رنگروٹ سے آفیسر ۔ قسط 1

سٹوڈیو ، پیرا ٹروپنگ اور ہم

بڑے بوڑھے کہا کرتے تھے کہ انسان اپنی قسمت خود بناتا ہے۔ بچپن میں والدین نے بھی یہی نصیحت کی تھی جو ہمارے دل کے پتّھر پر انمٹ لکیر بن چکی تھی۔ لیکن حالات کے تھپیڑوں نے اتنا رگیدا، کہ اعتماد کا شیشہ نہ صرف چکنا چور ہوا بلکہ، اس کے چورن نے قسمت کی لکیر پر جم کر اس پر پلستر کردیا، تدبیر کو تقدیر نے چاروں شانے، پچھاڑنے کے بعد ہمیں حضرت غالب سے پوری طرح متفق ہونے پر رضامند کر دیا۔ کہ ع،
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا۔

یہ زمانہ ازمنہ وسطہ کی تو نہیں، ماضی ہائے قریب کی داستان ہے، جب ہم نے اکیڈمی میں ڈرتے ڈرتے قدم رکھا تو اپنے چاروں طرف عجب سماں تھا، کہیں مسجود ملائک، کہیں معبود شجر، مگر جس چیز نے ہمیں سب سے زیادہ مرعوب کیا، وہ کالے کپڑے، نیلے اور سفید دھاگوں کا مجموعہ تھا۔ ہم حیران تھے کہ جنٹل مین کیڈٹ یہ فالتو بوجھ اپنے سینے پر کیوں اٹھائے پھرتے ہیں۔ مگر جب اس کے متعلق مفصلاً معلوم ہوا تو یہ نازک بوجھ ہمیں بھی اپنے سینے پر آٹھانے کا شوق چرایا۔ ہر وقت خیالوں میں دھاگوں کا مجموعہ جسے پیرا ونگ کہتے ہیں اُڑتا رہتا۔ فرسٹ ٹرم گذری تو سیکنڈ ٹرم آئی۔ امیدواروں میں ہم بھی جاکھڑے ہوئے مگر قسمت کو منظور نہ تھا، دوڑتے ہوئے خود کو قابو نہ رکھ سکے اور ہمارا دائیاں ہاتھ کھڑکی میں لگا اور شیشہ توڑتے ہوئے اندر گھسنے کی کوشش کی مگر، ہاتھ واپس کھینچنے پر، کلائی چھ ٹانکے سی ایم ایچ سے لگوانے پڑے ۔ یوں خواب ادھورا رہا، تھرڈ ٹرم کے خاتمے پر ایک بار پھر قسمت آزمائی اور ہم یارانِ دید و وصل میں شامل کر لئے گئے۔ دن گنے جانے لگے، راتیں طویل اود دن شیطان کی آنت کی طرح لمبے ہو رہے تھے۔ مگر ہماری طلب کی شدت نے جو آگ بھڑکائی تھی اس کے شعلوں کی حدت ٹھنڈا ہونے کے بجائے بڑھتی جارہی تھی۔

آخر کار وہ دن بھی قریب آپہنچا۔ جب ہمیں حاتم طائی کی طرح حُسن بانو کے سوالوں کی تلاش میں ماژندران جانا پڑا۔ عجیب کیفیت تھی۔ تمام امیدواران خوش نظر آرہے تھے۔ دل کی دھڑکن وقت کی چاپ سے بار بار آگے نکل رہی تھی، بسوں میں سوار ہوئے اور بسیں اپنے جلو میں مشتاقانِ دید کو لئے منزلِ محبوب کی جانب رواں ہوئیں۔ بسوں کی رفتار ہمارے جذبہ شوق کو بھڑکا رہی تھی۔ جی چاہتا تھا کہ اڑ کرکوئے یار پہنچ جائیں، مگر مجبور تھے، اف یہ مجبوری اور ہم۔ خدا خدا کر کے منزل آئی اور ہم پشاور میں پیرا ٹرینگ ونگ کے سامنے، جا کر بسوں سے چھلانگ مار کر اترے، مبادا کہیں، پلاٹون کمانڈرز بسوں کو واپس کاکول کی طرف مڑنے کا نہ کہہ دیں۔ سامان اٹھا کر رہائش گاہ پہنچے، ہائے یہ ناقدری ء عاشقاں۔ کہ رہنے کو صحیح جگہ بھی نہ ملی کوئے یار میں۔ آخر دل کو یہ کہہ کر تسلی دی کہ مجنوں کو بھی لیلیٰ کے باپ نے اصطبل میں ٹہریایا تھا۔ یہاں تو لیلیٰ کے ساتھ اس کے بھائی بھی تھے۔ جس سے ہمارا تعارف بعد میں ہوا۔

