٭…… مدارس کے طلبہ میں اﷲ تعالیٰ
نے بڑی صلاحیتیں ودیعت کر رکھی ہیں
٭…… مدارس میں تحقیقی کام کو فروغ دینے کے لیے باقاعدہ تربیت اور نگرانی کی
ضرورت ہے، مولانا نور البشر
H/L……اگر طلبہ کی تربیت ہم اس طریقے سے کریں کہ کچھ درجات تک اردو میں صحیح
طور پر مقالہ جات لکھنے کی تربیت ہو اور اردو تحریر کی باقاعدہ تربیت ہو،
پھر تحقیقی مقالہ جات مرتب کرنے کے حوالے سے بھی ان کی بھرپور رہنمائی ہو،
آخری درجات میں عربی میں تحقیقی مقالہ جات کا انہیں مکلف کیا جائے اور دورے
کی سند کو اہم مقالہ کے ساتھ مشروط کردیا جائے تو میں سمجھتا ہوں ہمارے
طلبہ کے اندر تحقیقی ملکہ پیدا ہوگا
تعارف:
مولانا نور البشر نے کراچی کے علاقے کورنگی میں حاجی نور الحقؒ کے گھر
1964ء میں آنکھ کھولی۔ قرآن کریم مدرسہ عزیزیہ اورنگی ٹاؤن میں شروع اور
دارالعلوم کراچی میں حفظ مکمل کیا۔ اس کے بعد گھر والوں کے ساتھ سعودی عرب
میں سکونت اختیار کی۔ مکہ مکرمہ کے قریب مدرسہ سعد بن ابی وقاصؓ اور مدرسہ
توحیدیہ میں حفظ قرآن میں مہارت حاصل کی اور ساتھ ساتھ پرائمری تک تعلیم
بھی مکمل کی۔ دو سال مکہ مکرمہ کی پاکیزہ فضا سے معطر ہوکر دوبارہ پاکستان
کے لیے رختِ سفر باندھا۔ یہاں آکر 1978ء میں دارالعلوم کراچی میں درجہ
اولیٰ میں داخلہ لیا، 8 سال درسِ نظامی پڑھنے کے بعد دورۂ حدیث وفاق
المدارس العربیہ سے اول پوزیشن کے ساتھ پاس کیا۔ یہ وہ دور تھا جب
دارالعلوم کراچی میں شیخ الحدیث مولانا سحبان محمودؒ، مولانا رعایت اﷲ شاہ
جہان پوریؒ، مولانا غلام محمدؒ، مولانا شمس الحق جلال آبادی رحمہ اﷲ،
مولانا عبداﷲ برمی، مفتی رفیع عثمانی اور مفتی تقی عثمانی جیسی نابغہ
روزگار شخصیات دورۂ حدیث کی فضا قال اﷲ وقال الرسول کی صدا سے منور کیے
ہوئے تھیں۔ ان علماء عظام کے علاوہ مزید علم سند حدیث کے لیے شیخ الحدیث
مولانا سلیم اﷲ خان صاحب، عالم عرب کے مشہور حنفی عالم شیخ عبدالفتاح
ابوغدہ، مولانا عبدالشکور ترمذی، سابق مفتی ارکان برما مفتی محمد حسن
مظاہری، علامہ عبدالرشید نعمانی، شیخ الحدیث دارالعلوم دیو بند (وقف)،
مولانا انظر شاہ کشمیری، واعظ مکہ مکرمہ شیخ عبدالسبحان، مولانا رشید اشرف
اور برما کی مشہور علمی شخصیت مولانا امیر احمد سے اجازت حدیث حاصل کی۔
درس و تدریس کے ساتھ علمی و تحقیقی کام سے منسلک ہیں۔ چھ کتایں شائع ہوچکی
ہیں جبکہ 9 کتابوں پر تحقیقی کام جاری ہے۔گزشتہ روز ان سے علمی و تحقیقی
مکالمہ ہوا۔ ان سے کی گئی گفتگو نذر قارئین ہے۔
سوال: علم حدیث میں آپ نے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں اور اب بھی اپنے
ادارے کے علاوہ دیگر اداروں میں بھی اس حوالے سے کام کررہے ہیں، علم حدیث
کی طرف آپ کا میلان کیسے پیدا ہوا؟
جواب: یہ سب اﷲ تعالیٰ کا کرم اور پھر ہمارے دارالعلوم کراچی کے استاذ
مولانا رشید اشرف صاحب کی مہربانی اور ان کی توجہ ہے کہ مجھے علم حدیث سے
شغف پیدا ہوا اور اس میدان میں کام کرنے کا میلان ہوا۔ میں اس وقت درجہ
