میڈم طاہرہ قاضی شہید۔
اسلام ُ علیکم۔
میں جب یہ سطور رقم کر رہا ہوں آپ کو جام ِ شہادت نوش کیے ایک ہفتے کا عرصہ
گزر چکا ہے۔ آپ کے اس وطنِ عزیز کے ہر خاص آدمی، ہر عام آدمی، سیاستدانوں
الغرض ہر طبقہ ہائے فکر کے لوگوں نے آپ کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ اور
سلسلہ تا دمِ تحریر جاری ہے۔ میڈم! میں نے اخبار میں پڑھا ہے کہ 16 دسمبر
کی صبح جب خونخوار درندے آپ کے سکول و کالج کے بے گناہ،معصوم ننھے پھولوں
کو اپنی وحشت و بربریت کا نشانہ بنا رہے تھے تو اسی دوران آرمی ریسکیو
آپریشن میں آپ کو صحیح سلامت ایک محفوظ مقام پر پہنچا دیا گیالیکن زندہ بچ
کر بیٹھ جانے کی بجائے آپ نے واپس جانے کو ترجیح دی ۔ ہاں میڈم! مجھے معلوم
ہے کہ کانوں کے پردے پھاڑ دینے والی اور دلوں کو دھلا دینے والی گولیوں کی
گھن گھرج سن لینے کے باوجود آپ واپس گئیں۔ میڈم میں اتنا بڑا لکھاری نہیں
ہوں کہ منظر کو الفاظ کا روپ دے سکوں ۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ آپ کے دو
بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ جب آپ نے محفوظ مقام سے برستی گولیوں کی بارش میں
واپس جانے کا فیصلہ کیا ہو گا اسی وقت آپکو اپنے بیٹوں اور بیٹی کی یاد تو
آئی ہو گی لیکن آپ نے اپنے سکول کے بچوں کو اپنی سگی اولاد سے زیادہ عزیز
جانا۔ ۔۔! ہاں میڈم۔۔! آپ نے اس عظیم کارنامے سے ہر عورت کا سر فخر سے بلند
کر دیا ہے۔ ہر ماں کا، ہر اُستاد کا، وطنِ عزیز کے ہر باسی کا۔ اور در
حقیقت ہر انسان کا۔ ۔۔اور انسان کے خالق کا۔ خالقِ کائنات نے اس دن فرشتوں
سے کہا ہوگا کہ گولیاں برسانے والے ’’مرَدوں‘‘ کو مت دیکھو ،پھولوں کو
بچانے والی ’’عورت‘‘ کو دیکھو۔۔۔اسی بنیاد پر میں نے انسان کو اشرف
المخلوقات کا لقب عطا کیا ہے۔
لیکن میڈم! آپ کے اس عظیم کارنامے کے بعد جب میں اپنے اوپر نگاہ ڈالتا ہوں
۔۔۔اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ’’انسانوں‘‘ کے رویوں کودیکھتاہوں تو سوچتا
ہوں اچھا ہی ہوا، آپ اس جہان سے چلی گئیں۔ مجھے ڈر ہے کہ یہ سارا کارنامہ
کرنے کے بعد اگر آپ زندہ بچ رہتیں تو پھر خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے رات
کو بے شمار چینلز آپ کا انٹرویو کرتے۔ پلک جھپکنے میں آپ بین الاقوامی
میڈیا کی ہیر و بن جاتیں ۔۔ یقینا آپ کی بہادری پر آپکو ایوارڈ بھی ملتے
شائد امن کا نوبل کا پرائز بھی مل جاتا اور پھر خود فریبی کی شکار، مردہ
پرستی کی رسیا ،اس بزدل قوم میں آپ کے متعلق بے شمار سازشی تھیوریاں زیرِ
گردش آجاتیں۔ فیس بُک پر آپکی کوئی تصویر آجاتی جس میں آپکو کسی انگریز کے
ساتھ کھڑا دکھایا جاتا۔ ۔۔اور ثابت کیا جاتاکہ وہ انگریز سی۔ آئی۔ اے کا
ایجنٹ ہے اور یہ سارا سانحہ پشاور آپ نے پاکستان کو بدنام کرنے اور خود
شہرت حاصل کرنے کے لیے کیا ہے۔ آج آپ چلی گئی ہیں تو تعریف کی جارہی ہے،
اگر آپ بچ جاتیں تو بتایا جاتا کہ جو ایوارڈ آپ کو دیا جا رہا ہے وہ آپ کی
بہادری کا اعتراف نہیں بلکہ اسلام کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔ حالانکہ اپنے
اپنے فرقے اور اپنے اپنے قبیلے کا مالا جپنے والی اس ’’اُمتِ مسلمہ‘‘ کو
کسی سازش کی ضرورت ہی کیا، ہماری خود فریبی ہی ہمیں تباہ کرنے لے لیے کافی
ہے۔
خالقِ کائنات کا یہ فیصلہ مصلحت سے بھرپور ہے کہ اس نے آپ کو اپنے پاس بلا
لیا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ ہم تو وہ قوم ہیں جو اُس وقت تک خوابِ غفلت سے
بیدار نہیں ہوئی جب تک ایک ملالہ کو لگنے والی گولی 132 معصوموں کے چراغ
گُل نہیں کر گئی۔ میڈم! آپ یقین نہیں کریں گی ،میرا ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ
دوست کہہ رہا تھا ملالہ اسلام کو بدنام کرنے والی سازش کا حصہ تھی ۔۔۔ میں
نے کہا کیا کوئی صرف اس اُمید پر خود کو گولی مروا سکتا ہے کہ وہ بچ جائے
گا اور بعد میں مشہور ہو جائے گا؟
میڈم! ہم ویسے بھی مردہ پرستوں کی قوم ہیں جب تک کوئی زندہ ہے ہم اس کی قدر
نہیں کرتے ۔مجھے معلوم ہے جب عورت کو بزدلی کے طعنے دیے جاتے ہوں گے آپ کو
رنج پہنچتا ہو گا لیکن میڈم آپ نے ثابت کیا ہے کہ آپ کروڑوں مردوں سے زیادہ
بہادر ہیں۔ اگر آپ کو میرے الفاظ برے لگے ہوں تو میں معذرت خواہ ہوں لیکن
حقیقت یہی ہے کہ اچھا ہوا۔۔۔ آپ چلی گئیں۔
ولسلام۔
ڈاکٹر عبد الباسط۔ |