سچ مثبت سمت کی طرف سفر کر رہا ہے

مثبت سمت کا تعین اور مقاصد کی تکمیل کس قدر مشکل کام ہے ۔ہزار ہا رکاوٹیں پیش آتی ہیں کسی منزل کے حصول کی کوشش میں ۔۔

(یعنی ) منزل کو پانے کی کوششیں بھی ایک طرح سے دشواریوں کے زمرے میں آتی ہیں ۔جس معاشرے(خطے)میں اہداف کے تعین میں بھی مشکلات آڑے آ جائیں حقیقت میں یہ اس معاشرے کی خوبی نہیں ایک بدصورت خامی اور نقائص کی نشاندہی کرتی ہے ۔ایسے معاشرے دنیا میں اچھے اور مثالی معاشروں کے طور پر پیش نہیں کئے جاسکتے ۔اگر ہم اپنے محدود وتنگ نظر معاشرے (سماج)سے نکل کر دیکھیں تو دنیا کے ترقی یافتہ سماج اعلیٰ اقد ار کے حامل ہیں ۔وہاں نہ ہی مذہبی دہشت گردی اور شدت پسندی کا رجحان ہے اور نہ ہی افراد کی سوچوں میں انتہا پسندانہ رویے ہیں وہاں نظریات سے اختلافِ رائے کرنے والوں کی گردنیں نہیں اڑادی جاتیں۔ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کر کے سینے چھلنی نہیں کردیے جاتے اور سیاسی سطح پر بھی کوئی انتقام روانہیں رکھا جاتا مگر ہمارے یہاں تو انتقام کی سیاست رواج یاچکی ہے جوایک اعلیٰ اخلاقی دستور کی شکل بھی اختیار کر چکی ہے۔یعنی یہاں ترقی پسندانہ سوچوں اور رویوں کو ملعون ومطعون ٹھہرایا جاتا ہے ۔میرے نزدیک یہ اعلیٰ نہیں بلکہ گھٹیا اخلاقی اطوار ہیں ۔ایسے رویوں کا پنپنا معاشرتی زوال کا سبب بنتا ہے ۔اجارہ داری کو اچھا عمل کہنے والے حقیقت میں اپنی حاکمیت کو عزیز سمجھ کر اپنی بالادستی کو وسعت دینے کے چکر میں اپنے ناجائز قبضے کو جائز کرنے کے لیے تجویزیں پیش کرتے ہیں اور مثبت فکر عام کرنے والوں کو محض اپنے بنائے گئے قوانین کے تحت مجرم قرار دیتے ہیں یوں مثبت سمت اور اچھے اہداف کے تعین میں شدید مشکلات اور رکاوٹیں پیش آتی رہتی ہیں ۔معاشرے کو امن اور سکون کا گہوارا بنانے کا منطق پیش کرنے والے کبھی بھی طبعی زندگی پوری نہیں کرسکے ۔انہیں یاتوفتووں کاشکار ہوکرقتل ہونا پڑا یا بالادست طبقات سامراج اور زمینی وسائل پر قابض اور ایک طرح سے خدائی دعویٰ کرنے والوں کے بنے ہوئے قوانین اور عدالتوں کے ذریعے سولی پر لٹکایا گیا۔یہ کردار انسانی خصائل سے ذرابرابر بھی تعلق نہیں رکھتے ۔یہی کردار ہیں جو معاشرتی سطح پر جس کا دائرہ ء کار اور دائرہء اثر عالمی سطح تک بھی چلاجاتا ہے۔بے چینی ،بدامنی ،افراتفری اور فتویٰ بازی کا باعث ہیں ۔ہماراسرکاری وغیر سرکاری معاشرہ بھی انہیں تعفن زدہ عادات ،اطوار اور خصائل کاشکار ہے۔جب تک معاشرتی سطح پر یہ تاثر عام رہے گا کہ ہم عوام اور اقتدار ووسائل ارضی پر قابض طبقات ہمارے سردار (حکمران)ہیں تب تک ممکن ہی نہیں کہ انصاف تک رسائی اور عدل کے حصول میں انصاف کا پہلو نظر آئے۔جب تک پیدل چلنے والے اور حکمران ایک طرح سے جاگیردار اور امیر کے حقوق کو برابر نہیں سمجھاجائے گا معاشرتی اور سماجی ارتقاء تصور سے بھی بالاتر رہے گا۔اس وقت اقوام ِ عالم میں’’ جمہوریت ‘‘کا راگ الا پا جارہا ہے۔اپنے تئیں یہ دعویٰ کرنے والا پاکستان میں برسرِاقتدار طبقہ (مرکز پرست سیاسی ومذہبی جماعتیں )کہ پاکستان میں جمہوریت نشوونما پاچکی ہے یا پھل پھول رہی ہے ۔اس دعوے میں میرے نزدیک ایک فیصد بھی سچائی کا عنصر نمایاں نہیں ہے ۔