ثانیہ میں تھا کہ استاذ محترم نے مجھے اپنے ساتھ ترمذی شریف کے کام میں
لگایا۔ اسباق کے اوقات کے علاوہ درس ترمذی میں ان کی معاونت کرتا تھا۔
استاذ محترم مجھے تقریر لکھواتے تھے۔ حوالہ جات نکالنے کی تربیت بھی انہوں
نے کی۔ ان کے ذاتی اور دارالعلوم کے وسیع کتب خانے سے استفادہ کا موقع ملا۔
اس کام کے ذیل میں انہوں نے بہت کچھ سکھایا۔ اصل میری بنیاد یہی ہے۔ اس کے
بعد شغف چونکہ بڑھتا گیا، الحمد ﷲ مطالعہ وسیع ہوتا گیا۔ اس سلسلے میں شیخ
عبدالفتاح ابو غدہ رحمہ اﷲ کی کتابیں میرے لیے بہت ہی زیادہ رہنما ثابت
ہوئیں ہر اعتبار سے، عربیت کے لحاظ سے، املاء و الترتیم کے لحاظ سے اور سب
سے بڑھ کر یہ کہ حدیث کے موضوعات کے لحاظ سے میرے لیے سب سے بڑھ کر رہنما
ثابت ہوئیں۔ پھر اس کے بعد حدیث کے سلسلے میں جو مواد بھی ملتا وہ میں
پڑھتا گیا، جہاں بھی میں گیا وہاں حدیث کے حوالے سے مجھے کام کرنے کی توفیق
ہوئی۔ دارالعلوم کراچی میں فتح الملہم میں حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب کے
ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ جامعہ اشرف العلوم میں حضرت مولانا سحبان محمود
صاحبؒ کی تقریر بخاری پر مجھے کام کرنے کا موقع ملا۔ شیخ الحدیث مولانا
سلیم اﷲ خان صاحب کی کشف الباری پر تفصیل کے ساتھ کام کیا۔ الحمد ﷲ! ان
تمام چیزوں کی وجہ سے حدیث کے علم میں کچھ نہ کچھ وسعت آتی گئی اور مطالعہ
بڑھتا گیا۔ اس طرح کام کا دائرۂ کار بھی بڑھتا گیا۔ تدریس کا میدان بھی
حدیث کے حوالے سے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ شیخ الحدیث صاحب کے حکم پر ہی تخصص
فی الحدیث کا اجرا کیا۔ دوسرے اداروں کے نصاب خصوصاً بنوری ٹاؤن کے نصاب کو
سامنے رکھ کر میں نے تخصص فی الحدیث کا مسودہ مرتب کیا۔ شیخ صاحب اور دیگر
اہل علم حضرات نے دیکھ کر منظور کرلیا۔ اس کے بعد ایک دو سال تک الحمد ﷲ
میں اکیلے ہی تخصص فی الحدیث میں سرگرم رہا، پھر جامعہ فاروقیہ میں دوسرے
اساتذہ کا بھی تقرر ہوا۔ یوں دیگر علوم کے مقابلے میں علم حدیث سے زیادہ
شغف رہا جس پر میں اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں۔
سوال: حدیث کے حوالے سے آپ کی دلی آرزو کیا ہے جو اب تک پوری نہیں ہوئی؟
جواب: اس حوالے سے دلی آرزؤں کی تو کوئی حد نہیں ہے۔ میں یہ چاہتا ہوں
ہمارے ہاں جو دورہ حدیث میں حدیث پڑھنے والے طلبہ ہیں وہ پوری بصیرت کے
ساتھ احادیث کی کتابیں پڑھیں، سرسری پڑھ لینا بھی ایک اعتبار سے ٹھیک ہے،
علماء خلف کی سنت ادا ہورہی ہے لیکن سند حدیث کا حق ظاہر ہے کہ اس طرح ادا
نہیں ہوتا۔ دلی آرزو یہی ہے کہ استاذ پوری بصیرت کے ساتھ حدیث کی کتاب
پڑھائیں اور طالب علم پوری بصیرت کے ساتھ پڑھیں۔
سوال: حدیث کے حوالے سے موجودہ دور میں کیا کمی محسوس کرتے ہیں، کیا گزشتہ
مختصر عرصے سے اس کام میں تیزی نہیں آئی ہے، مدارس میں باقاعدہ تخصصات کی
شروعات ہوئی ہیں؟
جواب: حدیث کے حوالے سے موجودہ دور میں جو کمی ہے وہ تو بہت زیادہ ہے، حدیث
