بیماریوں میں اضافہ ۔۔۔۔ پنشن سے چار گنا

بزرگ شہریوں کی زندگی بھی کیا زندگی ہے۔ ایک تو بڑھاپا جو بذات خود ایک بہت بڑی بیماری ہے اور دوسرا اس عمر کے لازمی اجزا کھانسی، نزلہ ، زکام ، جوڑوں کا درد ، رعشہ اور پتہ نہیں کیا کیا۔ حکومت ہر سال تنخواہوں میں بیس (20) فیصد اضافہ کرتی ہے اور اگر کم کرے تو ملازمین شور مچانے لگتے ہیں۔ ملازمین کی اتنی بڑی تعداد کی بات نہ ماننا حکومت کے لیے مشکلات کا باعث ہوتا ہے اس لیے اضافہ ہر حال میں بیس (20) فیصد ہو جاتا ہے۔ مگر بزرگ شہری شور نہیں کر سکتے ڈرتے ہیں اور صحیح ڈرتے ہیں جو حکومت اندھوں سے اتنا سفاکانہ سلوک کر سکتی ہے کہ جو تاریخ کا ایک سیاہ باب بن کر اس حکومت کو ہی نہیں پوری قوم کو بے حساب ذلت اور رسوائی دے جائے اس حکومت سے کچھ بھی امید کی جا سکتی ہے۔ اس لیے بزرگ شہریوں کی پنشن میں پچھلے دو سال سے صرف اور صرف دس فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔ اب کون حکومت کو یہ بتائے کہ پنشن میں اضافہ تو دس (10)فیصد ہوتا ہے مگر بزرگ شہریوں کے مسائل اور بیماریوں میں اضافہ سالانہ چالیس (40)فیصد ہوتا ہے۔ یوں ان کے حالات بد سے بد تر ہوتے جا رہے ہیں۔
گریڈ 17میں ریٹائر ہونے والے شخص کو اگر کسی پرائیویٹ کلینک میں کسی سپشلشٹ کے پاس جانا پڑے تو سب سے پہلے ڈاکٹر کی اپنی فیس پھر ڈاکٹر کے بتائے بہت سے ٹیسٹ اور بہت کچھ ،مہینے بھر کی پنشن ایک ہی ڈاکٹر کی نذر ہو جاتی ہے سرکاری ہسپتال ٹھیک ،مگر بس ٹھیک ہیں۔ اسلئیے کہ وہاں ڈاکٹر کو فیس لیے بغیر مریض کو دیکھنا ہوتا ہے لیکن جب فیس کی عادت ہو جائے تو بغیر فیس کے کسی کا علاج کافی مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ اسلیے سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹر مریض کو بس دیکھتے ہیں۔جی ہاں بس غور سے دیکھتے ہیں۔ لیکن مریض ڈاکٹر کے میٹھے لہجے اور مسکراتے چہرے کو دیکھنے سے محروم رہتا ہے۔ جبکہ مریض کو تندرست کرنے کے لیے ڈاکٹر کی مثبت بات چیت اور مسکرا تا چہرہ دوا کی نسبت اکسیر کا کام زیادہ کرتا ہے۔

جنرل پرویز مشرف کے آمرانہ دور میں کسی کو خیال آیا کہ بزرگ شہری بھی ایک مخلوق ہیں۔ پوری دنیا اپنے بزرگوں کو عزت اور احترام دیتی ہے۔ انہیں معاشرے کا نا کارہ شخص نہیں سمجھتی بلکہ انتہائی کار آمد اور تجربہ کار جانتی ہے۔ ان کے تجربات سے فائدہ اٹھاتی ہے۔ ان کی خدمات کا اقرار کرتی ہے جس کے صلے میں ان کو ہر جگہ عزت اور احترام دیا جاتاہے ، خوش آمدید کہا جاتا ہے۔ ہر معاملے میں ان کو خصوصی رعایت دی جاتی ہے۔ ہر جگہ انہیں اولیت دی جاتی ہے۔ چنانچہ فیصلہ ہوا کہ ہم جدید دنیا سے پیچھے کیوں رہیں ہم بھی اپنے بزرگوں سے وہی رویہ اپنا ئیں جو آج پوری دنیا نے اپنایا ہے۔ بہت سے اعلانات ہوئے۔ بہت سی قرار دادیں پاس ہوئیں امیدتھی کہ بہت پیش رفت ہو گی مگر یکا یک جمہوریت آگئی۔ اور جمہوریت تو اکثریت کی بات سنتی ہے۔ اکثریت کو جانتی ہے۔ اکثریت کو پہنچاتی ہے۔ اور بزرگ شہری اکثریت میں ہیں ہی نہیں۔ اور اگر ہوں بھی تو اکثریت دکھا نہیں سکتے کہ اندھوں کی طرح سڑک پر لٹا نہ لیے جائیں۔ بزرگی میں اک عزت ہی تو پاس ہوتی ہے اسے گنوانے کا رسک نہیں لیا جا سکتا اسلیے آمرانہ دور کے سارے اعلانات جمہوریت کے شور میں دب کر دم توڑ گئے۔ آمریت ہار گئی۔ بزرگ ہار گئے۔ اعلانات ہار گئے۔ اور خوشی کی بات یہ ہوئی کہ جمہوریت جیت گئی ۔ گو جسٹس افتخار چوہدری کی عدلیہ بھی جمہوریت کے سر پر لٹکتی اور اپنا کمال دکھاتی رہی مگر جمہوریت پھر بھی سرخرور رہی۔ اور اگر کسی کے حصے میں ناکامی آئی تو وہ کمزور طبقے تھے جیسے کہ بزرگ شہری کہ جن کی بات کوئی سنتا تھا اور نہ ہی سننے کو تیار تھا۔

