وزیر اعظم نے کراچی میں یوم
عاشور کے جلوس میں بم دھماکے کے بعد ہونے والے مالی نقصان کے ازالے کے لئے
ایک ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کیا ہے اس امداد کو کیا نام دیا جائے۔۸۴
گھنٹے سوچ بیچار کر کے جس امدادی پیکیج کا اعلان کیا گیا ہے۔ اسے پی نٹ کہا
جاسکتا ہے۔ مونگ پھلی کا دانہ، کیا ایک سونے کا انڈا دینے والی مرغی سے یہی
سلوک مناسب ہے۔ کراچی جو سب سے زیادہ ٹیکس دیتا ہے۔ جو اس ملک کی معیشت کی
شہ رگ ہے۔ جو ملک پر آنے والے ہر مشکل وقت میں فرنٹ لائن پر کھڑا رہتا ہے۔
جس کے عوام، تاجر، وکلا، صحافی، مزدور، اساتذہ، سول سوسائٹی کے لوگ اس ملک
کی سلامتی کے لئے جانوں کا نذرانہ دیتے رہے ہیں۔ اور دے رہے ہیں ان کی
قربانیوں کا یہی صلہ ہے۔ کیا کراچی کے عوام لوٹ کا مال ہیں۔ کیا یہ لوگ
بھیڑ بکریاں ہیں۔ کیا یہاں کے شہری اور تاجر اور عوام کی جانیں اور مال اور
املاک اس لئے ہے کہ کوئی بھی شر پسند گروہ جب چاہے اسے تباہ کردے، جب چاہے
لوٹ لے، جب چاہے اس شہر میں قتل و غارت گری کردے۔ کیا اس شہر کے لوگوں کو
تحفظ کی ضرورت نہیں ہے۔ کیا یہاں کے کاروبار کرنے والوں کی سلامتی حکومتی
اداروں کا فرض نہیں ہے۔ کیا یہاں کی عوام کے جان اور مال کی کوئی قدر و
قیمت نہیں ہے۔ اور اگر ہے تو پھر اس شہر میں بار بار ایسے واقعات کیوں
رونما ہو رہے ہیں۔ رٹ آف دی گورنمنٹ کہاں ہے۔ جب اس شہر پر قیامت ٹوٹتی ہے۔
تو سارے امن وامان قائم رکھنے والے ادارے کہاں سو جاتے ہیں۔ شرپسندوں کو
لوٹ مار سے روکنے کے لئے گولی کیوں نہیں چلتی، پولیس، رینجرز، اور دیگر
ادارے کہاں سو جاتے ہیں۔ فائر بریگیڈ کہاں رہ جاتے ہیں۔ میں نے کراچی کو
جلتے ہوئے ۷۲ دسمبر ۷۰۰۲ کو دیکھا تھا، ۲۱ مئی کو دیکھا تھا، ۹ اپریل کو
دیکھا تھا، کراچی کے ضمنی انتخاب کے موقع پر دیکھا تھا۔ ان تمام مواقع پر
حکومت کہاں تھی۔ کراچی کے شہریوں کی یہی بے بسی ان کا مقدر ہے۔ تو کیا ہم
اپنی آستینوں میں سانپ پال رہے ہیں۔ کیا ہم زہریلے ناگوں کو دودھ پلا رہے
ہیں، اور کیا ہم لیٹروں کو محافظ سمجھ بیٹھے ہیں، مگر مچھ کے آنسو شاید یہ
محاورہ ایسے ہی کسی وقت کے لئے کہا گیا ہے۔ کراچی ۷۲ دسمبر ۷۰۰۲ کو چار دن
تک جلتا رہا۔ نئی نئی گاڑیاں لوگوں سے چھین کر ان کی آنکھوں کے سامنے ان سے
ڈیک نکالے گئے۔ سی این جی کھولی گئی، ٹائر اتارے گئے۔ پھر ان کو آگ لگائی
گئی۔ یہ لوگ آسمان سے اتر کر نہیں آئے تھے۔ ان کے چہروں پر نقاب نہیں تھے۔
لیکن ان کی اس شرپسندی پر کوئی انھیں روکنے والا نہیں تھا۔ سب مہر بلب تھے۔
دکانیں جلتی رہی فائرنگ ہوتی رہی لوٹ مار جاری رہی ملسل چار دن تک کراچی
میں یہ کھیل جاری رہا۔ لیکن دو سال بعد بھی آج تک کوئی کاروائی نہیں ہوئی۔
جب ۲۱ مئی کو نقابوں سے بے نیاز بے خوف چہرے ہاتھوں میں ہتھیار لئے لوگوں
کو قتل کررہے تو بھی پورے ملک میں ایک مجرمانہ خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ اور
جب ۹ اپریل کو وکلاء کی لائین سے کھڑی گاڑیوں پر، ان کے دفاتر پر، زندہ
انسانوں پر ایسا ہی کیمیکل ڈال کر آگ لگائی جارہی تھی، تو بھی کوئی را کا
