قوم اس وقت شدید صدمے اور دکھ سے
دو چار ہے مائیں اپنے بچوں کو خود سے دور نہیں ہونے دے رہی ہیں بچے خود بھی
خوفزدہ ہیں اُن دھمکیوں سے جو دہشت گردوں کی طرف سے آرہی ہیں اور وہ مائیں
جن کے لخت جگر آرمی پبلک سکول پشاور میں دہشت گردی میں شہید ہوئے ہیں اُن
کے دکھ کا تو اندازہ لگانا مشکل ہے کہ وہ وہی جانتی ہیں لیکن آسان بھی ہے
کہ ہر صاحب اولاد اس کا اندازہ کر سکتا ہے اور وہ یہ محسوس کر رہا ہے کہ
گویا اُس سے اُس کا بچہ چھینا گیا ہے ۔میں نے ہر ماں کو ڈھاڑیں مار مار کر
روتے دیکھا یہاں تک کہ مرد بھی سسکیاں لے لے کر روتے رہے۔ ریسکیو اہلکاروں
نے بہت سے دھماکوں میں بہت سے جنازے اٹھائے ہوں گے لیکن اُس ایک تصویر کو
دیکھ کر اندازہ لگائیے جس میں ایک اہلکار یوں رو رہا تھا جیسے اُس نے اپنے
بچے، اپنی اُمیدوں کا جنازہ اٹھایا ہو۔ قوم اس وقت ایسی حالت میں ہے کہ اگر
اُس کے دکھ کا مداوا نہ کیا گیا تو اس کا سنبھلنا مشکل ہے۔ ایسے میں اس بار
حکومت اور سیاسی پارٹیوں نے بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کیااور اپنی اکثر دیگر
مصروفیات ختم کرکے اس مسئلے پر غور و خوص کیا۔ اگر چہ اس دوران بھی کچھ
سیاسی مفادات کا تحفظ کیا جاتا رہا مثلاََ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کے
مذاکرات اور تصفیے ،کچھ نے ان حالات میں ذاتی بغض بھی نکالنے کی کوشش کی ۔ادھر
عمران خان ایک ہفتے بعد سکول تشریف لائے تاہم بحیثیت مجموعی توجہ دہشت گردی
کے مسئلے اور اس کے خاتمے پر مرکوز رہی شاید اس لیے بھی کہ قوم اور کچھ
سننا بھی نہیں چاہتی۔ ایسے میں پھانسی کی معطل سزا بھی بحال کی گئی اور
میڈیا مسلسل بلیک وارنٹ موصول ہونے کی خبر دیتا رہا رحم کی اپیلیں مسترد
ہونے کی اطلاعات بھی آتی رہیں لیکن حیرت انگیز طور پر پھر ہمارا عدالتی
نظام آڑے آتا رہا اور صرف چھ پھانسیاں دی گئیں جبکہ قوم بہت بڑی تعداد کا
انتظار کر رہی ہے ۔ ایسے میں یورپی یونین کی آواز نے قوم کو چونکا دیا بلکہ
برا فروختہ کر دیا کہ یورپی یونین نے پھانسی کی سزا بحال ہونے پر شدید
تحفظات کااظہار کیا سوال یہ ہے کہ یہ ہمارا معاملہ ہے اور اس پر بولنے کا
کسی کو حق نہیں ہونا چاہیے اگر چہ اُمید ہے کہ ہماری حکومت اسے مانے گی
لیکن پھانسی کی سزا پر رکا ہوا عمل درآمد بھی عوام میں اضطراب کا باعث بن
رہا ہے اور یہی تصور کیا جا رہا ہے کہ ہماری حکومت اور عدالتیں پھر دباؤ
میں آگئی ہیں اور اسی لیے آئین اور قانون میں نکتے اور شقیں نکال کر
توجیہات تلاش کی جا رہی ہیں ۔ ایک ٹی وی چینل نے جب ججوں سے رائے لی کہ موت
کی سزا ہونی چاہیے یا نہیں تو حیرت ہو رہی تھی کہ وہ انتہائی غیر متعلقہ
دلائل پیش کر رہے تھے، اگر چہ وہ سزا کی مخالفت بھی نہیں کر رہے تھے لیکن
اسے پُر اثر بھی نہیں گردان رہے تھے مجھے نہیں معلوم ایسا کہنے والے لوگ
یورپی نظریے سے متاثر ہیں یا یورپی خوشنودی کے خواہاں اور یا پھر نامعقول
روشن خیالی کے شوقین۔ یورپی یونین بھی کہتی ہے کہ پھانسی مسئلے کا حل نہیں
اور اس سے معاشرے میں جرائم کم نہیں ہوتے اور ہمارے چغادری قانون دان اور
منصفین بھی اس خیال کا اظہار کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ خود کش تو مرنے
آتا ہے اُسے سزا کا خوف کیوں کر ہوگا تو کیا اُن کے خیال میں مرنے والے
خودکشوں کو پھانسی دی جائے گی خود کش تو مر گیا ہم تو ان کی پیٹھ پر بیٹھے
دہشت گرد ذہنوں کی بات کر رہے ہیں جو انہیں بھیجتے ہیں دہشت گرد تو اپنی