دوسرے دن، جب نہا دھو کر پیراسکول گئے تو مختلف قسم کے بورڈ ہمارا مذاق چڑا رہے تھے، مثلاً ایک بورڈ پر لکھا تھا، GET TEN، جس کا مطلب تھا، کہ فورا! مانند برق خود کو حالتِ نصف سجدہ میں گرا دیں۔ اور اپنے بازوؤں کو طاقتور اور پھیپڑوں کو مضبوط بنانے کے لئے آہ و فغاں کرنا ضروری ہے ورنہ نالہء بلبل کی صورت میں یہ GET TEN، انڈے اور بچے دینا شروع کر دیں۔

ایک بورڈ پر تحریر تھا، دوڑو ،۔۔۔۔ ورنہ ۔۔۔۔۔ اس کا مطلب تھا فوراً دوڑنا شروع کر دیں، ورنہ ،آپ خود سمجھدار ہیں۔

ایک پر لکھا تھا، رک جاؤ، ۔۔۔ ورنہ ۔۔۔ آپ خود سوچئے کہ ہم بے چارے کس بورڈ کا کہنا مانیں۔ کاکول میں سلیکشن ٹیسٹ دینے کے بعد ، یہاں فائینل سلیکشن ٹیسٹ کا غلغلہ سنا، جو ناکام رہے انہیں رخت سفر باندھنے کا حکم ملا۔ انہوں نے حسرت سے کہا۔ ع
در پہ رہنے کو کہا اور کہہ کہ کیسا پھر گیا ۔ جتنے عرصہ میں میرا لپٹا ہوا بستر کھلا۔

پہلا دن گذار کر جب واپس بارکوں میں آئے تو عجیب حالت تھی، قدم رکھتے کہیں تو پڑتا کہیں، ڈانگری پسینے میں شرابور اور سر پر عقل چوس (ہیلمٹ) جس پر جلی حروف میں 28لکھا تھا، اتارنے کی اجازت نہ تھی، لوگ مڑ مڑ کردیکھتے گویا ہم ابھی کسی پنجرے سے نکل کر آرہے ہیں۔ بلکہ ایک خاتون نے اپنے شرارتی بچے کو کہا، ”وہ دیکھو فوجی“ دوسرے بچے نے آواز لگائی، ”امی فوجی“۔ ہمیں اپنے وہ دن یاد آگئے جب گلی میں ڈگڈگی کی آواز سن کر ہم نعرہ لگاتے، ”امی بندر آیا ہے“ ۔

دوسری صبح اٹھنے کی کوشش کی تو لگتا تھا کہ جسم، تختے سے باندھا ہوا ہے۔ ہائے ہائے کر کے اٹھے، دیکھا تو سب ہی اسی آہ سحرگاہی میں مبتلاء ہیں، پلٹون میٹ سرفراز نے اطلاع دی، کہ کمبائینڈ الیون ٹائپ واش رومز میں صرف دو، یورپئین کموڈ ہیں، وہاں لائن لگ رہی ہے، جلدی جاؤ۔ جاکر دیکھا تو خدا جھوٹ نہ بلوائے ڈیڑھ سو جنٹل میں کیڈٹس میں سے کم از کم چالیس ایک طرف اور چالیس دوسری طرف، لائن بنا کر کھڑے ہیں، ایشئین کموڈ والے بقایا آٹھ واش روم، کسی مفلس کی بچھائی ہوئی چادر کی طرح خالی پڑے ہیں۔ ہم بغیر سوچے، خالی واش روم کی طرف بڑھے۔
ایک آواز آئی ”بھائی کو جانے دو۔ابھی واپس آئے گا“۔
ہم نے ایک کان میں گھستے ہوئے طنز کو دوسرے کان سے نکلنے دیا، اور واش روم میں داخل ہو کر دورازہ بند کر لیا۔ تھوڑی دیر بعد، فارغ ہو کر باہر نکلے۔
تو ایک دوست نے حیرانی سے پوچھا، ”تمھارے گھٹنے مڑ گئے“۔
ہم نے فاتحانہ انداز میں جواب دیا، ”اگر سکول میں، دیوار کے ساتھ کرسی بن کر سزا کاٹی ہوتی تو ابھی لائن کا منہ نہ دیکھنا ہوتا“۔ کچھ کو تو بات سمجھ نہ آئی جن کو سمجھ آئی وہ لائن سے نکل کر خالی واش رومز کی طرف دوڑے۔

