معمولی سی بات ہے چھوٹی سی بات ہے لیکن اس بات نے مجھے
کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا بس یونہی بیٹھے بیٹھے اچانک یاد آگئی شاید جب
نہیں کر سکا کوئی تو اب ہی کر سکے کوئی تقلید میرے عمل کی تائید میری بات
کی-
غالباً ١٩٩٩ کی بات ہے میں سالِ سوئم کی طالبہ تھی دراصل تو اس وقت مجھے
اگر تعلیم کا سلسلہ منقطعہ ہ ہوتا تو ماسٹرز کی ڈگری حاصل کر کے شاید کہیں
لیکچرشپ حاصل کرنے کی سعی کر رہی ہوتی کیونکہ یہی میرا شوق بھی تھا مگر
وائے قسمت کہ ۔۔۔“یہ نہ تھی ہماری قسمت“ بہرحال اب اپنی آٹو بئیوگرافی تو
یہاں نہیں لکھنی بس ایک چھوٹا سا واقعہ بتانا ہے معذرت کہ تمہید ذرا طویل
ہو گئی ہے-
جی تو میں کہہ رہی تھی میں سال سوئم کی طالبہ تھی تو ہمارے کالج میں سالِ
چہارم کی الودٰاعی پارٹی کے انتظامی گروہ میں جن طالبات کا نام تھا ان میں
ایک میں بھی تھی کمرہء جماعت کی آرائش و زیبائش سے لے کر اشیائے خورد و نوش
کی ذمہ داریاں ہمیں پورا کرنا تھیں تمام اشیا بطور امانت ہمارے سپرد تھیں
اور ہمیں ایمانداری سے انہیں پورا کرنا تھا یہی بات میرے ذہن میں تھی ہر
کام خوش اسلوبی سے محنت سے خلوص سے پر جوش ہو کر سر انجام دے رہی تھیں تمام
لڑکیاں-
عموماً ایسے مواقع پر لنچ باکس کا انتظام کیا جاتا ہے لیکن ہم نے ٹیبل پر
پلیٹوں میں ترتیب سے سجا کر تمام مہمانوں کی مہمان نوازی کرنا تھی تمام
انتظامات خوش اسلوبی سے سرانجام دینے کے بعد جب مرحلہ کھانے پینے کی اشیا
کی سرونگ کا مرحلہ آیا تو خوشی اور جوش دیدنی تھا ہم میں سے ایک لڑکی نے ہر
ایک آئیٹم کو پہلے خود کھایا اور پھر پلیٹوں میں سجایا-
اتنے دلکش لوازمات دیکھ کر گویا نیت بدل گئی منہ میں پانی بھر آیا اور
فراموش کر بیٹھیں موصوفہ کے یہ امانت ہے اور اس میں ہمارا حصہ بھی اتنا ہی
ہے جتنا باقی تمام لڑکیوں کو تو کیا ہوا کہ ہم انتظامیہ ہیں انتظمہی میں سب
نے اپنی خوشی اور مرضی سے بنا کسی ذاتی فائدے یا شرائط سے بالاتر ہو کر نام
دیا تھا کسی لالچ کے تحت نہیں کے امور ہمار ذمے ہوں تو ہمم ڈبل حصہ ک حقدار
بن جائیں-
ان موصوفہ کو دیکھتے ہوئے دیگر نے بھی اس عمل کی تائید کرتے ہوئے ان کی روش
کو اپنا بھی حق سمجھتے ہوئے تقلید شروع کر دی-
ہاں یار کوئی حرج نہیں اتنا کچھ تو ہے یقیناً بچے گا بہت سا سامان کوئی فرق
نہیں پڑتا اگر ہم تھوڑا سا کھالیں گے تو کچھ نہیں ہوتا -
یہ دیکھ کر مجھ سے نہیں رہا گیا اور میں نے کہا نہ کرو لڑکیوں یہ ٹھیک بات
نہیں امانت ہے میری بات کو نظر انداز کرت ہوئے مجھے بھی کھلانے لگیں یہ
کہتے ہوئے کہ یار کچھ نہیں ہوتا لو تم بھی کھاؤ بہت مزے کا ہے اور ایک
پیسٹرے اٹھا کے میرے پاس لے آئی لین مجھے سے یہ گواراہ نہیں ہوا اور میں نے
کہا نہیں میں نہیں کھا سکتی ابھی کچھ بھی ہمیں اپنا کام مکمل کرنا چاہئیے
