’’سونے کے لیے ایک قیدی کو ایک کوٹھری دی جائے۔ اگر وقتی
طور پر قیدیوں کی تعداد بڑھ جائے تو ایک کوٹھری میں دو قیدی رکھے جائیں۔
جیل کے بڑے کمرے میں دو قیدیوں کے بستر کے درمیان مناسب فاصلہ رکھا جائے
تاکہ وہ آرام سے سو سکیں۔ انھیں موسم کے لحاظ سے پہننے اور اوڑھنے کے لیے
کپڑے اور کمبل مہیا کیے جائیں۔ کمرے میں اتنی بڑی کھڑکی ہونی چاہیے جس سے
سورج کی روشنی میں قیدی کمرے میں کتابیں پڑھ سکے اور اپنا کام کر سکے۔
قیدیوں کے نہانے اور حوائج ضروریہ کے لیے مناسب انتظام کیا جائے۔۔۔۔‘‘
قیدیوں کے بارے میں اقوام متحدہ کے ’’منیمم رولز فار دی ٹریٹمنٹ آف
پریزنرز‘‘ کے ان اُصولوں پر کتنے ممالک کی جیلیں عمل کرتی ہیں؟ خاص کر ترقی
پزیر اور غریب ممالک کی جیلوں میں قیدی انتہائی تکلیف دہ ماحول میں زندگی
گزار رہے ہیں۔ ان قیدیوں کو سونے اور بیٹھنے کے لیے جگہ تلاش کرنے کے لیے
جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ یہاں چند ایسی جیلوں کا ذکر کرتے ہیں، جہاں گنجائش سے
زیادہ قیدی رکھے جاتے ہیں اور یہ رپورٹ دنیا میگزین کی شائع کردہ ہے۔ ایسی
جیلوں میں جگہ کی تنگی اور گھٹن سے قیدیوں کا ہر دن سخت عذاب میں گزرتا ہے
۔ یہ جیلیں نہیں بلکہ جہنم کے وہ گڑھے ہیں، جن میں یہ لوگ دھکیل دیے گئے
ہیں۔
|
دنیا کی سب سے بھیانک جیل
روانڈا کی ’گیتارا ما‘ (Gitarama) جیل دنیا کی سب سے بھیانک جیل قرار دی
جاتی ہے۔ یہ جیل 500 قیدیوں کے لیے بنائی گئی تھی، لیکن یہاں 6 ہزار قیدی
زبردستی ٹھونسے گئے ہیں۔ ان قیدیوں کے لیے اتنی جگہ بھی نہیں بچی کہ وہ دو
قدم چل پھر سکیں۔ اتنی پُر ہجوم جگہ پر قیدیوں میں تیزی سے جِلدی بیماریاں
پھیل رہی ہیں۔ قیدیوں میں ڈپریشن اور چڑچڑا پن پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے
وہ بات بات پر ایک دوسرے کو کاٹنے لگتے ہیں۔ یہاں ہر آٹھ میں سے ایک قیدی
بیماری اور تشدد کی وجہ سے ہلاک ہو جاتا ہے۔ |
|
گھٹن کے باعث قیدی ہلاک ہوگئے
براعظم افریقہ کے ایک دوسرے ملک سوڈان کی صورت حال بھی روانڈا سے مختلف
نہیں ہے۔ چند سال پہلے شمالی سوڈان کی ریاست بحر ال غزل کے دارالحکومت اویل
میں قائم جیل خانے میں گنجائش سے زیادہ قیدی رکھنے کے باعث 10 قیدیوں کی
موت واقع ہوگئی تھی۔ یہ حراستی مرکز 1923 میں قائم ہوا تھا اور اس میں 150
قیدی رکھنے کی گنجائش ہے۔ لیکن جس وقت یہ اندوہ ناک واقعہ پیش آیا اُس وقت
یہاں 314 قیدی رکھے گئے تھے۔ یہ بھی انکشاف ہوا کہ بعض اوقات اس قید خانے
میں ایک وقت میں 600 سے زائد قیدی بھی رکھے جاتے ہیں۔
|
|
زیمبیا کے قیدیوں کی حالتِ زار
زیمبیا میں 16ہزار قیدیوں کی نگرانی پر صرف 1800 آفیسر تعینات ہیں۔ یہاں
رکھے قیدیوں کی حالتِ زار پر بات کرتے ہوئے زیمبیا سے تعلق رکھنے والی
’پریزنرز میڈیکل ڈائریکٹوریٹ‘ ڈاکٹر جیسیلا کہتی ہیں، ’’ زیمبیا میں صحافی،
قیدیوں کی صحت سے متعلق مسائل اُجاگر کر سکتے ہیں، لیکن انھیں قیدیوں سے
بات چیت کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ جب میڈیا ٹیم جیلوں کا دورہ کرتی ہے تو
قیدی ان سے سرگوشی میں کہتے ہیں کہ برائے مہربانی ، ہماری مدد کریں، یہاں
