروم چلے آرہے ہیں اساتذہ کی کمی کو عرصہ دراز سے پورا نہیں کیاجارہا جبکہ
ڈیڑھ ہزار اساتذہ ترقیوں سے محروم چلے آرہے ہیں ۔افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ
ہم نے تعلیم کو بھی تجارت اور شہرت کا ذریعہ بنا لیا ہے ۔ وزیر اعلی پنجاب
چند اضلاع میں دانش سکول بنا کر یہ تصور کر بیٹھے ہیں کہ اب پورے پنجاب کے
بچوں کو انہوں نے تعلیم کی معیاری سہولتیں فراہم کردی ہیں لیکن حقیقت اس کے
بالکل برعکس ہے ۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر وزیر اعلی پنجاب دانش سکول بناکے یہ
سمجھ بیٹھے ہیں کہ تمام سرکاری سکولوں کو اپ ٹو ڈیٹ کردیا ہے لیکن حقیقت اس
کے برعکس ہے۔ کبھی نئی روشنی سکیم کے نام پر ہم نے تعلیم اور اساتذہ کو
ذلیل کرکے بے روزگار کیا کبھی ہم دانش سکول کے نام پر سیاست چمکانے میں
مصروف ہیں لیکن شعبہ تعلیم اور اس سے وابستہ افراد اور بچوں کو جن مسائل کا
سامنا ہے اس طرف توجہ ہی مرکوز نہیں کی جاتی ۔علاوہ ازیں ہم اب تک اساتذہ
کو وہ عزت نہیں دے سکے جو ان کا حق تھا کبھی انہیں مردم شماری کے اذیت ناک
کام پر لگا دیاجاتا ہے تو کبھی بلدیاتی صوبائی اور قومی الیکشن میں انہیں
بدترین اور خوفناک ترین حالات میں بطور پرائیڈنگ آفیسر فرائض انجام دینے پر
مجبور کیا جاتا ہے ۔دوران الیکشن ہنگامی خیزی ٗ ماردھاڑ اور فائرنگ کے
واقعات اور ذلت اور رسوائی کا سامنا اساتذہ کوہی کرنا پڑتا ہے ۔ حکمران
جماعت کا سیاسی جلسہ ہو یا کوئی غیر ملکی سربراہ پاکستان کے دورے پر آرہا
ہو۔ اساتذہ کو طالب علموں سمیت سارا دن بھوکے پیاسے قطار میں کھڑا رکھا
جاتا ہے ۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر ہم اساتذہ کرام کو ذہنی سکون اور طالب
علموں کو اچھا تعلیمی ماحول فراہم نہیں کریں گے تو وہ کیسے پاکستان کے ذمہ
دار شہری بن سکتے ہیں ۔ کلاس روم میں پہلے جو ایک بلب جلتا تھا اب لوڈ
شیڈنگ کی وجہ سے وہ بھی بندہو جاتا ہے اسی اندھیرے میں طلبہ و طالبات کو
کتابیں پڑھنی پڑتی ہیں ۔پھر گھر سے سکول تک جانے اور سکول سے گھر واپس آنے
کے لیے کرایے کی زیادتی کے علاوہ طلبہ و طالبات کو بے شمار تکلیفوں کا
سامنا کرنا پڑتا ہے ۔دیہاتوں میں تو بسوں کی چھتوں پر بیٹھ کر ٗ پائیدان سے
لٹک کر طلبہ خطرناک سفرہر روز طے کرتے ہیں جبکہ شہروں میں پٹرول کی گرانی
کی وجہ سے کرایے اتنے زیادہ کردیئے گئے ہیں کہ اگر تین بسیں تبدیل کرکے
سکول یا کالج جانا پڑتا ہے تو ہر روز کے 100 روپے خرچ ہوجاتے ہیں جو نوجوان
موٹرسائیکلوں پر تعلیمی اداروں کا رخ کرتے ہیں انہیں بھی ہر روز 200 روپے
کاپٹرول جلا کر گھر واپس آنا پڑتا ہے جبکہ سرکاری اداروں کے ساتھ ساتھ
پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے بھی فیسوں میں ہزاروں روپے کا اضافہ کرکے تعلیم
کو کاروبار بنا کے رکھ دیا ہے۔گرمیوں کی چھٹیوں کی بھاری فیسیں بچوں سے
وصول تو زبردستی کرلی جاتی ہیں لیکن ٹیچرز کو چھٹیوں کے ایام کی تنخواہ
نہیں دی جاتی ۔پرائیویٹ سکولوں نے اپنی تنظیم بنا کر اور وزیر تعلیم کو
مٹھی میں بند کرکے لوٹ مار کر راستے ہموار کرلیے جاتے ہیں آپ تصورکریں گے
کہ پرائیویٹ سکولوں میں پلے گروپ کی فیس بھی 2500 روپے تک پہنچا دی گئی ہے
۔میرا ایک دوست ویلڈنگ کا کام کرتا ہے وہ اپنے چار بچوں کی فیسیں 10 ہزار
روپے ماہانہ نہ جانے کیسے اداکرتا ہے جبکہ اتنی ہی رقم کے بجلی اور گیس کے
بل موصول ہوتے ہیں گھر کے دیگر اخراجات کہاں سے پورے ہوں گے یقینا ہر شخص
کو ناجائز راستے اختیار کرنے پر مجبور کیا جارہاہے۔پھر نصاب میں ایسی ایسی
واہیات کتابیں اور میٹریل شامل کردیاجاتا ہے جس سے نوجوان نسل کا ایمان ہی
متزلزل ہونے کا خدشہ پیدا ہوجاتا ہے ۔ مخلوط تعلیم دینے والے ادارے جنسی بے
راہری کے مرتکب ہورہے ہیں ۔جس کی ایک جھلک اظہار عمران خان کے جلسوں میں
دیکھی جاسکتی ہے ۔پھر سرکاری سکولوں میں تعینات ٹیچرز( میاں بیوی) حضرات کو
گھروں سے دور الگ الگ تعینات کرکے ذہنی اذیت دی جاتی ہے۔وزیر اعلی پنجاب
خود کو فروغ تعلیم کا بہت بڑا مبلغ قرار دیتے ہیں اگر حقیقت میں ان کے دل
میں تعلیم کوئی قدر ہے تو انہیں تمام سرکاری سکولوں میں بیٹھنے والے بینچ ٗ
روشنی کا معقول انتظام ٗ جنریٹر / یوپی ایس سمیت ٗ گرمی اور سردی سے بچانے
کے آلات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ پنجاب بھر میں طلبہ و طالبات کو ہر قسم کے
سفری اخراجات سے مبرا کردینا چاہیئے ۔جبکہ اساتذہ کرام کو درپیش مسائل کا
فوری ازالہ بہت ضروری ہے اگر استاد ذہنی اور جسمانی طور پر مطمئن نہیں ہوگا
تو وہ نئی نسل کو زیور تعلیم سے آراستہ کیسے کرے گا ۔الیکشن ہو ٗ سرکاری
پارٹی کا جلسہ ہو ٗ غیر ملکی سربراہ کی آمد ہو ٗ یا کوئی قومی دن اساتذہ
کرام کی عزت توقیر کاہر ممکن خیال رکھنا حکومت کا فرض بنتا ہے ۔
دلوں میں بھرو علم کا مال زر
نہ آتش کا خطرہ نہ چوروں کا ڈر |