پوری دنیا میں جب بھی تنخواہوں میں اضافہ ہوتا ہے پنشن بھی اسی کے ساتھ بڑھتی ہے مگر پنشن میں اضافے کی شرح تنخواہوں کی شرح میں اضافے سے بہت زیادہ ہوتی ہے۔ زرداری صاحب نے اپنے دور میں کمال مہربانی فرمائی کہ پنشن میں اضافے کی شرح وہی رکھی جو تنخواہوں میں اضافے کی تھی۔ مگر موجودہ حکومت کے دور میں پنشن میں اضافے کی شرح تنخواہوں میں اضافے کی شرح سے نصف رکھی گئی ہے۔ دونوں سالوں میں تنخواہوں میں اضافہ بیس(20) فیصد اور پنشن میں اضافہ دس (10)فیصد رہا۔ اسی کی وجہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت کی پالیسی ہے کہ کسی ایسے طبقے کا کام نہ کیا جائے جو شور مچانا نہ جانتا ہو۔ کام فقط اس کا کیا جائے جو خم ٹھونک کر میدان میں آجائے۔ بزرگ شہری کسی ایسی حرکت کے چونکہ متحمل نہیں ہو سکتے اسلیے انہیں جب تک ٹر خایا جا سکتا ہے۔ بہتر ہے ٹرخایا جائے۔ یہی حکومت کی مسلمہ پالیسی ہے جس پر وہ سختی سے عمل پیرا ہے۔

بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ بزرگوں کے مسائل میں اضافے کا اصل سبب ان کے بچوں کی ضروریات میں اضافہ ہے۔ ایک وقت آتا ہے کہ بچے، پوتے اور پوتیاں بزرگوں کو بوجھ سمجھنے لگتے ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ بزرگ جو کبھی پورے گھر کو اپنا سمجھتے ہیاب اپنا آپ سمیت کر کسی چھوٹی سی کوٹھری تک محدود ہو جائیں۔ اور باقی تمام جگہ ان کے لیے خالی کر دیں۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ بہت سے بچے اپنے مسائل کے حل کے لیے بزرگوں کے مر جانے کے بھی متمنی ہوتے ہیں۔ تاکہ اﷲ تعالیٰ ان کی مشکلات کا ایک باعزت حل خود بخد انہیں دے دے۔

بہت سے بزرگ اپنے مرنے سے پہلے تمام پونجی خرچ کرکے بچوں کے لیے انتہائی خلوص سے ایک چھت کا انتظام کرتے ہیں۔انہیں ایک مکان بنا کر دیتے ہیں مگر نہ تو وہ مکان وفا کرتا ہے اور نہ ہی بچے۔ مکان بنانے کے چکر میں ان کی ساری پونجی ختم ہو جاتی ہے۔ پنشن بہت مختصر ہوتی ہے دواؤں کا خرچہ، کھانے پینے کا خرچہ ، کہیں کسی تقریب میں دینے دلانے کا خرچہ۔ گزر بسر اچھی طرح ممکن ہی نہیں رہتی۔
یورپی ممالک نے ایسے تمام بزرگوں کے لیے کہ جن کے اپنے مکان ہیں مگر بڑھاپے کی وجہ سے پریشانی کا شکار ہیں کہ پنشن معمولی، گزارہ کیسے ہو۔ بنکوں کو خصوصی ہدایت دی ہوئی ہے کہ ان کے مکانات رہن رکھ لیے جائیں اور ان کی ضرورت کے لیے ماہانہ رقم انہیں دے دی جائے۔وہ جب تک زندہ رہتے ہیں انہیں اپنے گزارے کے لیے معقول رقم ملتی رہتی ہے۔ جب وہ فوت ہو جاتے ہیں تو بنک ان کے ورثا کو پیش کش کرتا ہے کہ وہ بزرگوں کی بنک سے قرض لی گئی رقم بمعہ سود لوٹا دیں اور جائیداد اپنے نام منتقل کر لیں۔ بصورت دیگر بنک تمام جائیداد نیلام کرکے اپنی رقم موصول کر کے بقیہ وارثوں میں تقسیم کر دیتا ہے۔ اگر یہ اصول حکومت پاکستان بھی اپنا لے تو پاکستان کے بزرگ شہریوں کا بھلا ہو جائیگا۔ بچے اول تو مکان کے حصول کے لیے بزرگوں کو بنک تک جانے کا موقع ہی نہیں دیں گے اور اگر اس کے باوجود بھی وہ اپنے بزرگوں کی پرواہ نہیں کرتے تو بزرگ بنک کے ساتھ معاملات طے کرکے کم از کم زندگی کے آخری ایام ہنسی خوشی گزار سکیں گے۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500449 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More