رات کے بارہ بج چکے تھے،محلہ کے
بوڑھے،بچے اورنوجوان بسترے میں کروٹیں بدل رہے تھے، نیند انہیں تھپکیاں دے
رہی تھیں؛مگرلاؤڈاسپیکرکی زوردارآوازنیندچھیننے کی مسلسل کوشش کررہی
تھی،مغرب کے بعد سے ہی مقرروں اورغزل ونظم گنگنانے والوں کی چیخ وپکارشروع
ہوئی تھی؛گھڑی کاکانٹابارہ سے پار کرچکا تھا، مگرنہ جلسہ کرانے والے ذمہ
داروں کو اس کی فکرتھی اورنہ ہی خطیبوں کواس سے کوئی مطلب!
یہ توایک واقعہ ہے،ورنہ محرم الحرام کے مہینہ میں بالخصوص اوردوسرے مہینے
میں بالعموم ہرہرمحلے میں اس طرح کے جلسے ہوتے ہیں،عجب عجب اندازمیں نعت
پاک پڑھے جاتے ہیں،ایک شوروغل کاماحول ہو تا ہے، دُوردُورتک لاؤڈاسپیکرلگے
ہوتے ہیں،سامعین مشکل سے پانچ یادس،مگرآوازپہونچ رہی پچاسوں گھروں تک۔
مشکل یہ ہے کہ یہ سب دین اورمذہب کے نام پر ہورہاہے،کوئی اسے سیرت النبی ﷺکانام
دیتا ہے، کوئی اسے پیغام حق،پیغام توحید کانام دیتاہے اورکوئی شہادت حسین
صکاعنوان دیتاہے،مگرہرکوئی اسے کارثواب سمجھتا ہے۔
اس طرح پروگرام کرانے والے بعض ذمہ داروں سے میں نے جب اپنی شکایت درج
کرائی توانہوں نے صاف کہدیا:کہ اسلام کس طرح پھیلاہے؟میں نے صاف
کہدیا:اخلاق کریمانہ سے، تووہ ہمارامنہ دیکھتارہ گیا، اورآگے کچھ نہ بول
سکا،مگریہ کہہ کربات کوختم کردی کہ ہم لوگ کبھی ایک جگہ بیٹھیں گے اوراس
مسئلہ پر خوب غوروخوض کریں گے۔
مذہب اسلام اﷲ کابنایاہواوہ قانون اوروہ دستورہے جو نبی کریم ﷺ کی تعلیمات
اورآپ ﷺکے پاک ارشادات میں بدرجہ اتم موجودہے،اس قانون اوردستورالٰہی
کوقیامت تک باقی رہناہے،اس لئے اس میں کسی طرح کاتغیراورتبدل کاامکان بھی
نہیں ہے۔
اﷲ کاکرم ہے ہم لوگ مسلمان ہیں،اورمذہب اسلام سے ہم نے اپنارشتہ
جوڑلیاہے،نبی کریم ﷺ کی تعلیمات پر مکمل بھروسہ اور یقین کامل ہے،جلسوں ،کانفرنسوں
اورجلوس ومظاہرہ میں اپنے نبی ﷺ کی محبت والفت کی قسمیں بھی ہم کھاتے ہوئے
نظرآتے ہیں، مگرافسوس یہ ہے کہ ان کی تعلیمات کیلئے اپنی گردن ہم خم نہیں
کرناچاہتے ہیں۔
شایدکچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام محض ایک رسم ورواج کانام ہے،اپنے
باپ،داداسے جوکچھ سنااس پر یقین کرلیا،دوسروں کوکرتے ہوئے جوکچھ دیکھا،اسی
پرعمل پیراہوگیا،یادوسری قوموں نے کسی سسٹم کورواج دیا، اوراسے اپنے دین
میں ہم نے بھی شامل کرلیا،ایساکرنایقیناغلط ہوگا،اس لئے کہ دین صرف وہی
معتبرہے جونبی کریم ﷺ کی تعلیمات میں موجودہے۔
مسلمان کون ہے؟بنی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کی بھی وضاحت فرمائی ہے،کہ
مسلمان و ہ ہے جس کی زبان اورجس کے ہاتھ سے دوسروں کوتکلیف نہ
پہونچے،اگرہمیں نبی کریم ﷺکی تعلیمات اور ارشادات پرمکمل یقین ہے توہمیں یہ
بھی یقین کرناہوگاکہ اگرہمارے کسی عمل سے دوسرے بھائی کوتکلیف پہونچ رہی ہے
توہم مسلمان کہلانے کے لائق نہیں ہیں!
