کل سے سبق لیتے ہوئے آج کی فکر کی جانی چاہیے!
(Muhammad Asif Iqbal, India)
711ء کا واقعہ ہے جب طارق بن
زیاد نے صرف سات ہزار مسلمان سپاہیوں کے ساتھ اندلس میں قدم رکھااور وہ
عظیم واقعہ نمودار ہوا جس نے تاریخ رقم کی۔اندلس سمندر کے کنارے پر تھا اور
آنے والی فوج پانی کے راستے آئی تھی،لہذا طے ہوا کہ یا تو فتح حاصل کریں گے
یا پھر جام شہادت گلے لگائیں گے۔لہذاجن کشتیوں سے سمندر عبور کیا تھاانہیں
جلا دیا گیا۔وادی لکتہ کے پاس ایک لاکھ عیسائیوں اوربارہ ہزارمسلمانوں کے
درمیان جنگ ہوئی،جس میں مسلمانوں کوفتح حاصل ہوئی۔لیکن جلد ہی طارق محلاتی
سازشوں کا شکار ہوا۔اور وہ موسیٰ بن نصیر اور طارق بن زیاد جنہوں نے اندلس
فتح کیا تھادربار خلافت میں ذلیل ہوئے۔بعد میں عبد العزیز بن موسیٰ نے
اندلس کی فوج کی کمان سنبھالی اور انتہائی مضبوط قلعے تسخیر کیے ،لیکن اسے
بھی حاسدوں کا شکار ہونا پڑا اور خلیفہ سلیمان نے حکم دیا کہ عبدلعزیز کا
سر کاٹ کر دمشق روانہ کیا جائے۔جرم یہ تھا کہ اس نے قانون بنایا تھا کہ اگر
کوئی عیسائی غلام اسلام قبول کرلیتا تو اسے آزاد سمجھا جاتا اور اس کی
آزادی کی ضمانت حکومت دیتی۔اُس زمانے میں بے شمار غلام تھے چنانچہ اس کے
چند روزہ دور میں اندلس کی مقامی آبادی کی بڑی تعداد نے اسلام قبول کیا۔پھر
یہ قتل دارالحکومت دمشق کی خلافت کے دائرہ اثر سے باہر نکلنے کا ذریعہ
بنا۔اورساتھ ہی یمانی،قیسی،بربروں کے درمیان نہ صرف تنازعات اٹھ کھڑے ہوئے
بلکہ مسلمانوں کے اندر ہی خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ایسے موقع پر عیسائی غور
سے اِس منظر کو دیکھتے رہے۔وہ کبھی کسی فریق کا ساتھ دیتے کبھی کسی کا۔یہاں
تک کہ عبدالرحمن سوم کا سہنری دور آیا لیکن انہیں بھی اپنے دور میں عیسائی
باغیوں اور فتنہ انگیزوں کے خلاف مسلسل کاروائی میں مصروف رہنا پرا۔علاوزہ
ازیں اب مسلمان اندلس صرف اپنے دفاع میں لگے تھے،انہیں قدرت نے تبلیغ اسلام
و توسیع سلطنت کا موقع دیا لیکن افسوس انہوں نے یہ موقع کھو
دیاتھا۔عبدالرحمن سوم ہی کے دور میں مشہور جنگ الخندق میں مسلمانوں کو شدید
ترین نقصان پہنچا۔جنگ عیسائیوں کے قلعہ سموار کے قریب ہوئی،اورتقریباً پچاس
ہزار مسلمان خندق میں گر کر ڈوب گئے اور بھاگنے والے قتل ہوئے۔آخری ایام
میں اموی خلیفہ ہشام ثانی اپنے حاجبوں کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنا رہا۔حکومت ان
کے حاجب چلاتے اور وہ خود شراب کی لذتوں میں غرق رہتا۔حاجب عبدالرحمن نے تو