چھوٹی جگہ پر بہت سارے قیدی رکھے ہوئے ہیں۔‘‘
|
|
قیدی سمونے سے قاصر جنوبی افریقہ کی جیلیں
جنوبی افریقہ کی 200 جیلیں بھی گنجائش سے زیادہ قیدیوں کا بوجھ سہہ رہی ہیں۔
کیپ ٹاؤن کی ’’پولس مور‘‘ جیل میں 1872 قیدی رکھنے کی گنجائش ہے، لیکن
یہاں 4530 قیدی ٹھونسے ہوئے ہیں۔ ڈربن جیل میں 1850قیدی رکھنے کی گنجائش سے
ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہوئے یہاں 4675قیدی رکھے گئے ہیں۔ جوہانسبرگ کی
جیل میں 2630 قیدیوں کی گنجائش کو 6681 قیدیوں تک پھیلا دیا گیا ہے جس کی
وجہ سے رات سوتے ہوئے ایک قیدی کی ٹانگیں، دوسرے قیدی کے منہ اور سینے پر
رکھی نظر آتی ہیں اور کروٹ بدلنا وہاں عیاشی شمار ہوتا ہے۔ اس عیاشی سے
دوسرے قیدیوں کی نیند میں خلل واقع ہوتا ہے، جس کی وجہ سے نوبت گالم گلوچ
سے ہاتھا پائی تک پہنچ جاتی ہے۔
|
|
گنجان ترین جیلوں میں تھائی لینڈ سب سے
آگے
ایشیائی ممالک کی جیلوں کی حالت بھی تسلی بخش نہیں کہی جا سکتی۔ تھائی لینڈ
کی جیلوں کا شمار دنیا کی گنجان ترین جیلوں میں ہوتا ہے، جہاں قیدیوں کو
سونے کے لیے بستر اور تکیہ بھی نصیب نہیں ہوتا۔ قیدی فرش پر سوتے ہیں، جہاں
وہ ٹھیک طرح نہ کروٹ بدل سکتے ہیں اور نہ اپنے پاؤں پھیلا سکتے ہیں کیوں
کہ پاؤں پھیلانے کی راہ میں کسی دوسرے قیدی کا سر حائل ہوتا ہے۔ تھائی
لینڈ کے دارالحکومت بینکاک کی ’’گلونگ پریم‘‘ جیل میں 6500 کے قریب قیدی
ہیں۔ یہاں چار بائی سات میٹر کے کمرے میں 50 قیدیوں کو رکھا جاتا ہے۔ سونے
کے لیے قیدیوں کو دیوار کے ساتھ ایک لائن میں اس طرح پہلو بہ پہلو لٹایا
جاتا ہے کہ قیدی ٹھیک طرح اپنی کمر بھی سیدھی نہیں کر سکتے۔ کروٹ بدلنے
جتنی جگہ حاصل کرنے کے لیے قیدیوں کو رشوت دینا پڑتی ہے ورنہ انھیں ایک ہی
کروٹ میں پوری رات بِتانی پڑتی ہے۔ لائن مکمل ہونے کے بعد باقی ماندہ
قیدیوں کو پہلے لیٹے قیدیوں کے پاؤں کے قریب آڑا لیٹنے کو کہا جاتا ہے۔ اس
طرح اتنی جگہ نہیں بچتی کہ لائن میں سوئے قیدی اپنے پاؤں صحیح طرح سیدھے
کر سکیں۔ سخت گرمی کے باعث اس حبس زدہ کمرے میں قیدیوں کے بد بو دار پسینے
سے سانس لینا دوبھر ہوجاتا ہے۔ کمرے کے کونے میں پچاس انسانوں کے استعمال
کے لیے صرف ایک بیت الخلاء ہے، جس میں دروازہ نام کی کوئی چیز نہیں اور
دیواروں نے دو فٹ تک اُٹھنے کے بعد ہمت ہار دی ہے۔ پورا کمرہ دن رات اس
کھلے بیت الخلاء سے ’مہکتا‘ رہتا ہے ۔قیدیوں کو دن میں چودہ گھنٹے اس جہنم
نما کمرے میں گزارنے پڑتے ہیں۔ 1998 میں تھائی لینڈ کی جیلیں اتنی پُر ہجوم
نہیں ہُوا کرتی تھیں۔ نوّے کی دہائی کے اواخر میں تھائی حکومت نے منشیات کے
خلاف سخت پالیسی اپنانے کا اعلان کیا تو ان جیلوں پر اچانک قیدیوں کا بوجھ
بڑھنے لگا۔ کئی برس تک ہر ماہ سیکڑوں کی تعداد میں قیدی یہاں لائے جاتے رہے۔
آج یہ حال ہے کہ یہ جیلیں قیدیوں کو اپنے اندر سمونے کی صلاحیت کھو بیٹھی
ہیں۔ تھائی لینڈ کی جیلوں میں 60 فی صد قیدی منشیات کے الزام میں قید ہیں۔
دنیا میں آبادی کے لحاظ سے سب سے زیادہ قیدیوں کی شرح تھائی لینڈ میں پائی
