اگر آپ وی آئی پی ہیں تو

جناب کراچی کا زکر کریں اور اس کی سڑکوں کا زکر نا ہو ..یہ ممکن نہیں ہے .کیونکہ کراچی میں رہ کر آپ کا واسطہ سب سے زیادہ سڑکوں سے ہی پڑتاہے..آپ نے وہ قومی نغمہ تو سنا ہی ہوگا ..'' چاند میری زمیں پهول میرا وطن .'' ..ہمیں یقین ہے کہ چاند کی زمیں پر اگر کوئ سڑک ہوگی تو وہ ہو بہو ایسی ہی ہوں گی ...

بڑی ہی منتوں مرادوں سے جو سڑکیں بنائی جاتیں ہیں اور جن کو بنانے والوں کا رخ زیبا ابهی زیبا یعنی سڑک ہی کی طرف ہوتا ہے .اچانک کچه محکموں کو یاد آتا ہے کہ جہاں یہ سڑک بنائ گئ ہے اسکے عین نیچےتو گیس یا پانی کے زخائر ہیں..لہزاہ اسی خضوع خشوع کے ساته اسکو دریافت کرنے کے لئے کهدائ شروع کری جاتی ہے....

کبهی کبهی تو ہمیں ایسا لگتا ہے کہ یا تو کهدائ کر کے پورا شہر دفن کرنے کا پلان ہے یا پهر نیا شہر دریافت کرنے کا ارادہ ..اس ساری کهدائ کے نتیجے میں جو مٹی اڑتی ہے اسکی ایک مناسب تہہ کراچی والوں کے چہرے پر سلیقے سے جم جاتی ہے .جو پانی نا ہونے ک صورت میں ایک دوسرے ہی نہیں تیسر ے کے منہ پر ہاته پهیر کر تیمم کا جا سکتا ہے....
دروغ بگردن راوی..
کراچی والوں کے کچه شوق دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں..ایک کهانے کا دوسرے مرنے کا ....خیر مرنے اور مارنے کے کام تو بخوبی ہو رہے ہیں ..لیکن ایسا لگتا ہے کہ پورے پاکستان کی بل عموم اور کراچی کی بلخصوص واحد تفریح کهانا ہے ..
ہم اس کهانے کی بات نہیں کر رہے جو ادارے فروختند چہ ارزاں فروختند ..کے زمرے میں آتا ہے ..کیونکہ اگر ہم نے اس پر لکهنا شروع کیا تو فیس بک کی ساری دیواریں کم پڑ جائیں گی ..
ہم ریسٹورینٹ اور ڈهابوں والے کهانوں کی بات کر رہے ہیں ....اگر کوئ نوارد کراچی آئے تو اسکو ایسا گمان ہوگا کہ کراچی کی ساری خواتیں نے یا تو کهانا پکانے سے ہڑتال کا اعلان کردیا ہے یا پهر ہم نے گهروں میں کچن بنانے چهوڑ دیے ....ڈهابوں اور سڑک چهاپ ہوٹلوں کا زکر ہی کیا نامی گرامی ہوٹلوں اور فاسٹ فوڈز کی چینوں میں ویک اینڈ پے آپکو باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے..
بعضے بعصے تخت ہوٹل تو آپکو نالے کی دیوار کے ساته بهی مل جائیں گے..جہاں مطمین بهوکے بڑے مزے سے یا تو مرغی کے غسل میت یعنی سوپ سے لطف اندوز ہو رہے ہوں گے یا پهر مرحومہ مرغی کی چتا کو بهنبهوڑ رہے ہوں گے .اپنی تسلی کے لئے ہم نے انکو بروسٹ اور روسٹ کے نام دے رکهے ہیں .
..دوسرا شوق جو اسکے ساته روکن کے طور پر ملتا ہے وہ ہے بیمار ہونے کا ..فراز نے شائد اس لئے ہی کہا تها کہ .
زندہ دلان شہر کو کیا ہوگیا فراز
آنکهیں بهجی بجهی ہیں تو چہرے تهکے تهکے..
تو جناب ہم کها کها کر بیمار ہوتے ہیں اور دوبارہ کهانے کے لئے صحت یاب ہونے کی کوشش کرتے ہیں ..
