تئیس نکات اور ابتر تعلیمی صورتحال
(musarrat ullah jan, peshawar)
پشاور میں آرمی پبلک سکول میں
پیش آنیوالے واقعے نے جہاں ہماری سیکورٹی اداروں کے کھوکھلے دعوؤں کو ظاہر
کردیا ہے جو سیکورٹی کے حوالے سے بڑے دعوے کرتے ہیں کہ ہم سے \" بڑا تیس
مار خان\" کوئی نہیں-وہیں پر اس سانحے کے بعد شہر کے بیشتر علاقوں میں
شہریوں نے اپنے بچوں کو سکولوں سے اٹھانا شروع کردیا ہے- میرے ایک صحافی
دوست نے گذشتہ روز بتایا کہ پشاور شہر کے علاقے کریم پورہ میں ایک جاننے
والی ایک خاتون جس کے نو سالہ بیٹی ‘ بارہ سال کا ایک بیٹا اور چودہ سال کا
بیٹا پرائیویٹ سکولز میں پڑھ رہے ہیں نے خوف کے باعث اپنے بچوں کو سکول سے
اٹھا دیا ہے خاتون کے بقول اب سکولوں کے حالات خراب ہیں اور اپنے بچوں کو
مرنے نہیں بھیج سکتی اس لئے نو سالہ بیٹی کو گھر میں بٹھا دیا کہ گھر کے
کام کاج کرو جبکہ دو بیٹوں جن کی عمریں بارہ اور چودہ سال ہیں میں ایک کو
ٹیلر اور دوسرے کو مستری کے پاس بٹھا دیا- تاکہ یہ کچھ سیکھ سکیں- خاتون کے
بقول ایک طرف سے ذہنی تناؤ بھی کم ہوگا اور دوسری طرف اخراجات بھی کم ہو
جائینگے اور میرے بچے بھی کچھ نہ کچھ سیکھ لیں گے-یہ ایک حقیقی واقعہ ہے ‘
ایسے ہی کتنے واقعات ہمارے اردگرد پشاور اور خیبر پختونخواہ کے مختلف
علاقوں میں ہورہے ہیں-دوسری طرف سرکار نے سیکورٹی کے نام پر نئی سیکورٹی
پلان سکولوں کیلئے تیار کرلیا ہے جس کے تحت سکولز خصوصا پرائیویٹ سکولوں
کیلئے نئی ہدایات جاری کی گئی ہیں-
سولہ دسمبر 2014 ء کوآرمی پبلک سکول میں پیش آنیوالے واقعے کے بعد صوبائی
حکومت نے سکولوں کی سیکورٹی بہتر بنانے کیلئے نئی حکمت عملی تیار کرلی ہے
جس میں نجی سکولوں کی سیکورٹی بہتر بنانے سمیت سکول میں داخلے اور اخراج کے
راستے ‘ سیکورٹی گارڈ کی تعیناتی ‘ سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب ‘واک تھرو
گیٹ ‘ مہمانوں کی اندراج کیلئے کاغذات اور الارم سمیت سرچ لائٹس لگانے کی
ہدایات جاری کی گئی ہیں 23 نکات پر مشتمل ان سیکورٹی احکامات پرعملدرآمد
کرنے کیلئے پولیس نے مختلف علاقوں میں نجی سکولوں کو ہدایات جاری کردی ہیں
تاکہ خدانخواستہ آرمی پبلک سکول پشاور جیسا واقعہ رونما نہ ہو- انتظامیہ کی
جانب سے سیکورٹی کیلئے اٹھایا جانیوالا یہ اقدام کسی حد تک بہتر ہی ہے-
لیکن کیاموجودہ صورتحال میں پرائیویٹ سکولز مالکان اس پوزیشن میں ہیں کہ
اتنے اخراجات کرسکیں ‘ اور اگر یہ سب کچھ ہو بھی تو اس کے سکولوں میں پڑھنے
والے بچوں کے ذہنوں پر کیا اثرات مرتب ہونگے ‘ اور اگر پرائیویٹ سکولز
مالکان اس پوزیشن میں نہیں کہ اس طرح کے سیکورٹی اقدامات اٹھائے تو کیا ان
کے خلاف کوئی کارروائی کی جائیگی -اور اگر کارروائی ہوگی تو اس کے اثرات
ہمارے معاشرے میں کیسے پڑیں گے اس کا اندازہ کسی نے لگایا بھی ہے کہ نہیں-
حکومت ایک طرف تعلیم کی شرح کو بلند کرنے کیلئے بلند و بانگ دعوے کررہی ہیں
دوسری طرف سرکاری سکولوں کا یہ حال ہے کہ ایک کلاس میں سات سے آٹھ سیکشن
ہوتے ہیں جس میں چالیس سے ساٹھ کے قریب بچے پڑھتے ہیں پشاور جیسے شہر میں
بھی ایسے سکولز موجود ہیں جہاں پر بچے آج بھی ٹاٹ پر بیٹھ کر پڑھتے ہیں -
ان میں طالبات کے سکولز بھی موجود ہیں جہاں پر پینے کا پانی تو درکنار واش
روم کی سہولت تک موجود نہیں-دوسرے ان سکولوں میں پڑھایا جانیوالا نصاب 1980