تین دن بعد تو ہمارا انجر پنجر ڈھیلا ہو گیا چلتے وقت گھٹنے اور ٹخنے کھڑکنے لگتے اور ہم اس دن کو کوسے جب ہمیں پیرا سکول آنے کی سوجھی تھی۔ کچھ رہی سہی کسر وہاں کے عملے نے نکال دی ۔ ہمارے خیال میں ہمارا، ”پی۔ایل۔ایف“ صحیح بنتا تھا (یہ کوئی ڈگری نہیں پیرا لینڈنگ فال کامخفف ہے) مگر سٹاف کہتا، کہ دوسرا اور تیسرا پوائینٹ آف کنٹیکٹ مِس کر دیا ہے۔ ویسے بلامبالغہ چوتھا ”پوائینٹ آف کنٹیکٹ“ ہمیں بھی لگتا محسوس ہوتا تھا اور اس شدت سے کہ دماغ بھی ہل جاتا، لیکن آہستہ آہستہ، چاروں پوائینٹ کے درست لگنے کی وجہ سے، ہمارے سر کے درد کی شدت میں کمی آنے لگی۔ کبھی آپ نے زندہ بکروں کو لٹکا دیکھا ہے، نہیں نہ، ایسا منظر آپ کو صرف پیرا سکول میں Suspended Harness کے طویلے میں، دکھائی دیا جاسکتا ہے، اگر آپ اس کے اندر گّھسنے کی ہمت کر لیں تو۔

عمر کا بیشتر حصہ، شہروں میں گذرا اور اکثر گاڑیوں کو خراب ہو جانے پر دوسری گاڑی سے کھینچا جانا دیکھا تھا لیکن انسان کو کھینچے جانا، بلکہ خود کھینچے جانا ہماری زندگی کا پہلا اور تلخ تجربہ تھا، سٹاف کو بڑا کہا کہ یہ غیر انسانی سزا ہے، کیا اسے ختم نہی کیا جا سکتا، توسٹاف نخوت سے کہتا، ”صاحب، اگر جہاز سے گرتے ہی اللہ تعالیٰ نے پنکھا چلا دیا، تو پھر پیراشوٹ، اس طرح کھینچے گا۔ جیسے عوامی میل ڈبوں کو کھینچتی ہے“۔ جیپ کے پیچھے، باندھ کے جب ہمیں جیپ نے کھیچنا شرو ع کیا تو جیپ عوامی میل تو نہیں طوفان میل نظر آئی، یوں محسوس ہوتا تھا کی شاید ہم فلم ”ڈان آف اسلام“ کا کو ئی کردار ہیں یا چودہ سو سال پہلے، کسی ابوجہل کے قابو میں آگئے ہیں، جب ہمیں اس کھنچاؤ سے آزادی ملی تو ہمیں خود پر فراعنہ مصر کے زمانے کی کسی ممی کا گمان ہوا جو کسی اہرام سے کھدائی میں برآمد ہوئی ہو۔

جھولا ہر بچے کی کمزوری ہوتی ہے، اور بچپن میں ہماری بھی تھی، یقیناً آپکی بھی ہو گی، جھولا جھولنے کا شوق یوں سمجھئے کہ گھٹی میں ملتا ہے، Swing Harness دیکھا تو خوشی کے مارے، دانت نظر آنے لگے، یہ بھی جھولے سے ملتی جلتی چیز ہوتی ہے بس فرق اتنا ہوتا ہے کہ اس پر انسان کو اچھی طرح باندھ کر لٹکایا جاتا ہے، مختلف امتحانوں سے کوالی فائی کرتے کرتے ہم بھی، سوئینگ ہارنیس پر پہنچے، بانس کی بنی ہوئی سیڑھی پر چڑھتے ہوئے، ڈائس پر پہنچے، پیراشوٹ ہارنیس میں پھنسائے گئے، جب ہمیں پنڈولم کی طرح جھلایا گیا، تو ہمیں ، ”جھولا جھلائیں سکھیاں جھول“ کی مدھر لے یاد آگئی، ابھی ایک جھولا لیا تھا، کہ آواز آئی، Prepare to Land
اور اس کے ساتھ ہی ہمیں نیوٹن کے قانون کششِ ثقل کا عملی تجربہ ہوا، کیوں کہ ہمارا چوتھا پوائینٹ آف کنٹیکٹ، بگ بینگ کے متماثل دھماکے کی آواز نکالتا ہوا کرہ ارض سے ٹکرایا اور آنکھوں کے سامنے وہ ستارے بھی ناچنے لگے جو ابھی تک ہئیت دانوں نے دریافت نہیں کئے ہیں۔ اوسان بحال ہوئے اوپر دیکھا تو سٹاف بانچھیں چیرے ہمیں دیکھ رہا تھا،
بولا ”نعیم صاحب، پیرا ونگ لینا اتنا آسان نہیں۔ دوبا رہ اوپر“ ۔
”ہم سمجھے تھے کہ دس گیارہ پینگیں لینے کے بعد ہم زمین کا رخ کریں گے“ ہم نے سیڑھیاں چڑھتے جواب دیا۔
” صاحب، آپ کا پیرا شوٹ، کھلتے ہی پھٹ گیا تھا“۔ سٹاف نے جواب دیا۔
وہ کیڈٹ ہی کیا جو سٹاف سے ٹریننگ کے دوران، پنگا نہ لے، اور وہ سٹاف ہی کیا جو پنگے کا جواب موقع محل کی مناسبت سے نہ دے، لہذا ہم پوری تیاری سے ہارنیس پہن کر کھڑے ہوئے،
اور سٹاف سے کہا، ”سٹاف ِ اس دفعہ کہیں یہ نہ سمجھ لینا کہ ہم نے پیرا شوٹ پہنے بغیر جہاز سے چھلانگ لگا دی ہے“۔
سٹاف ہنس کر بولا، ”نعیم صاحب! آپ کو چمچوں سے کون زمین سے اٹھائے گا، ہمارے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا“۔