جاتی ہے۔ یہاں 139 جیلیں ہیں۔ جہاں قیدیوں کے سونے کی جگہ کا کُل رقبہ
245033 اسکوئر میٹر ہے۔ ایک قیدی کو سونے کے لیے کم از کم 2.25 اسکوائر
میٹر) 25 فٹ) جگہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے تھائی لینڈ کی جیلوں میں
ایک لاکھ 8 ہزار 904 قیدی رکھنے کی گنجائش ہے، لیکن ان جیلوں میں قریباً 2
لاکھ سے زاید قیدی ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قیدی کس قدر
تکلیف دہ زندگی گزاررہے ہیں۔
|
|
انڈین جیلوں کا پیمانہ لبریز ہوچکا
انڈیا کے ’نیشنل کرائم بیورو‘ کی رپورٹ کے مطابق انڈیا کی کُل 1336 جیلوں
میں مجموعی طور پر 2لاکھ 63 ہزار 911 قیدیوں کے رکھنے کی گنجائش ہے، لیکن
ان جیلوں میں پونے چار لاکھ قیدی رکھے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے جیل انتظامیہ
اور قیدیوں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دہلی، گجرات اور چھتیس
گڑھ کی جیلوں میں سب سے زیادہ خراب صورتِ حال ہے۔ 6250 قیدیوں کی گنجائش
رکھنے والی دہلی جیل میں 13400 افراد قید ہیں۔ گجرات کی جیل میں 5700
قیدیوں کی گنجائش ہے اور یہاں 11800 قیدی ہیں، جبکہ چھتیس گڑھ کی 5300
قیدیوں کی گنجائش والی جیل میں 10360 قیدی موجود ہیں۔
|
|
پاکستانی جیلیں بھی چھلک رہی ہیں
پاکستان کی جیلیں بھی دیگر ترقی پزیر ممالک کی طرح گنجائش سے زیادہ قیدیوں
کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی سینٹرل جیل میں
1800 قیدی رکھنے کی گنجائش ہے، لیکن جیل انتظامیہ کے مطابق یہاں 4000 افراد
قید ہیں، جن میں ملزم اور مجرم دونوں طرح کے قیدی شامل ہیں۔ ان قیدیوں کو
مختلف بیرکس اور وارڈز میں تکلیف دہ ماحول میں رکھا گیا ہے۔ 1899 میں جس
وقت اس جیل کی تعمیر کی گئی تھی، اُس وقت کراچی کی آبادی ایک یا ڈیڑھ لاکھ
نفوس پر مشتمل تھی، آج یہ شہر ڈیڑھ کروڑ آبادی کا کاسموپولیٹن بن چکا ہے،
لیکن اس حساب سے سینٹرل جیل میں توسیع نہیں کی گئی۔ مئی 2009 میں یہاں 6500
تک قیدی رکھے گئے تھے۔ سندھ کے علاوہ پنجاب کی جیلوں کا بھی بُرا حال ہے۔
پنجاب حکومت جیلوں میں قیدیوں کی زیادہ تعداد کے پیش نظر چند سال پہلے
14نئی جیلیں تعمیر کرنے کا اعلان کر چکی ہے۔ |
|
جیلوں میں گنجائش کے معاملے میں سُپر پاور
بھی تہی دامن نکلا
امریکا کا شمار سب سے زیادہ جرائم والے ممالک میں ہوتا ہے۔ صرف کیلیفورنیا
میں 1982 سے 2000 تک قیدیوں کی تعداد میں 500 فی صد اضافہ ہوا اور یہاں کی
حکومت کو 23 نئی جیلیں بنانا پڑیں۔ تاہم جرائم کا گراف مسلسل بلند ہوتا رہا
اور ان تعمیر کردہ نئی جیلوں میں بھی گنجائش سے زیادہ قیدی رکھنے پڑے۔
امریکا کے بیورو آف جسٹس کے مطابق امریکی جیلوں میں 20 لاکھ سے زائد قیدی
ہیں، جن میں 33 فی صد گنجائش سے زائد ہیں۔ ایک مقدمے کے دوران امریکا کی
سپریم کورٹ کے جسٹس کینیڈی کو بھی یہ کہنا پڑا کہ کیلیفورنیا کی جیلیں پُر
ہجوم ہوچکی ہیں۔ جیلوں میں قیدیوں کے بڑھتے دباؤ کو کیسے دُور کیا جا سکتا
ہے؟ اس سلسلے میں ماہرین قانون اور سماجی تنظیموں کی طرف سے بہت سی تجاویز
سامنے آچکی ہیں، لیکن حکومتی سطح پر ان تجاویز پر عمل در آمد نہیں ہوپاتا۔ |
|