جو میرا حق ہے مجھے بس وہی چاہئیے اپنے وقت پہ یہ امانت ہے اس مین خیانت آپ
بھی نہ کریں کوئی اللہ تو دیکھ رہا ہے کسی کو پتہ چلے نہ چلے
مگر نہیں جی کہاں دیکھائی دیتا ہے کچھ کھانے کے آگے کہاں سنائی دییتی ہے
پھر کوئی اور آواز نہیں سنی کسی نے میری بات اور نہ حمایت کی میری صحیح بات
کی جبکہ غلطی کرنے والی پہلی لڑکی کے عمل کو دہراتے ہوئے سب امانت میں
خیانت کے عمل کی تقلید کرتی رہیں جب کہ ساس مال میں ان کا بھی حصہ ہونا
چاہئیے جنہیں ہم خاص طور پہ ایسے مواقع پر نظر انداز کر دیتے ہیں جو بھی
اضافی سامان تھا وہ کالج کے صفائی کرنے والے اور دیگر عملے میں تقسیم کرنا
چاہئیے تھا نہ کے پاڑتی شرعو کرنے سے پہلے کھا بھی لینا اور اپنے بیگ میں
رکھ ھکر ساتھ گھر بھی لے جانا یہ کیا عمل ہے ۔۔۔؟
او نہیں یار کچھ نہیں ہوتا لو تم بھی کھاؤ بہت ٹیسٹی ہے یہ کہتے ہوئے اپنی
اپنی پسند کی چیزیں ساتھ ساتھ کھاتی رہیں ساتھ ساتھ سمیٹتی رہیں اور میں
روکتی ٹوکتی کہتی رہ گئی کوئی ایک تو میری بات کی تائید کرے کوئی ایک تو
میرے عمل کی تقلید کرے ندارد میادہ حصہ وصول کیا اور وہ جو حقدار تھے ان کے
لئے کچھ نہ بچا صفائی کرنے والا عملہ اور دیگر ان کو دیا جانا چاہئیے تھا
یہ حصہ اصولی طور پر مگر اپنے حق سے بڑھ کر حصہ وصول کرنے کے لالچ نے کسی
کا ہاتھ نہیں روکا سب نے مزے کئے اور میں ششدر رہ گئی یہ دیکھ کر ایک بات
میرے ذہن میں آئی کیا اسی طرح انسان برائی کے پیچھے لپکتا اور اچھائی سے
روگردانی برتتا ہے محض اپنے ذات فائدے کے لئے ایک کو خیانت کرتا دیکھ کے
روکنے کی بجائے خود بھی خیانت کی روش اختیار کرتا چلا جاتا ہے یوں انصاف کی
جگہ بے انصافی پنپتی ہے مساوات کی جگہ حق تلفی حقدار حق سے محروم رہتا ہے
اچھا کرنے والے کی تقلید آتے میں نمک کے برابر جب کے برائی کی تقلید نمک
میں آتے کے مترادف اس قسم کی سوچ اور عمل بھی معاشر ے میں بگاڑ کا ایک سبب
ہے اگر سمجھا جائے تو
ذرا سوچئے کیسے ملک میں عدل و احسان، ایثار و مساوات قائم ہو سکے گی-
دوسروں کا احساس دوسروں کے لئے ایثار و قربانی کا جزبہ کیسے بیدار ہوگا جب
افرادِ قوم کا طرز عمل یہ ہوا تو۔۔۔؟
صحیح بات کرنے والے کی مخالفت اور غلطی پر چلنے والوں کی تقلید کے عمل سے
ہی برائی پھیلتی جارہی ہے معاشرے میں اور اچھائی بہ نسبت کم دِکھائی دیتی
ہے اچھائی کی تقلید کو لوگ حماقت جب کہ برائی کی تقلید سے وقتی فائدہ جو کہ
دراصل خسارہ ہے کو دانشمندی سمجھتے ہیں۔۔۔ کیا ایک مسلمان کا یہی طرز فکر و
عمل طرز تائید ، تردید یا تقلید ہونا چاہئیے۔۔۔؟
دل یہی سوچ کر پریشان ہوتا ہے کہ چھوٹی سظح سے لیکر بڑی سطح تک بھی کیا یہی
عمل ہوتا رہتا ہے برائی کی تقلید اور اچھائی کی تردید کا۔۔۔؟
اس بات کو یاد کر کے آج بھی میرے ذہن میں یہ خیال آتا ہے
“کاش کوئی ایک تو میری تقلید کرتا“ |