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہابیان کرتی ہیں:کہ جب نبی کریم ﷺ تہجدکیلئے
بیدار ہوتے تو آپ دھیرے سے اٹھتے ،کہیں عائشہ رضی اﷲ عنہاکی آنکھ نہ کھل
جائے،آہستہ سے دروازہ کھولتے ، کہیں عائشہ کی آنکھ نہ کھل جائے،اورآج زور
دارتقریریں ہورہی ہیں ،اور لاؤڈاسپیکر کے ذریعہ ہر ہر محلہ تک آواز اسی لئے
پہونچانے کی کوشش ہورہی ہے تاکہ سوتے لوگ بھی جاگ جائیں،جاگے لوگ بھی بیدار
ہوجائیں ،بیدار لوگ کان لگاکر مقرروں کو برداشت کریں،یعنی سب کچھ دکھاوے
کیلئے ، دنیا میں اپنارعب ودبدبہ قائم کرنے کیلئے،ہَلا،شوروغل صرف اس لئے
ہورہی ہے کہ لوگ سمجھیں کہ دنیامیں یہ سب سے اچھے مقررہیں، ورلڈخطیب
ہیں،کوئی ان کے ٹکرکانہیں ہے۔
نمازجیسی اہم عبادت کے بارے میں ایک موقع پر نبی کریم ﷺ نے
ارشادفرمایا:جوشخص لوگوں کو دکھانے کیلئے نمازپڑھے اس نے اﷲ کے ساتھ شرک
کیا،اس لئے کہ وہ اﷲ کو راضی کرنے کیلئے نہیں پڑھ رہا ہے،بلکہ مخلوق کوراضی
کرنے اورمخلوق میں اپناتقویٰ اورنیکی کارعب جمانے کیلئے نمازپڑھ رہاہے۔
کیاسیرت النبی ﷺ کے جلسے میں تقریریں اﷲ کوراضی کرنے کیلئے ہورہی
ہیں،یامخلوق کودکھانے کیلئے جوش وجذبہ کااظہارہورہاہے،اورگلے
پھاڑپھاڑکرکرسیوں ،میزاورمائک پرزورزورسے ہاتھ مارے جاتے ہیں۔
اگراﷲ کوراضی کرنے کیلئے ہے،توپھرچندسامعین کیلئے لاؤڈاسپیکرکوباہرلگانے کی
کیاضروت ؟کیاآپ کو نہیں معلوم ؟ایک شخص مسجدنبوی میں زورزورسے
تقریرکرتاتھا،حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہاکے حجرے تک آوازپہونچتی تھی،آپ
کے آرام میں خلل ہوتاتھا،آپ نے امیرالمؤمنین حضرت عمرفاروق رضی اﷲ عنہ سے
شکایت کی،حضرت عمرفاروق رضی اﷲ عنہنے اس شخص کومنع کیا،ا و ر کہا : اپنی
آواز موجود سامعین تک ہی پہونچانا،باہرآوازنہ جائے،مگروہ نہ مانا،اوردوسرے
دن پھرزورزورسے تقریریں شروع کردیں،حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہانے
پھرشکایت کی،حضرت عمرفاروق رضی اﷲ عنہ نے اس بارسختی سے منع کیا ، اور کہا:
اگر اب بھی نہ مانے تومیں اس لکڑی کو تمہارے بدن پر توڑ دونگا۔
چندسامعین کوسنانے کیلئے پورے محلہ میں لاؤڈاسپیکرکے ذریعہ آوازپہونچائے
جاتے ہیں،کیاہم نے کبھی یہ بھی سوچاکہ محلہ میں کچھ
بوڑھے،بچے،اوربیمارمردوعورت بھی ہونگے،وہ اپنی درد،بے چینی اور بیما ر ی سے
کراہ رہے ہونگے،وہ سکون چاہتاہوگا،وہ آرام کی نیندسوناچاہتاہوگا،مگرآپ کی
زوردارآوازاسے مسلسل پریشان کرہی ہوگی،اگرحضرت عمرفاروق آج کے ماحول کودیکھ
لیتے توبتائیے کیاکرتے؟
نبی کریم ﷺ نے ارشادفرمایا:کہ اگرمیں نمازمیں کسی بچے کے رونے کی
آوازسنتاہوں تو میں نماز کو مختصر کردیتاہوں،کہیں اس کی ماں اس بچے کی
آوازسن کرکسی مشقت میں مبتلانہ ہوجائے۔
حضرت جابر رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں :کہ نبی کریم ﷺ جب صحابہ کرام سے خطاب
کرتے تو بکثرت آپ کی مبارک آنکھیں سرخ ہوجاتیں،اور آواز بلند
ہوجاتی،بسااوقات ایسالگتاکہ آپ لوگوں کو کسی آنے والے لشکر سے ڈرارہے
ہیں،فرماتے :تمہارے اوپر دشمن کا لشکر حملہ آور ہونے والاہے ،قیامت کے دن
اور حساب و کتاب سے ڈراتے،کہتے :میں تمہیں باخبر کرتاہوں کہ ایک بہت
بڑاعذاب تمہاراانتظار کررہا ہے ،اس سے بچنے کا کوئی سامان کرو!