باقاعدہ لکھوالیا کہ وہ حکومت کرنے کا اہل نہیں رہا، اس لیے تمام اختیارات
خلافت حاجب کو منتقل ہو گئے اور وہ نااہل بلآ خر قتل کر دیا گیا۔
یہ صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جبکہ اندلس میں مسلمانوں کے اقبال کا سورج نصف
انہار تک پہنچا ہوا تھا۔نہ اس دور سے پہلے اور نہ ہی بعد میں وہ عروج حاصل
ہوا جو اُس وقت موجودتھا۔ لوگ مادی اعتبار سے خوشحال تھے، تجارت ترقی پر
تھی،آبادی مہذب تھی، شہروں میں تفریح گاہوں اور باغوں کی کثرت تھی، غرناطہ،
قرطبہ، بلنیسیہ، اشبیلیہ،طلیطلہ کے شہر اپنی مثال آپ تھے۔وادی الکبیر کے
دونوں طرف تیس میل تک میوہ دار درخت ملک ملک سے منگواکر لگائے گئے
تھے۔دارالحکومت قرطبہ کی تو شان ہی کچھ اور تھی۔آبادی ایک ملین تھی، مکانات
کی تعداد بیس ہزار ،مساجد تین ہزار تھیں، حمام تین سو کے قریب تھے۔اسی طرح
ایک اور خوبصورت مضافاتی بستی الزھرا تھی جہاں شاہی محلات تھے۔شاہی
لائبریری میں چھ لاکھ تک جلدیں موجود تھیں، جامع مسجد قرطبہ اپنی وسعت اور
خوبصورتی میں بے مثال تھی، اس کی چھت چودہ سو ستونوں پر کھڑی تھی، یہاں
بہترین یونیورسٹی قائم تھی جہاں دنیا کے کونے کونے سے علم کے پیاسے اپنی
پیاس بجھانے آتے۔اس سب کے باوجود بدقسمت مسلمانوں نے اﷲ تعالیٰ کے عطا کردہ
انعامات کی قدر نہ کی،خوشحالی اور مادی عروج کے خوشنما مناظر میں گم ہو کر
وہ ایسے غافل ہوئے کہ اپنے اصل مقصد کو فراموش کر بیٹھے۔اور محض امن و سکون
کی خاطر متعصب عیسائی حکمرانوں کی من پسند شرائط پر دوستی کے معاہدے کرنے
والے(حالانکہ اُن عیسائی حکمرانوں نے ہمیشہ ان معاہدوں کی خلاف ورزی
کی)مسلمان حکمرانوں کی غلطیوں، مقاصد سے انحراف اور عیش پسندی کی بہت بڑی
سزا ملی۔نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ امراء نے بغاوت کرکے خودمختار سلطنتیں
قائم کرلیں ،جو خود ہی ایک دوسرے سے آپس میں لڑتے رہتے۔آخر کار مسلمان
اندلس بھر سے سمٹ سمٹا کر غرناطہ کی آخری مسلمان ریاست کی حدود میں جمع ہو
گئے۔اتنے چرکے سہنے کے بعد ان میں بربر و عرب کا امتیاز مٹ چکا تھا، انہوں
نے کھلی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ دشمن کے نزدیک نہ وہ عرب تھے،نہ بربر، نہ
یمانی،نہ شامی،فقط مسلمان تھے،اوریہی ان کا قصور تھا۔لیکن دشمن سے رحمدلی
کی امیدیں وابستہ کرنے والوں کو وقت اور تقدیر نے کبھی نہیں بخشا۔جب
مواحدین کی خلافت ختم ہوئی اور اسلامی اندلس کی مختلف چھوٹی بڑی مملکتیں