محض عام آدمی کو دھوکہ دینے اور بے وقوف بنانے کے چکر ہیں یااقوامِ عالم میں یہ تاثر عام کرنے کی کوشش میں کہ یہاں جمہوری نظام رائج ہے۔تاکہ جمہوری آمروں کا تسلط طویل سے طویل تر ہوتا رہے ۔ان کے لئے جمہوری آمر‘‘کی اصطلاح بھی جمہوریت کوگالی دینے کے مترادف ہے ۔جب ایک آدمی کی خدمت اس کی فلاح اور اسے سہولیات کی فراہمی کے منصوبوں پر عمل درآمد کیا جاتا ہے تو اصل میں عبادت کی جارہی ہوتی ہے ۔کیونکہ انسانیت کی خدمت ہی تو جمہوریت ہے۔توایسے میں کسی آمرکواچھے الفاظ سے یاد کیا جائے گا۔؟اسی لیے جمہوری آمر کی اصطلاح میرے مطابق ان حکمران طبقات کے لئے موزوں اور مناسب نہیں ہے کیونکہ یہ تو وسائل پر بزور طاقت اور دھاندلیوں کے زور پر قابض ہیں ۔بہرِ کیف محض اپنی بات اور مافی الضمیر کے سمجھانے کے لیے اس اصطلاح کو استعمال کیا جا رہا ہے ۔تاکہ میرا اشارہ قارئین کے شعور کی حدوں کو چھوسکے۔اور اجتماعی شعور بیدار ہوسکے جس کا نتیجہ معاشرتی سطح پر روشن اور مثبت انقلاب کی صورت میں نکل سکے بشرطیکہ یہ انقلاب خوں ریزی کی شکل میں نہ ہو۔تب کہیں جا کر افکارواذہان مثبت سمت کی طرف رواں ہوں گے ۔لیبل تو جمہوریت کا ہے لیکن ہے شخصی وسیاسی (مکارانہ وعیارانہ)آمریت ۔۔۔!اقوامِ عالم بھی شاید اندھی ہوچکی ہیں کہ جو ہمارے سیاسی سماج پر اعتماد کرتی نظر آتی ہیں ۔۔۔!یہ اعتماد شاید ان کے سفارتی مفاد کے حصول کے لئے ہے ۔۔۔تو پھر عالمی سطح پر یہ انسانی حقوق کے تحفظ کے پرچار کے دعوے کیوں نظر آتے ہیں یا سنے جاتے ہیں ۔۔۔؟اور اسی طرح یہ جو مذہبی پنڈت اپنی اپنی دوکانیں چلانے کے لئے دین اسلام جوانسانیت اور تمام مخلوق ِ خدا کے لئے مکمل طور پر سلامتی اور تحفظ کا دین ہے کو تقسیم کررہے ہیں درحقیقت فساد فی الارض کے مرتکب ہورہے ہیں جبکہ سلامتی ،امن اور تحفظ ِحقوقِ انسانی کے دین نے تو اﷲ کی رسی کو مضبوتی سے تھامے رہنے کا حکم صادرفرمادیا ہے۔اور اس میں یہ حکمت پوشیدہ رکھی گئی ہے تاکہ تفرقہ میں نہ پڑاجائے مگر اس مذہبی پنڈت (مُلا) نے تو اس حرکت کو منافع کی دوکانداری قرار دے دیا ہے ۔اس کا یہ عمل اسلام سے ضد کے معانی میں آتا ہے اور پھر یہ سوال حل طلب ہے کہ جوامن کی راہی امت کو لٹھ لے کر اندھے گڑھے اور گہری کھائی میں لے جا رہا ہے اسے سانس لینے کے عمل کے لئے تازہ ہوا کون مہیا کرے رہا ہے دوسرے لفظوں میں وہ کون سی طاغوتی طاقتیں ہیں جوان فساد پھیلانے والوں کے لئے سہولت کار کا کردار ادا کر رہی ہیں ۔اس ضمن میں یہ کردار کوئی ڈھکے چھپے نہیں ہیں ۔ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں ۔یہ اور بات کہ ہماری آ نکھوں پر پردے پڑے ہیں ۔پھر بھی دیدہء دل واکرنے سے مسئلہ حل ہوسکتا ہے ۔وہ لوگ ہمیں نظر آسکتے ہیں ۔۔۔جب اس موضوع پر کہیں علمی بحث کا موقع ملتا ہے تو دولے شاہ کے چوہوں سے سامنا ہوجاتا ہے ۔جن کے سروں پر پیتل یا پھر لوہے کی ٹوپیاں چڑھادی جاتی ہیں ۔تاکہ ان کا دماغ (سر) نشوونمانہ پاسکے اور یوں یہ فکر وعلمی سطح پر بے کار رہیں ۔۔۔پھر ان سے بھیک منگواکر پیشہ ور گروہ اپنا اقتصاد مضبوط کرتے ہیں ۔