شمشیر و سنا اول طاؤس و رباب آخر

آج اسلام دنیا کا سب سے زیادہ پھیلنے والا دین ہے،مگرکیاوجہ ہے کہ آج سب سے زیادہ پسنے والامذہب بھی اسلام ہے ؟ دنیا بھر میں جس طرح مسلمانوں کی تذلیل ہورہی ہے اور جس طر ح ہمیں دہشت گرد ہونے کا لیبل دیا جاتا ہے اس پر ہمیں ضرور فکر مند ہونا چاہیے۔ایک وقت تھا جب مسلمانوں نے سائنس کو عروج بخشا مگرآج سائنس ، معیشت اور میڈیا پر راج یہودیوں کا ہے۔کیا وجہ ہے کہ آج وہ بہترین دماغ پیدا نہیں ہورہے، وہ سائنس دان، وہ معیشت دان،وہ ریاضی دان پیدا نہیں ہورہے؟ الرازی،ابن سینا، ابن الہیثم،الفاربی اور عمر خیام جیسے عظیم لوگ آج کہاں کھوگئے؟ کیا اس میں بھی یہودیوں کی کوئی سازش چھپی ہوئی ہے ؟ ممکن ہے ایسا بھی ہو مگر تالی ہمیشہ دونوں ہاتھوں سے ہی بجتی ہے ۔ضرور ہماری بھی کوتاہیاں اور کمزوریاں ہونگی ۔قران مجید میں اللہ تعالیٰ 700 سے زائد مقامات پر غور و فکر کا حکم دیتا ہےمگر معذرت کے ساتھ ہمارا زیادہ تر زور عبادات اور ثواب حاصل کرنے پر ہوتا ہے۔جسکا نتیجہ یہ ہے کہ آج ہم ہر میدان میں باقی دنیا سے پیچھے ہیں۔میرا ہرگز مقصد بلاوجہ تنقید نہیں بلکہ نیک نیتی سے اصلاح کی خاطر اُن غلطیوں کی نشاندہی کرناہےجو ہم سب میں موجود ہیں ہوسکتا ہےکہ اس مضمون کے بعد ہم میں سے کسی کے اندر مثبت جذبہ تحریک بیدار ہواور ہم اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش کریں۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ غور وفکر کرنے اور ہماری توجہ مظاہر قدرت پر دلانے کے لئے فرماتے ہیں کہ:-
"بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات دن کی گردش میں اور ان جہازوں (اور کشتیوں) میں جو سمندر میں لوگوں کو نفع پہنچانے والی چیزیں اٹھا کر چلتی ہیں اور اس (بارش) کے پانی میں جسے اﷲ آسمان کی طرف سے اتارتا ہے پھر اس کے ذریعے زمین کو مُردہ ہو جانے کے بعد زندہ کرتا ہے (وہ زمین) جس میں اس نے ہر قسم کے جانور پھیلا دیئے ہیں اور ہواؤں کے رُخ بدلنے میں اور اس بادل میں جو آسمان اور زمین کے درمیان (حکمِ الٰہی کا) پابند (ہو کر چلتا) ہے (ان میں) عقلمندوں کے لئے (قدرتِ الٰہی کی بہت سی) نشانیاں ہیں۔" سورۃ بقرہ آیت نمبر 164۔

بدقسمتی سے چودہ سو سال بیت گئے ہم پھر بھی دنیا سے پیچھے ہیں حالانکہ اسلام دنیا کا جدید ترین مذہب ہے۔ مگر ہماری تاریخ وہ نہیں جو ہمیں بتائی جاتی ہے۔ اسلام کی تاریخ الگ اور مسلمان کی تاریخ جداہے اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ خلافت راشدہ کے بعد ملوکیت شروع ہوگئی اور بنو اُمیہ سے لیکر بنو عباس تک ، سلطنت عثمانیہ سے مغل سلطنت تک سب ہی خاندانی ،وراثتی یا بادشاہی سلطنتیں تھیں جنکا خلافت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ کیونکہ خلافت کا بنیادی اصول یہ ہے کہ اُس شخص کا انتخاب ہو جو خود خلافت کے لئے نہ اُٹھے اور اپنی کو شش اور تدبیر سے اقتدا ر میں نہ آئے ، بلکہ جس کو اُمت سر براہی کے لئے بہتر سمجھیں اس کومشورے سے اقتدا ر پر بھٹائیں ۔ بعیت اقتدار کا نتیجہ نہیں بلکہ اُس کا سبب ہو ۔ لوگ بعیت کرنے یا نہ کرنے کے معاملے میں با لکل آزاد ہوں۔ اسی قائدے کے تحت خلفائے راشدہ آئے تھے اور اسکے بعد اُسی قائدے کی نفی ہوئی، جس کا نتیجہ ملوکیت کی صورت میں نکلا۔ اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کی تاریخ جو تیروں اور تلواروں کے سائے میں شروع ہوئی، اُس کا انجام نا چ گانوںکی محفلوں پہ آکر ختم ہوا۔ وہ جو اقبال نے فرمایا تھا کہ :-
ؔمیں تجھ کوبتاتا ہو ں'تقدیر اُمم کیا ہے
شمشیر و سنا اول طاؤس و رباب آخر