سارے مراحل طے کرنے کے بعد، جب ٹاور پر پہنچے۔ نیچے سے اک نگاہ تحقیر ڈالی، کہ چونتیس فٹ کیا اونچائی ہے یار لوگ خوامخواہ ، رائی کا پہاڑ بنا کر ڈراتے ہیں۔
ہم سب ٹاور کے سامنے بنے ہوئی سیڑھیوں پر بیٹھ گئے، ہمیں دکھایا جانا تھا کہ ٹاور سے کیسے چھلانگ لگائی جاتی ہے، پہلے جمپر نے چھلانگ لگائی، ایسی تو ہم بھی لگا سکتے ہیں۔ دوسرے نے اناڑی پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے چھلانگ لگائی ، بتایا گیا کہ شروع میں سب ایسی چھلانگ لگاتے ہیں، تیسرا جمپر دروازے میں بیٹھ گیا، رونے اور چلانے لگا، کہ پہلے مہینے کی چھٹی منظور کرو پھر جمپ لگاؤں گا، اس کے بعد اس نے کیبل میں لگا ہو اہک اتارا، ہارنس کھولے اور نیچے پھینک دیئے، ہارنیس نیچے گرے تو اس نے شور مچاتے ہوئے چھلانگ لگا دی، ہم سب خوف زدہ ہو کر کھڑے ہو گئے، لیکن وہ تاروں پر جھولتا ٹیلے کی طرف جارہا تھا۔

اس کے بعد کیڈٹس کو، کیڈٹ نمبر کے مطابق ترتیب وار ، تیار کیا گیا، اور ٹاور پر سے، جمپنگ سیشن شروع ہو گیا۔ ہمارے ایک پلاٹون میٹ، جو ہمارے ساتھ تھے اور جن کانمبر ہمارے کافی بعد تھا، ہر ناکام امیدوار کو بتاتے کہ اس کی کیا غلطی تھی، کبھی کہتے یوں کرو اور کبھی کہتے یوں کرو، دیکھو اس کو گھٹنے نہیں ملا سکتا، اتنی مشکل بات تو نہیں۔ یہ سن سن کر ہمارے کان پک گئے اور ہم اٹھ کر اپنے سٹوڈیو چلے آئے۔ ارے ہاں ہم آپ کو یہ بتانا تو بھول ہی گئے، کہ آفیسر کمانڈنگ پیرا ونگ، میجر امیر سلطان، نے کسی سے ایک فری فال ڈائیور کی پینٹنگ بنوائی جو بلیک اینڈ وائیٹ آؤٹ لائین کی صورت میں تھی، وہ انہوں نے، ہمارے کورس کے شروع ہوتے ہی اپنے لیکچر کے دوران، سائڈ پر رکھی تھی۔لیکچر ختم ہونے کے بعد ہم اس پینٹنگ کے نزدیک جاکر اُسے دیکھ رہے تھے، آفیسر کمانڈنگ نے ہمارا اشتیاق دیکھ کر پوچھا، ”کیسی ہے؟‘‘ ہم نے جواب دیا، ” اچھی ہے مگر سکیچ کے بجائے پینٹگ ہوتی تو خوبصوت ہوتی“۔ آفیسر کمانڈنگ نے کوئی جواب نہیں دیا، ہمیں میجر امیر سلطان، کے پاس کھڑا دیکھ کر شوکت پاریکھ بھی نزدیک آگیا، اور نمبر بنانے کے لئے بولا، ”سر کیا بہترین پینٹنگ ہے“۔ میجر امیر سلطان، نے شورکت پاریکھ کا شکریہ ادا کیا، ہم آگے بڑھ گئے،