سزا پالیتا ہے اور آخرت میں حدیث نبویﷺ کے مطابق خو دکش اسی طریقے سے مسلسل
خود کشی کرتا رہے گا ۔ لہٰذا مسئلہ اس خود کش کا نہیں جو مر گیا مسئلہ اُن
دہشت گردوں کا ہے جو زندہ گرفتار کر لیے جاتے ہیں اور بات یہ بھی ہے کہ اگر
انہیں موت کا خوف نہیں ہوتا تو وہ اپنی سزا کے خلاف رحم کی اپیل کیوں کرتے
ہیں ۔ خبروں کے مطابق عقیل عرف ڈاکٹر عثمان جیسا شقی القلب بھی پھانسی کی
رات رحم مانگتا رہا۔ سزا کا خوف اگر کوئی چیز نہیں تو ہماری عدالتیں کیوں
بیٹھی ہیں اور انصاف کس چیز کا نام ہے اگر پھانسی کی سزا غیر انسانی ہے تو
یہ تو صرف اُسی مجرم کو دی جاتی ہے جس نے کسی انسان کی جان لی ہو تو کیا اس
مجرم کا جرم انسانی فعل تھا جس نے کسی کی جان لی اور یا درہے کسی ایک انسان
کو قتل کرنا پوری انسانیت کے قتل کے برابر ہے پھر کیا اس گھناؤ نے مجرم کو
سزا دینا زیادتی ہے ایسا سوچنے والوں کی سوچ پر دکھ بھی ہے افسوس بھی اور
ان کی نیت پر شک بھی اور جو اسے معاشرے کی اصلاح میں کار آمد نہیں سمجھتے
اگر اُن کے اس نظریے کو مان لیا جائے کہ سزا جرائم کم نہیں کرتی تو مجرم کو
گرفتار کیوں کیا جاتا ہے کیا مہمان بنانے کے لیے اور مقتول کے ورثاء سے
بچانے کے لیے یعنی تحفظ فراہم کرنے کے لیے ۔ اس طرح تو یہ بے خوف ہو کر یہ
جرم کریں گے اور برائی بڑھتی جائے گی۔ ہمارے ہاں سزائے موت پر اعتراض کرنے
والے امریکہ میں اس سزا پر کیوں اعتراض نہیں کرتے ۔ یہ سزا سوائے یورپ کے
پوری دنیا میں دی جا رہی ہے صرف 2013 میں 778 سزائے موت پر عمل در آمد کیا
گیا یہ چین میں دی جانے والی ہزاروں سزاؤں کے علاوہ ہیں ان میں 39 امریکہ،
آٹھ جاپان، ستر جنوبی کوریا، سات ویت نام میں دی گئی جبکہ بھارت میں بھی
ایک سزا دی گئی، ایران، سعودی عرب ، انڈونیشیا اورملائیشیا میں بھی یہ سزا
دی جاتی ہے بلکہ ایران میں تو سر عام بھی یہ سزا دی گئی پھر ہم کیوں ایسا
نہیں کر رہے جب کہ ہم تو دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ملک ہیں۔ عدلیہ کے
اسی کردار نے آخر کار معاملہ فوجی عدالتوں تک پہنچا دیا اس پر بھی اعتراضات
اٹھائے گئے میں مانتی ہوں یہ کوئی خوشگوار کام نہیں ہے فوج کا کام دفاع ہے
لیکن ہماری حکومت جہاں مشکل میں پڑتی ہے وہاں فوج کو بلا لیتی ہے، مردم
شماری، الیکشن ، شہروں کا امن و امان، تھر میں خوراک پہنچانا ، سیلاب ،
زلزلہ، طوفان ہر مشکل کام اس کے سپرد کر دیا جاتا ہے حالا نکہ آئین میں اگر
فوجی عدالتیں نہیں لکھی گئی تو یہ سب کچھ بھی نہیں لکھا گیا ہے۔ فوجی
عدالتوں پر اعتراض اٹھانے والے اس نکتے پر ضرور غور کریں اور یہ بھی سوچیں
کہ ایسا کیوں ہوا کیا ایسا نہیں ہے کہ عوام عدلیہ سے نا اُمید ہوچکے ہیں
اگر عدلیہ خوف کی وجہ سے فیصلے نہیں کر رہی یا حکومت اُس پر عملدرآمد نہیں
کرا پا رہی اور اگر فوج نے ایک بار پھر اس کڑوی گولی کو نگلنے کے لیے
رضامندی دے دی ہے تو اُسے یہ کام کرنے دیں لیکن کیا بہتر نہ ہوتا کہ ہماری
عدالتیں دباؤ قبول نہ کرتی۔ ہمارے میڈیا کے چند لوگ جو اب بھی موت کی سزا
کو متنازعہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ قوم کی خاطر، اس کے مستقبل کی خاطر
اپنے مفادات کوپس پشت ڈال دیں اور قوم کے زخموں پر مرہم رکھیں۔ اگر ہم خود
درست فیصلے کریں گے اپنے مسائل کو خود اپنے ماحول اور اپنی ضرورت کے مطابق
حل کریں گے تو نہ تو یورپی یونین نہ کسی اور کو ہمارے فیصلوں پر اعتراض
کرنے کی ہمت ہوگی ۔ بس ہمیں خود ہمت کرنا ہوگی۔ |