کا صحیح طور پر ادراک نہیں ہوا ہے، اصول حدیث کے سلسلے میں ہماری معلومات
نہ ہونے کے برابر ہیں۔ خاص طور پر اصول فقہ جو ہمارے پورے دین کی اساس ہے،
اس پر بھی ہماری صحیح محنت نہیں ہے، معدود چند کتابوں سے متعارف ہیں، اس کے
علاوہ باقی اور کسی کتاب سے متعارف نہیں، خاص طور پر جدید چیزوں سے بالکل
دور ہوجاتے ہیں۔ اس سے ایک قسم کی یوں سمجھ لیں کہ وحشت محسوس کرتے ہیں اور
دوری اختیار کرلیتے ہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہر جدید چیز خراب نہیں ہے۔
یقیناً چند سالوں میں علم حدیث کے حوالے سے کام میں تیزی دیکھنے میں آئی
ہے، اﷲ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے ہمارے اکابرین کو کہ مختصر اور محدود
وسائل کے باوجود کافی کام کیا ہے، پہلے واحد کتاب نخبۃ الفکر پڑھائی جاتی
تھی اور وہ بھی رسماً چند صفحات پڑھاکر کتاب ختم کردیتے تھے اور مقدمہ
مشکوٰۃ بھی ویسے گزار دیتے تھے لیکن اب الحمد ﷲ مقدمہ مشکوٰۃ بھی اہتمام سے
پڑھایا جاتا ہے۔ اس سے پہلے خیر الاصول بھی کچھ مدارس پڑھا رہے ہیں، بعض
اداروں میں تیسیر مصطلح الحدیث پڑھانے کا بھی رواج ہے، مدارس میں تخصص فی
الحدیث کا اضافہ بھی آہستہ آہستہ ہورہا ہے، یہ خوش آیند اقدام ہے۔ امید ہے
مزید باقاعدگی اور بہتری بھی آئے گی۔ ظاہری بات ہے ہر نیا اور اجتہادی کام
ابتدا میں مشکل ہوتا ہے۔ امید ہے آئندہ آنے والوں کے لیے بہت آسانیاں ہوں
گی۔
سوال: مجموعی لحاظ سے دینی مدارس کے طلبہ میں کیا کمی محسوس کرتے ہیں؟
جواب: کہ ہمارا اوڑھنا بچھونا یہی علماء و طلباء ہیں، اس اعتبار سے صاف سی
بات ہے کہ ہمیں جہاں اپنے عیوب چھپانے کی ضرورت ہو وہاں چھپانے چاہئیں،
لیکن اپنے آپ کو دھوکے میں نہیں رکھنا چاہیے۔ دینی مدارس کے طلبہ میں کمی
ہے اور کافی کمی ہے۔ میں سمجھتا ہوں دینی مدارس کے طلبہ میں اﷲ تعالیٰ نے
بڑی صلاحیتیں ودیعت رکھی ہیں، اگر ان صلاحیتوں کو بروئے کار لایا جائے تو
یہ کمی اور خامی دور ہوسکتی ہے۔ بڑی خوش آئند بات یہ ہے کہ دینی مدارس کے
طلبہ کی نیت الحمد ﷲ درست ہوتی ہے، دنیاوی غرض نہیں ہوتی اس لیے ان کے لیے
ترقی کی راہیں بہت ہیں، کمی کی جو بات ہے اور جس کی رہنمائی بھی نہیں کی
جاتی وہ یہ ہے کہ تحقیقی کام کا ذوق ان میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ قلم ہاتھ
میں لینا اور کوئی ابداعی کام کرنا ان کے لیے بہت مشکل ہوجاتا ہے اس لیے کہ
اس کی مشق نہیں ہوتی، اگر ان طلبہ کی تربیت ہم اس طریقے سے کریں کہ کچھ
درجات تک اردو میں صحیح طور پر مقالہ جات لکھنے کی تربیت ہو اور اردو تحریر
کی باقاعدہ تربیت ہو، پھر تحقیقی مقالہ جات مرتب کرنے کے حوالے سے بھی ان
کی بھرپور رہنمائی ہو، آخری درجات میں عربی میں تحقیقی مقالہ جات کا انہیں
مکلف کیا جائے اور آخر میں ہم ان سے اہم مقالہ لکھواکر اور اسی مقام سے
دورے کی سند کی شرط لگائیں تو میں سمجھتا ہوں ہمارے طلبہ کے اندر ایک