جب ہمارا دوسرا ہفتہ شروع ہوا تو شوکت پاریکھ، نے آکر بتایا، کہ میجر امیر سلطان، کہہ رہے تھے کہ میں فری فال ڈائیور ایک خوبصورت آئل پینٹنگ، اپنے آفس کے لئے بنوانا چاھتا ہوں، تو میں (شوکت پاریکھ) نے بتایا، کہ سر، نعیم بھی پینٹگ کرتا ہے۔ اُس سے بنوا لیں، چنانچہ کل وہ تمھیں آفس میں بلوائیں گے، تو میرا بھی کہہ دینا کہ میں بھی پینٹنگ کر لیتا ہوں، تاکہ، میں بھی مشقت سے بچوں۔ کیڈٹس کی زبان میں اسے ”ڈاجنگ“ کہتے ہیں۔ گویا شوکت پاریکھ نے ، صحرا میں کنواں تلاش کر لیا تھا، چنانچہ جاوید انور، شوکت پاریکھ اور میں، تینوں نے مل کر، پیرا سکول کے لئے پینٹگز بنانی شروع کر دیں، شوکت کو ہم نے کینوس، پینٹگ کے لئے تیار کروانا اور پینٹنگ کے فریم بنانا سکھایا، میں اور جاوید انور پینٹگز میں مشغول ہوگئے، ہمارے لئے گرم گرم پکوڑے اور چائے بن کر آتی تو ہم سب کام چھوڑ چھاڑ کر، گل چھرے اُڑانے میں مشغول ہوجاتے،

ہاں تو ذکر ہو رہا تھا، ماہر ”جمپاکو“ کا وہ ہماری مصّوری کی مشغولیت کی وجہ سے ہم سے پہلے ٹاور پر گئے۔ اتفاقاً ہم پانی پینے باہر نکلے، تو وہ ٹاور کے گیٹ پر کھڑے تھے، حالت یہ کہ ٹانگیں خوف سے لرز رہی تھیں، چھلانگ لگانے کے لئے، TAP ملی، وہ کھڑے رہے
سٹاف نے پوچھا، ”صاحب، کھڑے کیوں ہیں“


وہ کھڑے رہے سٹاف نے پوچھا، ”صاحب، کھڑے کیوں ہیں
تو بولے ”سٹاف ذرا اچھی ٹیپ دیں
پھر دوسری، جنٹل ٹیپ بذریعہ ہیل ملی، انہوں نے دایاں پاؤ ں باہر نکالا اور ریزرو پیرا شوٹ کو کسی نومولود بچے کی طرح کود میں پکڑے ہوئے سلو موشن میں چھلانگ لگائی، جس کے نتیجے، میں دونوں ٹانگیں ایک دوسرے سے نوے درجے کے زوایئے سے زیادہ کھل گئیں، یہ نہ سمجھئے کہ ہم بہت بڑے '' رستم '' ہیں، بس اپنے خیالات کی ہوا نہیں لگنے دیتے ۔


ہم بھی ٹاور پر گئے آواز لگی ”فور جمپر رائٹ ڈور“ ۔ کیوں کہ ہم سب سے آگے تھے، ”فور جمپر رائٹ ڈور“ کہتے ہوئے ٹاور گیٹ کی طرف بڑھے، چھلانگ لگانیے کی پوزیشن لی، نیچے نظر ڈالی، تو ساری شوخی غائب ہو گئی، یوں لگتا تھا کہ، ہمیں بتائے بغیر ٹاور سو فٹ اونچا کردیا گیا ہے، اونچائی سے نیچے کھڑے ہوئے آدمی کا سر اور بس بوٹ نظر آتے تھے اور اس کے گرد پختہ کنکریٹ کا فرش۔ خوف کی لہریں بجلی کی رفتار سے، سر سے پیر تک اور پیر سے سر تک جاتیں، مارے خوف کے گھگھی بند گئی،

