پھول میرے گلشن کے

 قلم کا مزدور ہونے کے با وجود میرے پاس اس وقت ایسے الفاظ نہیں، جس کے ذریعے میں اس دکھ کا اظہار کر سکوں جو مجھے پشاور میں ورسک روڈ پر واقع آرمی پبلک سکول اینڈ کالج پر ’جس کے با لکل قریب میرا گھر واقع ہے‘ دہشت گردوں کے سفا کانہ حملے کے نتیجہ میں ڈیڑھ سو کے قریب بے گناہ اور معصوم بچے کو گولیوں کا نشانہ بنانے پر مِلا۔۔یہ میرے گلشن کے ایسے پھول تھے جس کے بارے میں ان کے والدین نے بڑے سہانے خواب دیکھے ہو نگے،ان کی امّی نے اپنے ہاتھوں سے ان پھولوں کو صبح سویرے اسکول یو نیفارم پہنا کر ، دعا ئیں دے کر رخصت کیا ہو گا ،انہیں کیا پتہ کہ ان کا جگر گو شہ ظالموں کے ہاتھوں سرخ خون کا لباس پہن کر راہِ عدم پر روانہ ہو گا۔اور پھر کبھی انہیں ان کا دیدار نصیب نہ ہو گا۔آج پورا پشاور لہو لہان ہے،غم و یاس کی تصویر بنے ان پھول سے معصوم بچوں کے والدین اور رشتہ دارایک ہی سوال پو چھتے ہیں کہ ہمارے ان معصوم اور بے گناہ بچوں کا آ خر کیا قصور تھا ؟ ان معصوم بچوں نے آ خر ان ظالموں کا کیا بگاڑا تھا ؟

میرے گلشن کے اَن کھلے پھولوں کا اس طرح گولیوں کا نشانہ بننے کا یہ دلخراش واقعہ پاکستان کی تاریخ کا ایک ایسا نا قا بلِ فراموش واقعہ ہے جسے صدیوں یاد رکھا جائیگا اور ظلم و بر برّیت کی یہ داستان پوری تاریخِ عالم میں ایک سیاہ باب کی حیثّیت سے قرطاسِ ابیض پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ثبت رہے گی۔اس المناک صورتِ حال میں ایک سوال جو ذہن میں بار بار آتا ہے،وہ یہ ہے کہ کیا ایسی افسوسناک اور ہولناک واقعہ کے بعد ہماری سیاسی قیادت کا اظہارِ مذمت کرنا اور چند دنوں کے بعد اسے بھول جانا ،ہماری روایت رہے گی؟

کیا پاکستانی عوام اور ان کے بچّے یوں ہی آگ و بارود کا ایندھن بنتے رہیں گے ؟ کیا دہشت گردی کا کوئی علاج نہیں؟

ہم نے اس سے قبل بھی آل پارٹیز کانفرنس دیکھی تھی اور اس کا انجام بھی ملاحظہ کر چکے ہیں۔ آج بھی ہم نے تمام پالیمانی پارٹیوں کا اجلاس دیکھا۔وزیراعظم نواز شریف ،عمران خان اور دیگر قومی قیادت کو ایک جگہ بیٹھے دیکھا،ہم نے یہ بھی سنا کہ دہشت گردی ختم کرنے کے لئے ایکشن پلان بنانے کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی جا ئیگی جس میں تمام پارلیمانی پارٹیوں کا ایک ایک نمائیندہ شامل ہو گا۔ ہم اس اقدام کو اگر چہ برا نہیں کہیں گے مگر ہمیں یقین نہیں ہے کہ ہمارہی سیاسی قیادت اس قابل ہے کہ وہ موجودہ پیچیدہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینک سکے گی۔اس قسم کی باتیں قوم پہلے بھی سن چکی ہے کہ اچھے اور برے طالبان میں فرق نہیں روا رکھا جا ئیگا۔قوم متحد ہے، دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ کر دم لینگے،وغیرہ وغیرہ۔اب ان باتوں سے قوم کو تسّلی نہیں ہو پا رہی ہے۔

اب ضرورت اس امر کی ہے کہ عملی قدم اٹھا یا جائے اور سیاسی مفادات سے بالا تر ہو کر ایک ایسی پالیسی بنائی جائے، ایک ایسا ایکشن پلان مرّتب کیا جائے ، جو نہ صرف یہ کہ قابلِ عمل ہو بلکہ تمام سیاسی اور عسکری قیادت کا اس پر اتفاق و یقین ہو۔

ہم سمجھتے ہیں کہ پشاور میں اس دردناک اور سفا کانہ واقعہ کے بعد ہمارے قومی قائدین کو ایک با لکل نیا رخ اختیار کرنا چا ہئے، گذشتہ تیرہ برسوں میں ہم تقریبا ستّر ہزار جانیں گنوا چکے ہیں۔اب مزید سکت باقی نہیں رہی۔ہمیں اپنی افواج کی بہادری اور اہلیّت پر بجا طور پر فخر ہے۔اگر ہماری سیاسی قیادت ان کے شانہ بشانہ ہو کر دہشت گردی کو ختم کرنے کا مصّمم ارادہ کر لے تو انشا اﷲ قوم دہشت گردی کے اس ناسور سے جلد چھٹکارا پا سکتی ہے۔جو بات آج نواز شریف نے کہی ہے کہ اچھے اور برے طالبان میں فرق روا نہیں رکھا جائے گا یہ بات آج سے کچھ عرصہ پہلے آرمی چیف نے اس وقت کہی تھی جب فوج طالبان کے خلاف اپریشن شروع کیا تھا۔ آرمی چیف نے کہا تھا ’’ چاہے پاکستانی طالبان ہوں،پنجابی طالبان ہوں،القاعدہ اور ان کے ساتھی یا پھر حقانی گرو پ، ہم سب کے خلاف بِلا امتیاز اپریشن کریں گے‘‘۔مگر افسوس کہ سیاسی قیادت کو اس وقت سانپ سونگھ گیا تھا اور خا موش رہنے ہی میں عا فیّت سمجھی تھی۔ لیکن آج پشاور میں میرے گلشن کے پھولوں کو جلانے پر سیاسی اور فو جی قیادت ایک دفعہ پھر اکھٹی ہو گئی ہے اور ہم امید رکھتے ہیں کہ میرے گلشن کے یہ پھول نہ صرف یہ کہ جنّت کی فضاء کو معطر کریں گے بلکہ پاکستان کی سر زمیں کو بھی دہشت گردی سے پاک کرنے کا سبب بنیں گے۔
roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 315678 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More