تحقیقی ملکہ پیدا ہوگا۔
سوال: وفاق المدارس کے نصاب پر بھی اعتراض کیا جاتا ہے، اس بارے میں آپ کی
کیا رائے ہے؟
جواب: نصاب کے بارے میں، میں کیا رائے دے سکتا ہوں، ہمارے اکابرین ہیں وہ
بہتر سمجھ سکتے ہیں۔ مجموعی طور پر میں اس نصاب کو بہت کارآمد سمجھتا ہوں،
لیکن اس کے ساتھ ساتھ میں یہ کہوں گا کہ تربیت پر خصوصی توجہ ہونی چاہیے۔
پڑھانے والے متوازن سوچ کے مالک ہوں، ہر سال ایک ایک مدرسہ سے چار سو پانچ
سو کے قریب طلبہ فارغ ہوکر نکلتے ہیں، اگر ان کی درست نہج پر تربیت ہو تو
گلگت بلتستان اور کشمیر سمیت پورے ملک میں کام کرنے کے لیے افراد مہیا ہوں۔
لیکن بغیر تربیت کے کیونکر افراد فراہم ہوسکتے ہیں، ہم اپنے چار سو پانچ سو
طلبہ کو شتر بے مہار کی طرح یوں ہی چھوڑ دیتے ہیں، جب کہ باطل ادیان و
مذاہب والے اپنے افراد کی بھرپور تربیت کرتے ہیں۔ صرف آغا خانی فرقے کو لے
لیجیے، آغا خان فرقے کے اندر یونٹی ہے۔ اس قدر ان میں اتحاد و اتفاق ہے کہ
انہیں سب معلوم ہے، ان کی برادری کے افراد کہاں کہاں ہیں؟ اور کون صاحبِ
صلاحیت ہے؟ اس کا چناؤ کرکے گاؤں گوٹھوں سے اٹھاکر انتہائی اعلیٰ درس گاہ
میں لے جاکر تعلیم و تربیت دے کر اسے سروں پر مسلط کردیتے ہیں۔ ہم ایسا
کیوں نہیں کرتے، یہ ہمارے لیے بڑے افسوس کی بات ہے۔
سوال: مدارس کے طلبہ سے بعض لوگوں کو یہ شکوہ بھی ہے کہ ان میں عدم برداشت
کا مادہ بہت زیادہ ہوتا ہے، اپنے نظریات کے خلاف بات سن کر مشتعل ہوجاتے
ہیں، اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب: مجموعی طور پر تمام طلبہ پر یہ الزام لگانا میں سمجھتا ہوں ایک الزام
کی حد تک کی ہے۔ علماء تو الحمد ﷲ! سلجھے ہوئے ہوتے ہیں، مختلف نظریات
رکھنے والوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں، رہے طلبہ خواہ وہ دینی مدارس کے ہوں
یا عصری اداروں کے، ان سب کی فطرت تقریباً ایک ہی جیسی ہوتی ہے کہ وہ اپنے
مخالف نظریے کو برداشت کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ چوں کہ دلائل کا ذخیرہ ان کے
ساتھ نہیں ہوتا اور اسلوب بیان، مخاطب سے بات کرنے کا سلیقہ و طریقہ نہیں
ہوتا، اس وجہ سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ عدم برداشت ہے۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ
جس طریقے سے اﷲ تعالیٰ کا مزاح اڑایا جاتا ہے، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا
نعوذ باﷲ استہزا کیا جاتا ہے، دینی احکامات کو کھیل کود کا تماشا بنایا
جاتا ہے اس پر تو ہر درد دل رکھنے والا مسلمان مشتعل ہوئے بنا نہیں رہ سکے
گا۔ جہاں تک دینی مدارس کے طلبہ کی بات ہے، میں نے پہلے عرض کیا تربیت کی
کمی کا رونا ہم رو رہے ہیں، بعض طلبہ جو جلد آپے سے باہر ہوجاتے ہیں وہ اسی
غیر تربیت یافتہ کے زمرے میں آتے ہیں۔ جن کی تربیت ہوئی ہوتی ہے ان کے پاس
دلائل ہوتے ہیں۔ وہ دلائل کے ہتھیار سے وار کرتے ہیں، سب طلبہ کے بارے میں
عدم برداشت کی بات کہنا ناانصافی ہوگی۔ |