کاش!یہ ہجوم اک قوم بن جائے
(Abdul Majid Malik, Lahore)
یہاں پر جھوٹ بکتا ہے،ظلم کے
بازاروں میں رش دکھتا ہے،انصاف رشوت کی میزانوں میں تلتا ہے،قلم بھی بکتا
ہے،ایمان کا سودا بھی ہوتا ہے،یہ ایسا تعفن زدہ معاشرہ ہے جہاں سے سے بڑا
جرم غربت ہے،اور غریب کی سزا یہی ہے کہ وہ اس بدبودار معاشرے میں ذلت کی
زندگی گزارے اور آہ و بکا بھی نہ کرے ،کیونکہ اس سے بھی امراء کے آرام میں
خلل ہوتا ہے،اگر زیادہ ہی مسئلہ ہو تو پٹرول چھڑک کر خود کو آگ لگا لے یا
پھر کسی ریل گاڑی کے نیچے آکر خود کشی کر کے خود کو زندگی کی قید سے آزاد
کروا لے کیونکہ یہ معاشرہ اس نہج پر پہنچ چکا ہے،جہاں انسانیت دم توڑ گئی
ہے،احساس کا مادہ ناپید ہو چکا ہے،اور شاید یہی نفسا نفسی کا زمانہ ہے جہاں
ہر کسی کو اپنی فکر ہے۔
اس معاشرے میں رہنے کے لئے اپنے ضمیر کی آواز کو سلانا ہوگا،سچ بولتی زبان
کو چپ کرانا ہو گا،انصاف کے لئے عدل کے میزانوں میں رشوت اور ہر جائز کام
کے لئے بھی سفارشی کلچر کو اپنانا ہوگا کیونکہ یہ معاشرہ اتنا غلیظ ہو چکا
ہے کہ یہاں انسانی جان اپنی قدر و قیمت کھو بیٹھی ہے ،جہاں انسانی خوں اتنا
سستا ہو چکا ہے کہ بیچ چوراہے میں انسان ایڑیاں رگڑ کر مرتا رہے اور پوری
خلقت اسے تکتے ہوئے بھی آنکھیں موند لے تو اس قوم کو کیا کہیں گے بلکہ وہ
قوم نہیں لوگوں کا ہجوم ہو گا جو دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہو اور ذلت و
رسوائی اس کا مقدر بن چکی ہو۔
فرشتوں نے جسے سجدہ کیا تھا
وہ کل فٹ پاتھ پر مردہ پڑا تھا
جب اس معاشرے کی تنزلی کا تذکرہ ہوتا ہے تو لوگ بڑے شور سے اور دعوے کے
ساتھ بیانگ دہل کہتے ہیں کہ یہ سب حکمرانوں کا کیا دھرا ہے،بھلا کوئی ایسے
لوگوں سے پوچھے کہ ان لوگوں کو حکمرانی کرنے کا حق دیا کس نے ہے ؟یہ کون سی
مخلوق ہے جو آپ پر آکر مسلط ہو گئی ہے اور تم کہتے ہو کہ اس میں ہمارا کوئی
قصور نہیں ،بلکہ ہمارے زوال کا سبب حکمران طبقہ ہے،جیسی قوم ہوگی ،جیسے لوگ
ہوں گے ویسے ہی حکمران ان پر مسلط کئے جائیں گے۔
اس قوم میں نفرت کے بیوپاری بھی جابجا بکھرے نظر آتے ہیں،جو محبت کی بجائے
فرقہ پرستی کی تجارت کرتے ہیں ،اس قوم کے ’’ملا‘‘منبر رسول پر بیٹھ کر نفرت
کا کاروبار کرتے ہیں ، یہاں مفتی اپنی مرضی کے فتوے بڑے سستے داموں بیچ
دیتے ہیں اور کچھ تو اس قوم کو میڈیا کے ذریعے ’’جدید مفتی‘‘میسر ہیں جو
اپنے تئیں اسلام پر تجربہ کرتے دکھائی دیتے ہیں
یہاں تہذیب بکتی ہے ،یہاں فرمان بکتے ہیں
ذرا تم دام تو بدلو،یہاں ایمان بکتے ہیں
لوگوں کے اس ہجوم پر مولانا عبیداﷲ سندھی کے یہ الفاظ بالکل صادق آتے ہیں
’’غلام قوم کے معیار بھی عجیب ہوتے ہیں شریف کو بے وقوف،مکار کو چالاک،قاتل
کو بہادر اور مالدار آدمی کو بڑا سمجھتے ہیں‘‘اس قوم میں سے کئی دیوانے بھی
کھڑے ہوئے ،جو اس قوم کو جگانا چاہتے تھے ،آج بھی تاریخ کو اوراق کو پلٹیں
اور زیادہ دور نہ جائیں ،تو سر سید احمد خان نے تعلیم سے اس قوم کو بیدار
کرنے کی کوشش کی ،اقبال ؒ نے اپنی شاعری سے اس قوم کو جھنجھوڑا ،لیکن یہ
قوم آنکھیں کھولنے کے بعد پھر نیند کی آغوش میں چلی جاتی،اب تو یہ قوم
تفرقوں میں بٹتی چلی جا رہی ہے،طبقات میں تقسیم در تقسیم ہو رہی ہے اور قوم
کی بجائے یہ لوگوں کا ایک ہجوم سا ہے جسے اغیار اپنی مرضی سے ہانکے چلے جا
رہے ہیں،اور یہ قوم خوشی خوشی ظلمت کی طرف رواں دواں ہے،تنزلی کے سفر میں
اس کی رفتار بڑھتی چلی جا رہی ہے ،اگر یہی حال رہا اور ہم نہ بدلے تو اس کے
وطیرے کو دیکھتے ہوئے کوئی بعید نہیں کہ
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
کبھی لوگوں کے ہجوم میں کسی کو خیال آ بھی جاتا ہے کہ ہم ظلمت کے راہی ہیں
ہمیں واپس اجالوں کی طرف لوٹنا ہوگا،ترقی کی راہیں ہماری منتظر ہیں،خوشحالی
ہمارا راہ تک رہی ہے،تیرگی کے دبیز اندھیروں سے پیچھا چھڑانا چاہیئے ،لیکن
پھر وہ سوچتا ہے کہ میرے اس طرح واپس پلٹنے سے کونسا انقلاب برپا ہو جائے
گا،سبھی جا رہے ہیں تو مجھے بھی ان تنگ راہوں پہ جا کر شب کی دبیز اندھیروں
میں رہنا ہے رہ لوں گا،پھر وہ بھی اپنی سوچ کی لہروں کو آزاد چھوڑ کو غلامی
کو اپنا مقدر بنا لیتا ہے حالانکہ روشنی کی ایک چھوٹی سی کرن بھی اندھیرے
کو چیر کر رکھ دیتی ہے اور ویسے بھی
ہرفرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا
لیکن پہلے ہم ایک ’’ملت‘‘تو بن جائیں ،کاش کہ لوگوں کا یہ ہجوم اب تو خواب
غفلت سے بیدار ہو اور ہم پھر سے ترقی کے سفر پر گامزن ہو جائیں ،اﷲ ہم سب
کا حامی و ناصر ہو۔آمین |
|