جب سٹاف بولا ، " نعیم۔صاحب نمبر " تو اپنا نمبر بتانے کے بجائے سامنے کھڑے ہوئے ساتھی کا نمبر پکار بیٹھے،
”نعیم صاحب، ہیلمٹ اتاریں اور اپنا نمبر پڑھیں“۔ یہ سنا تو اپنا نمبر یاد آگیا،
” ٹو ایٹ“ ہم زور سے بولے ۔
آواز آئی، ” ٹو ایٹ، ریڈی ٹو جمپ“۔
” ٹو ایٹ، ریڈی سر“ ۔ہم نے تھوک نگلتے جواب دیا ۔
کولہوں پر ایک چپت پڑی ” جمپ“
ہمیں سٹاف نے پورا یقین دلایا گیا تھا،”نعیم صاحب، پیرا شوٹ کے ایک ہارنیس سے اگر جیپ لٹکا دی جائے تو پھر بھی وہ نہیں ٹوٹے گا، اور اس کے چاروں ہارنیس جس سے پیرا جمپر لٹکتا ہے۔ ایک ٹرک کو اٹھا کر امریکہ جاسکتا ہے“۔
گو کہ ہمیں اس بات پر یقین کامل نہیں تھا، بالکل اس، بنیئے کی طرح جس نے اپنے دس سالہ بچے کو دیوار پر کھڑا کر کے کہا۔”اے جوبیر چھلانگ لگا“ ۔
”باپو، گر جاؤں گا“ بچہ ڈرتے ہوئے بولا،
باپ نے تسلی دی،”ابے میں ہوں نا، کاہے کا ڈر“
اور بچے نے چھلانگ لگائی پیر تڑوا بیٹھا۔
باپ بولا، ”پیلا اور آخری سبق، بجنس میں کبھی باپ پر بھی بھروسہ نہ کرنا“۔

اور ہم نے اپنی زندگی کی پہلی تاریخی جمپ سطح سمندر سے بے اندازہ بلند ٹاور سے کلمہ پڑتے ہوئے لگا دی، ایک زور دار جھٹکا لگا، ہمارا سر بجائے ٹھوڑی کو سینے پر لگانے کے، پیچھے کی طرف نکل گیا، ٹھوڑی کا رخ آسمان کی طرف ہو گیا، شائد ملائکہ نے سمجھا ہوگا کہ بندہ ءبشر، غیبی امداد کا طلبگار ہے، بس ہم نیچے کی طرف جا رہے تھے، کسی شہاب ثاقب کی طرح زمین سے ٹکرانے، ہمیں احساس ہو کہ زمیں پر گر کر دھماکہ کرنے سے پہلے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق گنتی گن لی جائے، تاکہ معلوم ہو، کہ کشش ثقل زیادہ ہے یا ہماری ٹاور کے مدار سے نکل کے زمیں کے مرکز میں داخل ہونے کی،
چنانچہ ہم نے فورا، ون تھاؤزنڈ، ٹو تھاؤزنڈ، تھری تھاؤزنڈ ابھی ادا ہونے کے مراحل میں تھا کہ ہمارے پاؤں کسی سخت چیز سے ٹکرائے، تو معلوم ہوا کہ ہم، ٹیلے پر کھڑے ہیں۔
کل آٹھ جمپوں میں سے چھ کامیاب جمپ لگا کر ہم نے ٹاور کلئیر کر لیا، ٹاور کلئیر ہونے کے بعد انتظار کی گھڑیاں طویل ہونے لگیں۔ تیسرے دن، ہم پشاور ایر پورٹ پر پہنچے اور ایپرن پر بیٹھ گئے، ہر منٹ بعد، نگاہیں آسمان پر ایر فورس کے جہاز "
سی ون تھری زیرو" ہرکولیس کو تلاش کرتیں،کبھی خبر ملتی کی جہاز آرہاہے اور کبھی نہیں کا مژدہ سنایا جاتا،
AIR BORNE
کے نعروں میں وہ گونج نہیں ہوتی، جو پہلے سنائی دیتی تھی، چار بجے تک بیٹھنے کے بعد واپس بیرکوں میں آگئے، دعائیں مانگنی شروع کردیں کہ کل جہاز آجائے ہماری دعائیں رنگ لائیں شام کو جہاز آنے کی خوشخبری ملی، دوسرے دن صبح گاڑیوں میں بیٹھ کر ائرپورٹ پہنچے، دل میں خوشی کے لڈو پھوٹ رہے تھے۔ گروپس بنائے گئے،
سٹاف نے پوچھا، ”سٹک لیڈر کے لئے کون والنٹیئر ہے"۔ ہم نے فوراً ہاتھ اٹھایا۔ جہاز میں سوار ہوئے، AIR BORNE
کے نعروں نے جسم میں تھر تھراہٹ پیدا کرنا شروع کر دی،
جہازٹیکسی کر کے رن وے پر آیا۔اور جب دوڑنا شروع ہوا، تو جہاز میں نعرے لگنے لگے ،
AIR BORNE AIR BORNE AIR BORNE AIR BORNE AIR BORNE
جہاز نے جمپنگ گراونڈ کا چکر لگایا، واپس مڑا،

