خدارا! انسان بن جائیں
(Abdul Majid Malik, Lahore)
حدیث نبویﷺ کا مفہوم ہے کہ
’’لوگوں میں سے بہتر وہ ہے جو لوگوں کو نفع دے‘‘دور حاضر میں جہاں انسانیت
دم توڑ رہی ہے،نفرتوں کا کاروبار عروج پر ہے،ظلمت کا دبیز اندھیرا پھیلتا
چلا جا رہا ہے تو اس وقت ان اندھیروں کے چھٹنے کا انتظار کرنے کی بجائے
روشنی کی ایسی شمع جلائیں ،جس سے محبت کی کرنیں پھوٹیں اور چار سُو پیار کے
نغمے گونجنے لگیں ،لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ ایسی شمع کون جلائے کہ جو
تیرگی کو ختم کر دے تو اس کے لئے دکھی انسانیت کی خدمت کو اپنا شعار بنا
لیں کیونکہ اگر اس وقت دنیا میں اگر خود سکون چاہتے ہو تو دوسروں کے مصائب
و آلام کو ختم کرنے کی تگ و دو کرو اور اﷲ کا ذکر کرو کیونکہ اس سے دلوں کا
اطمینان نصیب ہوتا ہے۔
موجودہ حالات میں انسان کو اس کا جائز حقوق نہیں ملتے ،لیکن جب وہ مانگتا
ہے تو اسے ڈانٹ کر چپ کرا دیا جاتا ہے،جھڑکی کھانے کے بعد بھی اگر وہ صدا
بلند کرتا ہے تو اسے زدوکوب کیا جاتا ہے اور اس معاشرے میں اگر کوئی معذور
کیمیونٹی اپنے حقوق کی آواز بلند کرتی ہے تو ان معذوروں پر لاٹھی چارج کیا
جاتا ہے،آپ ایک لحظہ تصور تو کریں ایک نابینا جو دیکھنے سے بھی قاصر ہو اور
اسے سڑکوں پر گھسیٹ کر بیچ چوراہے میں لاٹھیوں سے پیٹا جا رہا ہو اور وہ
دیکھ ہی نہیں پا رہا ہو کہ میرے ساتھ ایسا ظلم عظیم کیونکر ہو رہا ہے؟ ،شاید
وہ نابینا تو نہیں دیکھ سکتے تھے لیکن ایک ذات سب کچھ دیکھ رہی تھی کہ
ایوان اقتدار میں کچھ لوگ کروفر اور تکبر سے یہ تماشا دیکھ رہے تھے شاید وہ
بھول گئے کہ اﷲ تعالیٰ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں،کوئی بعید نہیں ظلم کی
ایسی تیزآندھی آئے جو تمہارے محلوں کو بھی تباہ و برباد کر دے ،کہیں ایسا
نہ ہو کہ مرگلہ کی پہاڑیوں سے کوئی آفت نازل ہو جائے کہ تمہیں معلوم ہی نہ
ہو اور صفحہ ہستی سے مٹا دیے جاؤ،اب آنکھیں کھولو ،ہوش میں آؤ،تکبرو غرور
کے لباس کو اتار کر عاجزی و انکساری کی چادر اوڑھ کر توبہ تائب ہو کر مخلوق
خدا میں آ کر ان معذوروں کی داد رسی کرو ،ان کے جائز حقوق انہیں دو کیونکہ
معذور کیمیونٹی میرے معاشرے کا اہم حصہ ہے انہیں عزت سے جینے کا حق باعزت
طریقے سے دیا جائے ،کیونکہ جس معاشرے سے انصاف اٹھ جاتا ہے وہاں ظلم کا راج
ہوتا ہے اور ظلم کی حکومت پائیدار بھی نہیں ہوتی اور تادیر بھی نہیں ہوتی۔
اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے حکمران طبقہ کو چاہئے کہ میرے اﷲ تعالیٰ
