سانحہ پشاور رونما ہوا تو ہر نم
آنکھ کے ساتھ ہر قلم بھی اشک بار ہوئی ۔سیکیورٹی اداروں پر سوالیہ نشان بھی
بنے ۔سکول کی ناقص سیکیورٹی پر بھی بات کی گئی ۔کمیٹیاں بھی بنا ئی
گئیں۔آئیندہ کے لیے ایسی سنگینی سے نمٹنے کے لیے منصوبے بھی تشکیل دیے
گئے۔سیکیورٹی کے نام پر سیکیورٹی اداروں کے اہل کاروں کو ساری ساری رات
سردی میں ہا ئی الرٹ بھی ر کھا گیا۔سیکیورٹی کے اشیو کو زیر بحث لا تے ہو
ئے تعلیمی اداروں کو فوری معین مدت تک کے لیے بند کر د یا گیا ۔ 7،8آٹھ د
ہشت گردوں کو دہشت گردوں کے لیے دہشت کی علامت بھی بنا یا گیا۔
مگر سوال یہ ہے کہ کیا جو ہم نے یہ پلان تر تیب د یا ہے اس سے واقعی دہشت
گردی کا جڑ سے خاتمہ ہو جا ئے گا؟ اس سوال کا جواب د ینے سے پہلے میں منا
سب سمجھتا ہوں کہ میں پہلے اس بات کی وضا حت کر د وں کہ دہشت گردی پر وان
کیسے چڑھی ؟ کیونکہ ہر با شعور شخص اس بات سے با خوبی آ گاہ ہے کہ جب تک
کسی مسئلہ کے پنپنے کی وجہ معلوم نہ ہو ہم کبھی بھی مسئلہ کا حل پیش نہیں
کر سکتے ۔برائی کے چند پتے جھاڑنے سے یا اس کی شاخیں کاٹ دینے سے ہم یہ
نہیں کہہ سکتے کہ اس کا خاتمہ ہو گیا ہے جب تک ہم اس کو جڑ سے نہیں ا کھیڑ
دیتے ۔اب ہم اس کے حل کی طرف آتے ہیں ۔
نمبر ایک ہم پوری قوم کو پہلے تو یہ تعین کر نا ہو گا کہ حق پر ہم ہیں کہ
وہ جو ہمیں اﷲ اکبر کا نعرہ لگا کر قتل کر ر ہے ہیں ۔سکول میں جاتے ہیں تو
اسلام کی شکل کچھ اور نظر آتی ہے اور جب نماز اور قرآن پڑھنے کے لیے مسجد
مدرسہ میں داخل ہو تے ہیں تو اسلام کا کو ئی اور ہی روپ نظر آتا ہے ۔جب تک
ہم اس کشمکش سے نہیں نکلتے ۔اندر والے با ہر والوں سے مل کر ہمیں مرواتے ر
ہیں گے۔
نمبر دوجس قوم کے بچوں کو چھپکلی ،چو ہے ، بلی ،بھووغیرہ سے بچپن میں ہی
ڈرا ڈرا کر دہشت زدہ کیا جا تا ر ہا ہو۔ جہاں بچیا ں اکیلی ایک گلی سے
دوسری گلی نہ جا سکتی ہوں۔جہاں بازاروں اور چورا ہوں پر اوباش دندناتے ہوں۔
جہاں قانون کے محافظوں کے پاس جانے سے لوگ کتراتے ہوں ،جہاں سالوں تک
قتل،چوری ،زنا کے مجرموں کو سزا تو در کنار کئی کئی سال تک مقد مے تک نہ
درج ہو تے ہوں ۔اس قوم میں معوذ ؓ معاذؓ،عونؑ و محمدؑ،ام
اعمارہؓ،صفیہؓ،زبیرؓ کے جا نشیں کیسے پیدا کر سکتے ہیں ۔ہم جب تک اپنے بچوں
کی تربیت درست سمت میں نہیں کر لیتے ،ہم جب تک خود گھروں سے نکل کر گلی
محلوں کی دہشت کو شکست نہیں دے لیتے ہم اس دہشت گردی کی جنگ نہیں جیت سکتے
۔ ظلم سے بچنے کا واحد راستہ انصاف کر نا ہے ۔جب تک ہم انصاف میں غفلت کر
نا نہیں چھوڑ دیتے ،دہشت گردی کے سلیپر سیل پیدا ہو تے ر ہیں گے ۔اور ہم