آواز آئی، ”جمپر ریڈی“۔ پھر آواز آئی، ” سٹینڈ اپ اینڈ ہک اپ“۔ ہم کھڑے ہوئے، کیبل میں پیرا شوٹ کا ہک پھنسایا، تو لوڈ ماسٹر نے دونوں دروازے کھولے، ایک ہزار تیس سو فیٹ پر دورازے کھلتے ہی اچھل کود کرنے والا دل خاموش ہو کر نامعلوم خوف سے ایک کونے میں دبک کر بیٹھ گیا، جسے کوئی شرارتی بچہ، شرارتیں کرتا ہوا پٹائی کے خوف سے اچانک خاموش ہوجائے، وقت آہستہ آہستہ کم ہو رہا تھا۔ لب بند آنکھیں سوالیہ نشان سامنے دیکھ رہی تھیں اور دماغ پڑھائے اور سکھلائے ہوئے سبق کو دھراتے ہوئے آنے والے لمحات کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ اچانک ایک لرزیدہ آواز انجنوں
کے شور میں سنائی دی، What are YOU ?
جس کی باز گشت میں مکھیوں کی بھنبھناہٹ گونجیAIR BORNE
، جمپ ماسٹر، دونوں دوازوں میں کھڑے ہوگئے، ”سٹک ایڈوانس ، لیڈر ان دی ڈور“ پوری سٹک، آگے بڑھی، ہم دروازے میں پوزیشن لے کر کھڑے ہوگئے۔ جمپ ماسٹر نے پیچھے سے ہمارے ہارنس پکڑے ہوئے تھے، پائلٹ کے حکم کا انتظار تھا،

کیا خوبصورت نظارہ تھا، دور پی اے ایف بڈا بیر کی خوبصورت قطار در قطار عمارتیں نظر آرہی تھیں۔ جہاز کی لینڈنگ گراونڈ کی طرف راہنمائی کے لئے، نیچے غلط سمت میں پھینکے گئے دھوئیں کے گولے کی وجہ سے پائلٹ نے جہاز کو دوبارہ پوزیشن میں لانے کے لئے موڑا، پورا پشاور شہر نظر آنے لگا، نیچے سڑکوں پر چلتی گاڑیاں، رکشے یہاں تک کہ انسان بھی نظر آرہے تھے کیوں کہ جہاز زمیں سے چودہ سو فٹ کی بلندی پر ہوا میں تیر رہا تھا، جہاز پوزیشن میں آیا، ہمیں الرٹ کرایا گیا، جونہی جہاز لینڈنگ زون میں پہنچا، جمپ ماسٹر کے حکم پر میں نے چھلانگ لگائی اور اس کے بعد باری باری سب نے چھلانگ لگائی، پیرا شوٹ کو کھلتے دیکھنے کے لئے میں نے تھوڑی سینے سے سے لگانے کے بجائے، گردن اٹھا کر سامنے کی طرف دیکھا، Jumping Rope سبز رنگ کا پیرا شوٹ،
سے جدا ہو کر، جہاز کے جیٹ کی ہوا سے، آہستہ آہستہ کھلتا ہوا سر کی طرف جا رہا تھا، پھر اس بڑی سے چھتری نے ہمیں سنبھال لیا، اور ہم چونتیس فٹ فی سیکنڈ کے حساب سے زمیں پر اترنے لگے، گردن گھمائی، جہاز کے پیٹ سے چھتریاں نکلتی دکھائی دیں ہمارے پیچھے اور بائیں طرف سبز چھتریوں کی ایک لائین نظر آرہی تھی، اور فضا میں، ”ایر بورن“ کے نعرے گونج رہے تھے،

ہمارے پیچھے وقار، عثمان اور جاوید انور نے جمپ لگائی تھی ہم ایک دوسرے کو پکار پکار، ہدایتیں دے رہے تھے کیوں کہ زمین قریب آرہی تھی اور ہمارے پیرا شوٹ، زمین پر نالے کی طرف بڑھ رہے تھے۔ ساری خوشی کافور ہو گئی، ہر پڑھائی آزمائی ،پیرا شوٹ کا رخ تبدیل کرنے والی رسیاں کھینچیں ، شائد اس کا رخ تبدیل ہوجائے، مگر غالباً وہ ہمیں غوطہ لگوانے کا پورا تہیّہ کئے ہوئے تھا، ”جل تو جلا تو، آئی بلا کو ٹال تو “ کاورد کرتے ہوئے ہم چھپاک سے نالے میں گرے، ابھی اٹھنے کی کوشش کر رہے تھے کہ پیرا شوٹ نے ہمیں نالے سے باہر کھینچ لیا، ہم نے قلابازیاں کھانے سے خود کوبچایا، اور پیر ا شوٹ کے ساتھ دوڑنے لگے، دوڑتے ہوئے، جیب سے کھینچا جانے والا سبق یاد آیا، فوراً کندھے پر ہاتھ لے جا کر، پیر اشوٹ سے خود کو آزاد کیا۔پیرا شوٹ کو تہہ کیا کمر سے لٹکے ہوئے بیگ میں ڈالا اور گاڑیوں کے پاس آکر زمین پر بیٹھ گئے۔ سب آنے والے اپنے اپنے، خیالات بتا رہے تھے۔
دوسرے دن پھر، جہاز میں بیٹھے، اس دفعہ، سٹک لیڈر نہیں بنا یا گیا چنانچہ مجمع عام کے ساتھ مل کر جمپ لگائی، اس دفعہ، بڑے سکون کے ساتھ پیرا شوٹ نے تعاون کیا کیوں کہ آج ہوا نہیں تھی۔ ہم مزے لیتے ہوئے بڑے آرام کے ساتھ اترے، پیرا شوٹ لپیٹا اور گاڑیوں کی طرف آگئے۔ شام کو معلوم ہوا کہ، جہاز میں جس کیبل کے ساتھ، جمپر۔ پیرا شوٹ کو ہک ان کر کے جہاز سے زندگی کا رشتہ جوڑتے ہیں وہ ٹوٹ گئی ہے۔ ع
جس شاخ پہ نشیمن کی بنیاد رکھی ۔ وہی شاخ تقدیر نے توڑ ڈالی