ایجنٹ نہیں تھا، نہ کوئی موساد تھی، نہ کوئی طالبان تھے۔ کون لوگ تھے یہ
کہاں سے آئے تھے۔ سب جانتے اور پہچانتے ہیں۔ لیکن سب نے ایک مجرمانہ خاموشی
اختیار کئے رکھی۔ کوئی آواز نہیں اٹھی، جو میرے قاتل میرے دلدار سے فریاد
کرسکے۔ کوئی محافظ میدان میں نہیں آیا جو ان شرپسندوں کا ہاتھ پکڑ سکے۔ تو
کیا یہ سب لاشیں اٹھانے والے، بین کرنے سینہ کوبی کرنے، ماتم کرنے والے اور
تماشا دیکھنے والے ہیں۔ لاشوں کی گنتی کرنے والے، مجروح افراد کے ساتھ
تصویریں کھنچوانے والے، بیانات دینے والے، پریس کانفرنس کرنے والے۔ آج
کراچی کے باسیوں کو ایک بار پھر سوچنا چاہئے کہ وہ کب تک گیدڑ کی موت مرتے
رہیں گے۔ کب تک آہ فغاں کرتے رہیں گے۔ کب تک امداد کی بھیک مانگتے رہیں گے،
کب تک ٹیکسوں کی معافی کی درخواست کرتے رہیں گے۔ کب تک اپنے بچوں کے حلق کے
نوالے چھین کر ان مگرمچھوں کے پیٹ بھرتے رہیں گے۔ قاسم تیلی نے صدر مملکت
کو صحیح آگاہ کیا کہ اس نوعیت کا واقعہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا اور اس سے قبل
بینظیر کی شہادت کے وقت بھی یہ ہوا تھا اس وقت بھی ہم نے کہا تھا کہ ملزمان
کو گرفتار کیا جائے کیونکہ ٹی وی پر یہ سارے نظر آرہے ہیں اگر نہیں کرو گے
تو یہ دوبارہ ہوگا اور یہ بات ہم نے صدر زرداری کو بھی بتائی ہے۔ ان کے
مطابق صدر زرداری، گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد اور وفاقی وزیر رحمان ملک
نے یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ ان کے پاس فوٹیج موجود ہیں جس میں لوگ نظر
آرہے ہیں اور انہیں گرفتار کیا جائے گا۔ دھماکے کے ۲۱ منٹ بعد منظم مشتعل
افراد کون تھے۔ جو آگ لگانے کے سارے ہتھیاروں سے لیس تھے۔ یہ کون سے فول
پروف حفاظتی انتظامات تھے، جس میں شہر بھر میں بھی جلاﺅ گھیراﺅ کے واقعات
ہوئے، مجموعی طور پر چار سو دکانیں اور پچاس سے زائد گاڑیاں نذر آتش کردی
گئیں لائٹ ہاﺅس پر واقع لنڈا بازار، تاریخی بولٹن مارکیٹ کی ڈھائی سو
دکانیں تباہ کی گئی، بولٹن مارکیٹ کے قریب واقع فیروز مارکیٹ اور کلاسک
مارکیٹ کو جلا یا گیا، جس کے نتیجے میں درجنوں دکانیں اور کروڑوں روپے کا
سامان جل گیا۔ پولیس اور سیکورٹی فورسز کی کئی گاڑیوں سمیت درجنوں کاریں
اور بسیں نزر آتش کردیں۔ خودکش حملے پر کیوں اصرار کیا جاتا ہے۔ کیوں کہ یہ
جان چھڑانے کا آسان نسخہ ہے۔ اب ۸۴ گھنٹے بعد یہ مراد بھی بر آئی کہ کالعدم
تحریک طالبان پاکستان نے کراچی خود کش دھماکے کی ذمہ داری قبول کرلی، کراچی
میں بم دھماکے کے بعد ہونے والی ہنگامہ آرائی اور آتشزدگی کے واقعات میں
تقریباً 30 ارب روپے کے نقصانات کا تخمینہ لگایاگیا ہے جبکہ 80 فی صد
دکانیں فائر بریگیڈ کے عملے کی عدم دستیابی اور حکومت کی غفلت کے باعث جلیں۔
اسمال ٹریڈرز کے محمود حامد اورالائینس مارکیٹ کے چیئرمین عتیق میر کا کہنا
ہے کہ تقریباً 2 ہزار سے زائد دکانوں کو نذر آتش کیا گیا۔ آل پاکستان میمن
فیڈریشن ایسوسی ایشن کے صدر احمد چنائے کا یہ مطالبہ برحق ہے کہ حکومت
کراچی میں ہونے والے نقصانات کا ازالہ کرے۔ کراچی کے شہریوں کو اپنے حقوق
کی یہ جنگ خود لڑنی ہوگی۔ |