آپس میں ٹکرانے لگیں تو انہیں اسی قسم کی غلط فہمی ہوئی تھی، یہ غلط فہمی
اس وقت دور ہو گئی جب دشمن نے لالچ،جھانسہ اور سازش کے بعد ایک کے بعد
دوسری ریاست کو تر نوالہ بنانا شروع کیا۔اندلس کے مسلمانوں پر فتنوں کی
ژالہ باری شروع ہو گئی تھی۔کبھی کبھی دنیا میں بھی دوزخ کا نقشہ قوموں کو
دکھایا جاتا ہے۔اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:"یہی وہ دوزخ ہے جس کے متعلق تمہیں
بتادیا گیا تھا"(القرآن)۔
اور پھر اپنے آخری سوسالوں میں غرناطہ کے حکمرانوں نے طاقتور عیسائی
حکمرانوں کی زیادہ سے زیادہ خوشامد اور نئے سے نئے ایسے معاہدے کرکے اپنے
اقتدار کا بچاؤ کیا جن میں غیرت اسلامی کو داؤ پر لگادیا گیا۔امیر یوسف
محمد ابن الاحمر نے جب محمد ہشتم کی فوج کو شکست دے کر غرناطہ میں قدم رکھا
تو اس نے اپنا فرض سمجھا کہ اپنے عیسائی آقاؤں کو اپنی وفاداری کا یقین
دلائے تاکہ انہیں ان کی طرف سے کسی قسم کی شکایات کا موقع نہ ملے۔چنانچہ اس
نے عیسائی حکمرانِ قسطلہ کو خط لکھا:"میں یوسف محمد ابن الاحمر بادشاہ
غرناطہ تمہارا مطیع و فرمانبردار، عقیدت و نیاز مندی کے ساتھ عرض کرتا ہوں
کہ میں سیدھا غرناطہ آیا اور یہاں کے تمام امراء اور علما نے مجھ کو اپنا
بادشاہ تسلیم کیا، یہ دن مجھ کو خدا کے فضل اور تمہاری عنایت و مدد سے نصیب
ہوا ہے"۔یہاں تک کہ غرناطہ کی کشتی میں جگہ جگہ سراخوں نے بڑے شگاف کی شکل
اختیار کر لی۔اور ان حالات میں غرناطہ ایک طرف نزع کی حالت میں آخری ہچکیاں
لے رہا تھا تو وہیں مسلمان عظیم المیے سے بے خبر آپس میں لڑ رہے تھے۔سکرات
موت تک کی کہانی میں کوئی نئی بات نہ تھی، وہی کچھ ہوا جو ہمیشہ کسی قوم کو
مرگ کے جانگسل لمحے میں پیش آتارہا ہے۔1489ء میں فرڈی نینڈ نے قلع بسط کا
محاصرہ کیا۔مسلمانوں نے مختصر مزاحمت کے بعد یہ قلعہ عیسائیوں کے حوالے کر
دیا۔فرڈی نینڈ نے وعدہ کیا تھا کہ مسلمانوں کے جان ومال کو نہیں چھیڑا جائے
گا لیکن طاقتور معاہدوں کی کب پروا کرتے ہیں۔فرڈی نینڈ نے قلعہ میں داخل
ہوکر قتل عام کا حکم دیا اور مسلمانوں کی تمام جائیداد حملہ آوروں میں بانٹ
دی۔اب اسی غرناطہ میں مسلمان محاصرے میں تھے۔ابو عبداﷲ پر ملکہ ازابیلا اور
فرڈی نینڈ کے ٹڈی دل متحدہ لشکر کی یلغار ہو چکی تھی۔یہ وہی ابو عبداﷲ تھا
جس نے باپ کے خلاف اقتدار کے لالچ میں بغاوت کی تھی،چچا الزاغل کے ساتھ
جنگیں لڑی تھیں،مسلمانوں کو آپس میں لڑایا تھا،ہمیشہ عیسائیوں سے مدد کی
بھیک مانگتا رہا تھا اور اب وہی عیسائی حقِ ہمسائیگی اچھی طرح ادا کرنے کے