کا پڑھایا جارہا ہے-جبکہ ایسے علاقے اب بھی موجود ہیں جہاں پر سرکاری سکول
کا تصورکرنا بھی محال ہے-دوسری طرف سرکاری سکولوں میں سیاسی بنیادوں پر
بھرتی ہونیوالے بیشتر اساتذہ بھی ایسے ہیں جنہیں پڑھانے کے علاوہ سب کچھ
آتا ہے ان میں سیاست سے لیکر پروموشن کیلئے وزیر ‘ ایم پی اے کے گھر کا
دورے اور تحائف دینا بھی شامل ہیں-ایسے میں اگر پرائیویٹ سکولزجو کسی حد تک
تعلیم کی شرح کو بلند کرنے کیلئے کوشاں ہیں ان میں سہولتیں بھی سرکاری
سکولوں کے مقابلے میں بہتر ہیں اور پڑھایا جانیوالا نصاب بھی کسی حد تک اپ
ڈیٹ ہیں ان حالات میں اگر23 نکات پر مشتمل سیکورٹی اقدامات یہ پرائیویٹ
سکولز مالکان اٹھائیں بھی تو اس کے اثرات نہ صرف بچوں پر پڑیں گے کیونکہ
سکول میں داخلے کے وقت کیمرے ‘ سیکورٹی گارڈ ‘ بسوں کی سیکورٹی کیلئے
علیحدہ سٹاف دیکھ کر بچے کیا سوچیں گے کہ یہ سکول ہیں یہ پھر قید خانہ ہیں-
جہاں پر سیکورٹی کے اتنے سخت انتظامات کئے گئے ہیں - بچے تو ویسے بھی
سکولوں سے ڈرتے ہیں ایسے میں ان کی ذہنی نشوونما اور تربیت کیسے ہوگی یہ
سوچنے کی بات ہے-دوسری طرف اگر پرائیویٹ سکولز مالکان 23نکات پر مشتمل
سیکورٹی کیلئے اقدامات اٹھائیں گے بھی تو اس کا زور بچوں کے والدین سے
نکالیں گے آج اگر کوئی والد اپنے بچے کی فیس دو ہزار روپے جمع کرا رہا ہے
تو پھر یہ فیس پانچ ہزار روپے تک بڑھ جائیگی کیونکہ پرائیویٹ سکولز کے
مالکان اپنا منافع تو کم نہیں کرسکتے ہاں البتہ بچوں کے والدین کی جیبیں
ہلکی کرنے کیلئے انہیں یہ مواقع بھی حکومت خود ہی فراہم کررہی ہیں-
اگر پرائیویٹ سکولز مالکان سیکورٹی کیلئے اٹھائے جانیوالے 23 نکات پر
عملدرآمد نہیں کرتی تو پھر لازماان سکولوں کے خلاف کارروائی ہوگی ایسے میں
نقصان سب سے زیادہ ان سکولوں میں پڑھنے والے بچوں کا ہے کیونکہ سکول مالکان
آخری حربے کے طور پرسکولز بند کرینگے اور پھر بچے گھروں تک محدود رہینگے-
میلینیم ڈویلپمنٹ گول کے اہداف کو پورا کرنے کی کوشش کرنے والے ملک میں اس
طرح کا اقدام نہ صرف بچوں کیساتھ دشمنی ہوگی بلکہ تعلیمی شعبے میں اپنے آپ
کو مزید نیچے گرانا ہی ہوگا- صوبائی حکومت نے سیکورٹی کیلئے جو 23 نکات
جاری کئے ہیں ان میں واک تھرو گیٹ لگانا بھی شامل ہے-واک تھرو گیٹ کی قیمت
کا اندازہ کسی کو ہے اور کتنے سرکاری دفاتر ہیں جہاں پر واک تھرو گیٹ لگائے
گئے ہیں ایسے میں پرائیویٹ سکولز سے واک تھرو گیٹ کا مطالبہ کچھ عجیب سا
لگتا ہے-تبدیلی کے دعویداروں کا یہ اقدام سمجھ سے بالاتر ہے-صوبائی حکومت
اگر سیکورٹی کے حوالے سے اتنے ہی فعال ہے تو پھراس سانحہ کے ذمہ داروں کے
خلاف کارروائی کیوں نہیں کرتی ابتدائی رپورٹ میں تو پولیس کو ذمہ دار قرار
دیا گیا ہے جن کے ناکے تو اس شہر میں ہر جگہ ہیں لیکن اس سے فائدہ عوام کو
تونہیں البتہ ان ناکو ں پر موجود اہلکاروں کو خوب ہوتا ہے جو شہریوں کا جیب
ہلکا کرنے کے فرائض انجام دیتے ہیں جیب ہلکی کرنے سے انکار کرنے والوں کو
حوالات میں رات گزارنی پڑتی ہے- اس کے ساتھ ساتھ اگرپرائیویٹ تعلیمی اداروں
کی سیکورٹی بھی حکومت بہتر کرے اور ساتھ میں کچھ اقدامات پرائیویٹ تعلیمی
ادارے بھی اٹھائے تو نہ صرف آرمی پبلک سکول جیسے واقعات رونما نہیں ہونگے
بلکہ بہت سارے والدین بھی اپنے بچوں کو سکولوں سے خوف کے مارے نہیں اٹھائیں
گے اور وہ تعلیم حاصل کرینگے - |
|