ہمیں آج پھر اپنے کردار کو دیکھنا ہوگا اور اپنی کوتاہیوں پر نظر دوڑانی ہوگی۔ کیونکہ اگر ہمیں دنیا کی دیگر اقوام کا مقابلہ کرنا ہے تو پھر ہمیں اپنے ماضی حال اور مستقبل پر کڑی نظر رکھنی ہوگی اور اپنی غلطیوں کو چھپانے کی بجائے ان کو ٹھیک کرنا ہوگا،ان سے سبق حاصل کرنا ہوگا۔

مشرق وسطیٰ میں اُٹھنے والے ایک نئے فتنے “داعش یا اسلامی سلطنت”پر نظر دوڑائی جا ئے تو ابو بکر بغدادی نامی شخص نے اسلامی خلافت کی بنیاد ڈالی ہوئی ہے اور وہ کئی مسلمانوں کو خلافت کے نام پر بے وقوف بنارہے ہیں۔ موصوف مخصوص کالا اسلامی لباس پہنے خود ساختہ جہاد کا علمٰ بلند کئے ہوئے ہیں اور اسلام کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔ بے شک اسلام امن کا دین ہے اور اُسی کا درس دیتا ہے پھر یہ گردنیں کاٹنا اور ذبح کر نا کہاں کا اسلام ہوگیا؟ موصوف کا جہاد محض یہاں تک محدود نہیں بلکہ بزرگان دین کے مزارعت کو ڈائینامائٹ کے ساتھ شہید کرنا اور صحابیوں کی قبروں اور روضہ مبارک کو مسمار کرنا شامل ہے۔ اسرائیل سے زیادہ اہل تشیع بھائیوں کا قتل عام ان کے نزدیک سب سے اہم ہے۔ کیا اب جہاد مسلکوں کی بنیاد پر ہوگا؟ اور داعش کے نام پر Wall Choking پاکستان میں ہونا ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ خدا خدا کر کے تحریک طالبان پاکستان سے جا ن چھُوٹی تو اب یہ ؟

بہت سے نادان لوگ اب بھی ان کو برحق سمجتے ہیں تو جنا ب کیا مجاہد اسلام ایسےہوتے ہیں؟ بڑے بزرگ کہتے ہیں جہاں جہالت ہوتی وہیں جذباتیت ہوتی ہے۔ ہمیں یہی گمراہی و بربادی کے راستے بند کرنے ہونگے اور تعلیم ،علم ، ہنر ، سائنس اور ٹیکنالوجی کے راستے کھولنے ہونگے۔ ذہنوں کے بند دروازے کھولنے ہونگے دلوں کو کشادہ کرنا ہوگا۔ کیونکہ یہی تعلیم حضرت محمدؐ کی زندگی کا درس ہے۔ اگر ہم ان ہی مسلکوں میں پڑے رہے تو پھر ہمیں تاریخ کا وہ انتہائی تکلیف دہ سبق یاد ہونا چاہیے کہ جب بغداد پر پہلی بار قبضہ ہوا تھا تو اس وقت کے مسلمان بھی شعہ سنی کی بحث میں پڑے ہوئے تھے اور ہلاکو خا ن کی تلوار نے کسی خون میں فرق نہیں کیا تھا اور دریائے دجلا کئی روز تک شعہ سنی کے خون سے بے نیاز لال ہوکر بہتا رہا تھا۔!!
Muhammad Jabran
About the Author: Muhammad Jabran Read More Articles by Muhammad Jabran: 47 Articles with 56760 views
I am M Phil Scholar In Media Studies. Previously, i have created many videos which are circulating all over Social Media.
I am the Author of thre
.. View More