جمپر جمپ لگا رہے تھے لہذا، کیبل اپنے ایک کلو وزنی سپورٹ کے ساتھ ُاکھڑ ی اور ایر فورس کے لوڈ ماسٹر مقبول، کے سر سے ٹکرا کر اسے عازم فردوس کردیا، جب تک جمپ ماسٹر نے جمپرز کو روکنے کی کوشش کی چھ جمپر نکل چکے تھے، ان کے پیرا شوٹ کیبل سپورٹ ہک میں پھنس کر ، جہاز سے جدا ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے، ایئر فورس کا جہاز ہر کولیس واپس چلا گیا اور ساتھ ہی ہمارا پیرا ونگ بھی لے گیا ، تین جمپ جو باقی رہ گئے تھے اگر ہم لگا لیتے تو پر ہم بھی دائیں سینہ کچھ زیادہ نکال کر اکیڈمی کی سڑکوں پر چلتے ۔
قسمت کی خوبی دیکھئے ٹوٹی کہاں کمند ۔ دو چار ہاتھ جب کہ لب بام رہ گیا۔
واپس کاکول لوٹے، سینئرکیڈٹس کے سینوں پر ”پیرا ونگ“ سجا دیکھ کر ہمیں غشی کے دورے پڑتے، جن کورس میٹس نے پیرا کورس پر چھٹیوں کو ترجیح دی تھی وہ ہمارا کھلے عام ببانگ دہل مذاق اڑاتے اور طنزیہ سوال کرتے،”تمھارے پاس اس بات کی کیا نشانی ہے کہ تم پیرا کرنے گئے تھے یا پشاور کا چکر لگانے یا تم سکریننگ میں ہی نکال دئیے گئے ہو گے۔ ہمیں مرعوب کرنے کے لئے کہتے ہو ، ہم پیرا ونگ لینے گئے تھے ، آہ ! اور Terror بغیر T کے بننے کی کوشش مت کرو ، پیرا ونگ لینا آسان کام ہے ۔

ایسا طنز، دشمن بھی کسی انسان سے نہ کرے جو ہمارے دوست ہم سے کرتے، یہ سب پطرس کے دوستوں کی حدیں، پھلانگنے والے دوست ہیں۔ ان دوستوں کی موجودگی میں انسان دشمن کیسے پال سکتا ہے؟
کبھی غور کیا آپ نے ؟
لے دے کے ہم وہاں سے تسموں کی ایک جوڑی لائے، کہ چلو بھاگتے چور کی لنگوٹی سہی، مگر وہ بھی ٹرم کمانڈر نے پہننے سے منع کردیا۔ اب آپ ہی بتائیں۔ کہ، ع۔ کس کس سنائیں ہم اس دکھ کا افسانہ۔
چھٹیاں ضائع کیں۔ نظام انہضام کا کباڑا کروایا، کہنیاں اور گھٹنے چھلوائے۔ تشریف پر کرہ ارض کی ضربیں برداشت کیں، کیا کیا پاپڑ نہیں بیلے؟ مگر اس کے باوجود بھی داد رسی محفل ِ یار میں نہ ہوئی، اب صبر کر کے یہی کہتے ہیں
ع، یہ نہ تھی ہماری قسمت۔۔۔۔۔۔ ۔

 

Khalid.Naeemuddin
About the Author: Khalid.Naeemuddin Read More Articles by Khalid.Naeemuddin: 92 Articles with 122036 views My Blog:
http://ufaq-kay-par.blogspot.com/

My Face Book Link:
https://www.facebook.com/groups/tadabbar/

" أَفَلاَ يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَ
.. View More