یہ دولے شاہ کے چوہے (جوفکری ونظری اعتبار سے کورِ چشم اور بہرے ہیں )اپنے اپنے ذاتی مفادات کو توسیع دیتے ہوئے انسانیت کے قتل کے امکانات جاری کردیتے ہیں یہ اعتراف کسے نہیں کہ مسجد عبادت کی جگہ ہے جہاں انسان اپنے خالق ومالک اور ربِ کائنات کی عبادت کرکے گناہوں کی آلائش دھوتا ہے اور باقی زندگی خطائیں اور گناہ نہ کرنے کا تہیہ کرتا ہے مگر انھوں نے تو مساجد کو دوکان بنا کر روزی روٹی کے حصول کا ذریعہ بنا رکھا ہے ۔اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو کیا ہم نے سیدھی راہ اختیار کر رکھی ہے۔۔۔؟روزِ روشن میں بھی ہمیں مثبت سمت کاتعین ناممکن دکھائی دے رہا ہے۔۔۔!میں نے ہر کالم میں سیاسی ،فکری ونظری اور معاشرتی (سماجی)نظام میں پائی والی بے راہروی کے خلاف بات کی اور حتیٰ المقدور کوشش کی کہ کسی طرح اجتماعی شعور اصلاح کے باقاعدہ عمل سے گزرے ۔مگر معاملہ اس کے بر عکس اور متضاد دکھائی دے رہا ہے ۔الٹا اصلاح کی بجائے میرے خلاف عرصۂ حیات ِ تنگ کیاجا نے لگا ہے یعنی مختلف طریقوں سے غیر اصلاح یافتہ معاشرہ مجھے ہراساں کرنے لگا ہے اور مجھے قتل کرنے کے منصوبے بنائے جانے لگے ہیں ۔دنیا میں دوطریقوں سے قتل کی وارداتیں ہوتی ہیں ۔ایک طریقہ واردات یہ ہے کہ کسی کو براہِ راست ماردیا جائے اور دوسرا مختلف الزامات کے تحت مروا دیا جائے۔مثلاََ فتووں کے ذریعے ،مقدماتِ قتل ،اغواء میں انتقاماََ پھنسا کر قانون کے ذریعے سولی پر لٹکوادیاجائے یا اشتہاری قرار دے کر جعلی پولیس مقابلہ میں پارکروا دیا جائے۔یہی دوطریقے ہمارے ہاں رائج ہیں جن پر عمل کرکے طاقت سے طاقتور دشمن کوبھی مات دی جاسکتی ہے لیکن دوسرا طریقہ قتل سب سے موثراور کامیاب ہے۔۔۔!میرے ساتھ بھی کچھ اس طرح کا سلوک ہورہاہے۔عمل کا ردِعمل یقینی ہے اور یہ ایک فطری عمل ہے۔جب سماجی (اس سے میری مرادسرکاری وغیرسرکاری معاشرہ ہے)سطح پر پھیلی بدعنوانی (ناہمواری)کی مضر علامات کے خلاف بات ہوگی تو نتیجہ بھی شدید ترین مشکلات کی صورت میں نکلے گا ۔صدرتھانہ جامپور (راجنپور)میں میرے خلاف اغواء کا درج مقدمہ بھی کچھ اسی سلسلے کی کڑی ہے کہ پولیس مقابلہ میں پارکردیاجائے لیکن جسے اﷲ رکھے اسے کون چکھے۔۔۔؟انسانی سمگلنگ میں ملوث گروہ جس کی سربراہ جامپور کی رہائشی خاتون ہے (سلامتی کے اداروں کو بھی حالات سے مکمل آگاہی ہے)نے جاگیرداروں سرمایہ داروں مخبروں (چغل خوروں )اور بدعنوان افسرِشاہی کے اشارے پر ایک مظلوم (جسے مظلوم کہنا بھی شاید جرم ہے کیونکہ موصوف مدعی مقدمہ ہذاء نے انسانی سمگلنگ کے ہاتھوں اپنا لختِ جگر مبینہ طور پر بھاری معاوضہ میں فروخت کیا تھا ۔قبل ازیں بھی ایسے عمل میں ملوث تھا )کو میرا(راقم کا) مدعی بنا دیا۔پسِ پردہ عناصر کے عزائم دراصل مجھے جان سے مارنے کے ہیں ۔خواہ ان کے ارادوں کی تکمیل بذریعہ پولیس ممکن ہو یا عدالتی فیصلہ کے ذریعے۔۔۔!لیکن سچ سرخروئی کے مراحل طے کرتا ہواکامیاب وکامران ٹھہرتا ہے اور جھوٹ سدانادم رہتا ہے ۔سچ مصلوب ہوکر بھی اعلیٰ مدارج پر فائز رہتا ہے ۔۔یوں سچ اجتماعی شعور کو جگا کر افکار کی مثبت سمت کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔
Mansha Fareedi
About the Author: Mansha Fareedi Read More Articles by Mansha Fareedi: 66 Articles with 47032 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.