آپ ﷺ کی آنکھیں سرخ ہوجاتیں اور کبھی آوازبلند ہوجاتی ،وہ اسلئے کہ جو بات
بھی آپ کہتے وہ دل کی آواز ہوتی ،وہ وحی الہی ہوتی ،وہ اﷲ کا فرمان ہوتا،دل
سے بات نکلتی تھی جذبہ پرخلوص تھا،اور قوم وملت کے درد سے سرشار تھااور آج
کی حالت یہ ہے کہ :
رہ گئی رسم اذان روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی
آج کی تقریروں میں نہ وہ درد ہے ،نہ وہ جذبہ پرخلوص ،نہ تحقیقی باتیں
ہیں،نہ نبی کی سیرت پر کوئی اچھی اور سچی گفتگو،بس وہی ایک عنوان
اختلافی،وہی گھسی پٹی باتیں ہیں،ہلاہے اور شوروغل،رات رات بھر شعر
وشاعری،ڈرامائی انداز میں نعت خوانی ،دوسروں پر طعن وتشنیع اور اپنے
بھائیوں کو نیچادکھانے کی کوشش!
جی ہاں یہی ہوتا ہے محلہ کہ ان محفلوں اور جلسوں میں ،صرف اپنی باتیں ہوتی
ہیں،اور تقریریوں کے ذریعہ اپنی خواہشات کی آگ بجھائی جاتی ہے ،شاید اسی
لئے اس طرح کے پروگراموں میں ہر آئے دن اضافہ ہورہاہے لیکن معاشرہ کی اصلاح
نہیں ہوپاتی ہے ،بلکہ معاشرہ اور زیادہ پراگندہ ہورہاہے ،وجہ یہ ہے دین کے
نام پر منعقد ان محفلوں میں دین کی بے حرمتی ہورہی ہے ،اپنے پڑوس میں موجود
مسلموں اور غیر مسلموں کی ایذارسانی ہورہی ہے ،اور یہ بتانے کی کوشش ہورہی
ہے کہ یہی اسلام ہے ۔
نبی کریم ﷺکی محبت ایمان کی علامت ہے بغیرنبی کی محبت کے ایمان مکمل نہیں
ہوسکتاہے؛لیکن ہماری محبت کیاصحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین سے بھی
زیادہ ہے ؟ایساسوچنابھی کسی گناہ سے کم نہیں ہے، کیا صحابہ کرام نے کبھی
محرم اور ماہ ربیع الاول کے مہینہ میں محلہ محلہ،قریہ قریہ ،شہرشہر اس طرح
شور وشغف کیاکرتے تھے۔
جب کہ حضرات صحابہ کرام کے ذریعہ سے اسلام بڑی تیزی سے پوری دنیامیں
پھیلاہے ، اور ہندوستان میں بھی اگر اسلام کی گونج سنائی دیتی ہے، تو انہیں
کی بدولت،وجہ یہ تھی کہ وہ لوگ نبی کریم ﷺکی تعلیمات کے عملی نمونہ تھے ،نبیﷺ
سے کوئی بات سنی اور اسے اپنی زندگی میں پیش نہیں کیا ایساناممکن تھا،۔
صحابہ کرام نے تجارت کی ،بزنس کی،کاروبار کئے،غیر مسلموں سے دیگر معاملات
کئے ؛مگر نبی کریم ﷺ سے جو اخلاق کریمہ انہوں نے سیکھی تھی اس پر ہمیشہ
کاربند رہے،جھوٹ نہیں بولتے،امانت میں خیانت نہیں کرتے ،اور خوش اخلاقی کا
مظاہرہ کرتے ،غیر مسلمین ان کے اخلاق سے بیحد متاثر ہوئے ،اس لئے صحابہ
کرام کے پاؤں جہاں جہاں پڑے ہیں وہاں بہاریں آگئیں اور جو ق در جوق لوگ
اسلام میں داخل ہونے لگے۔
آج ہمارے معاملات صحیح نہیں ،ہمارے اخلاق اچھے نہیں،صرف جلوس ،صرف ہلا،
شوروٖغل، پڑوسیوں کی ایذارسانی ،صرف انا،اور اپنی چودھراہٹ کو برقرار رکھنے
کا خیال!
نہ محبت ،نہ مروت ،نہ شرافت ،نہ خلوص
ہم بھی شرمندہ ہیں اس زمانہ میں مسلماں ہوکر |