لیے غرناطہ کے قلعہ کے درازوں پر دستک دے رہے تھے۔عیسائیوں نے مجبور نہیں
کیا تھا لیکن ننگِ ملت، ننگِ دیں، ننگِ وطن ابوعبداﷲ نے ساٹھ دن کی مقررہ
معیاد سے پہلے ہی 2؍جنوری1492ء کو غرناطہ دشمن کے حوالے کر دیا۔یکم جنوری
اور 2؍ جنوری کی درمیانی شب مسلمانوں کے لیے قیامت کے مناظر کی رات تھی تو
وہیں ملکہ ازابیلا اور بادشاہ فرڈی نینڈ کے لیے یہ عید کی رات تھی۔مصنف ایس
پی اسکاٹ لکھتا ہے:2"؍جنوری1492ء کی تاریخ میں جب شاہی خاندان اپنا زرق برق
لباس پہنے مسرت نعروں کے ساتھ قصر الحمرا کی طرف بڑھا تو الحمرا کا دروازہ
آہستگی سے واہوا۔چند خوبصورت نوجوان گھوڑوں پر سوار آداب بجانے کے لیے آگے
آئے، انہوں نے رنگا رنگ ریشمی ملبوسات پہن رکھے تھے۔ان کے ہتھیاروں اور
زربکتروں میں جواہرات چمک رہے تھے۔ان استقبال کرنے والوں میں سب سے آگے
بدقسمت ابو عبداﷲ اور باقی سب اس کے امرا تھے"۔آج فاتحِ غرناطہ کو قصر
الحمرا میں داخل ہوتے دیکھ ابو عبداﷲ اپنے گھوڑے سے اترپڑا اور اس کے گھوڑے
کی باگ تھام لی،ساتھ ہی اندلس کی آٹھ سو سالہ اسلامی روح پرواز کر
گئی۔غرناطہ کی چابیاں کانپتے ہاتھوں سے دشمن کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے
ابوعبداﷲ نے کہا:"یہ چابیاں اندلس میں عربوں کی حکمرانی کی آخری نشانی
ہیں،آپ انہیں لے لیجیے کیونکہ خدا کی مشیت کے مطابق ہمارا ملک،مال اور
جانیں سب آپ کی ملکیت میں ہیں"۔
واقعہ بطور تاریخ دانی نہیں پیش کیا گیا ہے۔مقصود یہ ہے کہ ملت آج جس بے
راہ روی میں مبتلا ہے،بے مقصدیت جس کی پہچان ہے، اور اسلام اور اسلامی
تعلیمات سے دوری جس کی "شان "بنی ہوئی ہے ،اس پر توجہ دی جائے۔لازم ہے کہ
اسلامی تعلیمات سے نہ صرف واقف ہواجائے بلکہ عمل بھی کریں۔ساتھ ہی اُن
پیاسی روحوں کو اسلامی تعلیمات سے سیراب کیا جائے،جو مکتی کی آس میں معلوم
نہیں اس ملک میں کیا کچھ کرتے ہیں۔کیونکہ مادی وسائل نہ کل کارآمد ہوئے اور
نہ ہی آج کارآمد ثابت ہوں گے،جبکہ اسلامی اخلاق و اقدار کے فروغ میں فرد
واحد اور بحیثیت پوری ملت سعی و جہد میں مصروف عمل نہ ہو جائے۔لہذا کل سے
سبق لیتے ہوئے آج کی فکر کی جائے۔فکر کا پہلا قدم اسلامی تعلیمات سے
وابستگی وعمل ہے۔تو وہیں دوسرا قدم قیام عدل کے لیے اپنی تن آسانیوں کو
قربان کرنا ہے۔ممکن اس طرح نفرتوں کی دیواریں ٹوٹیں، آپسی محبت و اعتماد
پروان چڑھے اور بحیثیت انسان بلا امتیار مذہب و ملت ہم دوسروں کے لیے
کارآمد ثابت ہوجائیں! |
|