بھیڑ بکر یوں کی طرح ذبحہ ہو تے ر ہیں گے ۔
نمبر تین بچت ہمیشہ برے وقت کے لیے کی جا تی ہے نہ کہ بچت کر کے ،آخر میں
ایک ہی دن ساری بچت کھا جانا۔بد قسمتی سے جو بھی حکومت ہمارے ہاں اقتدار
میں آتی ہے ،اس کی یہ کو شش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ سکورننگ کر ے ۔تاکہ
ایک طرف وہ اپو زیشن کا منہ بند کر سکے اور دوسری طرف وہ عوام میں مقبول ہو
جا ئے اور بدلی میں ان کے اقتدار کا زمانہ لمبا اور لمبا ہو تا ر ہے ۔ ان
مقاصد کے حصول کے لیے ،ایک ہی وقت میں بے شمار تر قیاتی اور غیر ترقیاتی
منصوبے شروع کر د یے جا تے ہیں ۔اتنے سارے منصوبوں کی ما نیٹرنگ اور پھر ان
کے اخراجات حکو مت کے بس کی بات نہیں ر ہتی ،اور پھر یہ ٹیکس اور وہ ٹیکس
عام آدمی سے جا ئز اور نا جا ئز کی تمیز چھین لیتا ہے ۔بھوک کا خوف موت کے
ڈرکو بھی دل سے نکال د یتا ہے ۔اس سے بھی بڑا المیہ یہ کہ وہ سارے منصوبے
بھی کرپشن کی نظر ہوجا تے ہیں کیونکہ منتخب نما ئندے پہلی اور آخری ایننگ
سمجھ کر اقتدار کا کھیل کھیل ر ہے ہو تے ہیں ۔90فیصد نما ئندے فقط اقتدار
کے لیے الیکشن کی بازی لگا تے ہیں نہ کہ عوام کی بہبود کے لیے ۔میں الیکشن
کے دنوں میں امیدواروں کا جوش و جذبہ دیکھ کر حیران رہ جا تا ہوں اور سوچتا
ہوں کاش یہ اسی جذبہ سے خدمت خلق کے لیے لڑیں، مگر افسو س یہ تو اقتدار کی
جنگ ہو تی ہے ۔جتنا بھی ر یو نیو کی صورت میں یا زکوۃ کی یا سر کاری اداروں
کی انکم کی صورت میں قومی دولت جمع ہو تی ہے اگر اس میں سے فقط 30فیصد بھی
عوامی منصوبوں پر لگا د یا جا ئے تو70فیصد د ہشت گر د ی پیدا ہو تے ہی مر
جا ئے۔
آخری بات ،قومی یکجہتی کو ہر ممکن فروغ د یا جا ئے اگر امن کا نوبل پرائز
ہو سکتا ہے تو قومی یکجہتی پربھی ،یکجہتی پر ائز ملنا چا ہیے ۔ذات پات ،رنگ
،نسل اور صوبا ئیت پر ستی کی ہر سطح پر حوصلہ شکنی ہو نی چا ہے ۔اس کے لیے
بنیادی سطح پر کام کر نے کی اشد ضرورت ہے ۔
بس یہ ہی وہ کام ہیں جن کو کر کے ہم دہشت کے اس عفریت کو شکست دے سکتے ہیں
ورنہ ہم سب کو معلوم ہے کہ ہمارا معاشرہ خود شکست و ریخت سے دوچار ہے صرف
اس کا واحد علاج درج بالا ہی ہے ۔نہ امر یکہ ہماری مدد کر سکتا ہے اور نہ
ہی سعودی عرب آئے روز امداد دے سکتا ہے ہمیں اپنی بقا کی جنگ خود ہی لڑنا
ہے ورنہ ایک ایک کر کے ہم سب زومبی بن جا ئیں گے اور اپنے ہی اپنوں کو نوچ
نوچ کر کھا تے جا ئیں گے۔جب تک با غبان سب اچھا کی بانسری بجا تے ر ہیں گے
اس گلشن کے پھولوں کے جنازے اٹھتے ر ہیں گے اور ہر نیا ہو نے والا المیہ
پہلے المیہ کو چھو ٹا اور چھوٹا کر تا جا ئے گا۔ |