نے اگر ان کو عزت و منصب سے نوازا ہے تو اس کا لحاظ کریں اور اس معاشرے میں
دکھی انسانیت کی بہتری اور بحالی کے لئے دن رات ایک کر دیں کیونکہ درحقیقت
قوم کا حاکم قوم کا خادم ہوتا ہے جو اپنی رعایا کا خیال رکھتا ہے میرے نبیﷺ
کی حدیث کا مفہوم ہے کہ ’’تم سے اپنی رعایا کے بارے سوال کیا جائے گا‘‘پھر
کیا جواب دوگے ؟؟؟ یہی کہتے ہو کہ جب وقت آئے گا تو دیکھا جائے گا اور ویسے
بھی اﷲ تعالیٰ کو بڑا رحیم و کریم ہے وہ معاف فرما دے گا،بلاشک و شبہ میرا
رب بہت غفور اور رحیم ہے کہ جسے چاہے گا اپنے فضل و کرم سے معاف کر دے گا
لیکن اپنے بندوں کے حقوق معاف نہیں فرمائے گا ،اور حقوق العباد صرف بندے ہی
معاف کر سکتے ہیں اس لئے ڈرو اس وقت سے جب مہلت ختم ہو جائے گی ابھی وقت ہے
لوٹ آؤ اور اس تعفن ذدہ معاشرے میں دکھی انسانیت کی خدمت کر کے ان کے ویران
چہروں کو رونق بخشو،ان کے غمگین آنکھوں میں سہانے سپنے سجاؤ اور ان کے پٹری
زدہ سوکھے ہونٹوں پر مسکراہٹیں بکھیرو،ابھی وقت ہے۔۔
دکھی انسانیت پر مرہم رکھنا صرف ایوان اقتدار میں بیٹھے لوگوں کا کام نہیں
ہے یہ ہمیں سب کو مل کر کرنا ہو گا تاکہ ہم ہر طرف خوشیوں کی بہاریں ہوں
اور اس معاشرے میں چار سو محبت رقص جرتی دکھائی دے لیکن اس کے لئے شرط یہ
ہے کہ ہر دکھی انسان کے زخموں پر مرہم لگاؤ گے اور طبقاتی تفریق کو مٹا کر
سب کو برابری کا درجہ دو گے کیونکہ میرے نبیﷺ نے فرمایا تھا جس کا مفہوم ہے
کہ ’’کسی عربی کو عجمی پر ،کسی عجمی کو عربی پر ،اور کسی گورے کو کالے پر
یا کسی کالے کو گورے پر کوئی فوقیت حاصل نہیں ‘‘۔
دکھی انسانیت کی خدمت کے لئے جہاں بہت سی بڑی بڑی انسانی حقوق کی تنظیمیں
اور این جی اوز کام کر رہی ہیں وہیں چھوٹے پیمانے پر ایک منظم طریقے سے
انسانیت کی فلاح کا کام ہو رہا ہے ان میں سے ہمارے ایک دوست ملک ابو بکر
یعقوب بھی الاحسان ویلفیئر کے نام سے دکھی انسانیت کی خدمت کو شعار بنائے
ہوئے ہیں ،وہ مریضوں کے لئے جہاں مفت میڈیکل کیمپ کا اہتمام کرتے ہیں وہیں
سیلاب زدگان کی امداد میں بھی پیش پیش رہتے ہیں ہمیں ان لوگوں کی بھی حوصلہ
افزائی کرنی چاہئے جو معاشرے میں محبت بانٹنے کا کام بڑے خوبصورت انداز میں
جاری رکھے ہوئے ہیں ،اﷲ تعالیٰ ان تمام لوگوں کی خدمات کو قبول فرمائے
واقعی یہ بہت بڑی نیکی کا کام ہے کیونکہ حدیث نبویﷺ کا مفہوم ہے کہ ’’لوگوں
میں سے بہتر وہ ہے جو لوگوں کو نفع دے‘‘۔
فرشتوں سے بہتر ہے انسان بننا
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ |
|