اس سارے عمل کے نتیجے میں ایک تیسری صنعت یعنی اسپتالوں کو فروغ حاصل ہو رہا ہے..
اس سارے قصے اور قضئے کی وجہ بهی ایک سرکاری اسپتال کا چکر تها ..ویسے تو ہماری نوک زبان جو دعا ہوتی ہے اور جس میں ہم بلا تخصیص سب کو شامل کر لیتے ہیں وہ یہی ہے کہ اللہ سب کو ڈاکٹروں اور اسپتالوں سے بچائے .
اب ہم نے اس میں اضافہ یہ کر لیا ہے کہ اللہ سب کو عام آدمی ہونے سے بهی بچائے ..
واقعہ یوں ہے کہ ہمیں ایک سرکاری اسپتال کے درشن کا موقعہ ملا...خیر سے ملا بهی وی آی پی کی سنگت میں ....اگر آپ وی آئ پی ہیں تو سارے دروازے کهل جا سم سم کی طرح چوپٹ ہو جاتے ہیں .بس پاس ورڈ وی آی پی ڈال کر دیکهیں ...
کراچی کے ایک دو بڑے سرکاری اسپتالوں کا درشن ہم نے پہلی دفعہ کیا..ہمیں تو یہ اسپتالوں سے زیادہ مسافر خانے لگے ..لواحقین مریض بڑے ہی سکون سے اسپتال کے فٹ پاتهوں پے محو استراحت تهے..ہمیں انکے اطمنان پر زیادہ غصہ آیا ...ایسی اونٹ قوم قسمت والوں کو ملتی ہے ..جتنا چاہو بار برداری کا کام لو اور کهونٹے سے بانده دو..یہی صورت حال پورے اسپتال کی تهی ..آنکهوں کے وارڈ میں چونکہ مریض صرف آنکهوں کی شکایت کے لئے آتے ہیں اسلئے لفٹ جیسی عیاشی کو بند کر دیا گیا تها .اسلئے مطمئیں اونٹ قوم اپنے مریضوں کو دهاتی اسٹریچر پر سکون سے تیسری منزل تک لے جا رہی تهی..صفائ کے تو نمبر ہی نہیں ملنے تهے لہزاہ اس طرف سے ہم بری الزمہ ہی ہو گئے تهے..آنکهوں کے معائنے کی مہنگی تریں مشینیں موجود تو تهیں لیکن خراب ..کیونکہ ہم نے کهلی آنکهوں سے کیا دیکه لینا تها..
خیر جناب دوسرے اسپتال کی حالت زار میں فرق یہ نظر آیا کہ یہاں زیادہ گندگی تهی اور زیادہ اطمنان .
ڈاکٹروں سے لے کر عملے تک اور مریضوں سے لے کر انکے لواحقین تک سب مطمئیں نظر ائے .کوئ شکوہ نہیں .کیونکہ شکوہ کے لئے اس احساس کا ہونا بہت ضروری ہے جسکو اپنا حق کہتے ہیں ..ہر چیز پر کمپرومائز ہماری عادت ہوگئ ہے .ہمیں کہیں بهی اپنی حق تلفی یا زلت محسوس نہیں ہوتی ..کوئ موت دکها کر بخار پر راضی کرلے تو ہم اسکو اپنا مسیحا سمجه لیتے ہیں .
اس لئے ہر گدها گهوڑا ہمارے سروں پر بیٹه جاتا ہیے اور ہمارے اندر صرف ایک خواہش جنم لیتی ہے ..کہ کسی بهی طرح ،کسی بهی چور دروازے سے ہم وی آی پی بن جائیں ..
کیونکہ اگر آپ وی آئ پی ہیں تو آپکے راستے میں اندهے بهی آئیں تو ان پر بلا تخصیص چهترول کردی جائے گی ..
ہم اپنے سیاہ شیشوں والی گاڑی میں بیٹهے سرخ سفید دهاڑیوں والے اندهے ،بہروں ،لولے لنگڑوں کو سڑکوں پر گهسیٹے جانے کے منظر کو انجوائے کریں گے..
کیونکہ اگر آپ وی آی پی نہیں ہیں تو اپکو اس ملک میں زندہ رہنے کا کوئ حق نہیں ہے..
Yasir Arafat
About the Author: Yasir Arafat Read More Articles by Yasir Arafat: 15 Articles with 12322 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.