قرآن مجید نے بعض انبیاء کرام علیہم السلام کے ایام
ولادت کا تذکرہ فرما کر اس دن کی اہمیت و فضیلت اور برکت کو واضح کیا ہے :
-
1۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے حوالے سے ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَسَلاَمٌ
عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا ’’اور
یحییٰ پر سلام ہو، ان کے میلاد کے دن اور ان کی وفات کے دن اور جس دن وہ
زندہ اٹھائے جائیں گے - اپنے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت
کا ذکر مبارک قسم کے ساتھ بیان فرمایا - لَا أُقْسِمُ بِهَذَا الْبَلَدِO
وَأَنتَ حِلٌّ بِهَذَا الْبَلَدِO وَوَالِدٍ وَمَا وَلَدَO ’’میں اس شہر
(مکہ) کی قَسم کھاتا ہوںo (اے حبیبِ مکرّم!) اس لیے کہ آپ اس شہر میں تشریف
فرما ہیںo (اے حبیبِ مکرّم! آپ کے) والد (آدم یا ابراہیم علیہما السلام) کی
قَسم اور (ان کی) قَسم جن کی ولادت ہوئی‘‘ اگر ولادت کا دن قرآن و سنت اور
شریعت کے نقطہ نظر سے خاص اہمیت کا حامل نہ ہوتا تو اس دن پر بطور خاص سلام
بھیجنا اور قسم کھانے کا بیان کیا معنی رکھتا ہے؟ لہٰذا اسی اہمیت کے پیشِ
نظر اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں بہت سے انبیاء کرام علیہم السلام
کے میلاد کا ذکر فرمایا ہے۔ بطور حوالہ ذیل میں چند جلیل القدر انبیاء
علیہم السلام کے میلاد کا تذکرہ کیا جاتا ہے -
وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلاَئِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ
خَلِيفَةً. ’’اور (وہ وقت یاد کریں) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ
میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔‘‘ سورۃ القصص کا آغاز ہی قصۂ موسیٰ
و فرعون سے ہوا ہے جو کہ 50 آیات مبارکہ پر مشتمل ہے۔ پہلے 5 رکوعات مسلسل
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے وقف ہیں۔ ذیل میں ہم میلاد نامۂ موسیٰ علیہ
السلام کے ضمن میں سورۃ القصص کی ابتدائی 14 آیات میں باری تعالیٰ نے ان کی
پیدائش سے لے کر جوانی تک کا ذکر بڑے بلیغ انداز سے کرتے ہوئے اُمت مسلمہ
کو یہ پیغام دیا ہے کہ اپنے محبوب بندوں کا میلاد پڑھنا میری سنت ہے- تفصیل
کے لئیے سورۃ القصص دیکھیں ۔ ان چودہ آیاتِ بینات میں اللہ تبارک و تعالیٰ
نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے کے حالات، ان کی پیدائش، ان
کے بہ اَمرِ الٰہی صندوق میں ڈالے جانے، پھر فرعون کے محل میں پرورش پانے
اور رضاعت کے لیے ان کی والدہ کی طرف لوٹائے جانے اور پھر جوانی اور بعثت
یعنی ایک ایک چیز کا بیان ہوا۔ اور یہی ’’میلاد نامۂ موسیٰ علیہ السلام ‘‘
ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام پاک کی زینت بنایا۔ للہ تعالیٰ نے قرآن
مجید میں حضرت مریم علیھا السلام کا میلاد نامہ بھی بیان کیا ہے جو اگرچہ
پیغمبر نہیں لیکن ایک برگزیدہ پیغمبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ
ماجدہ اور ایک پاک باز ولیۂ کاملہ تھیں۔ ان کا میلاد نامہ بیان کرتے ہوئے
اللہ تبارک و تعالیٰ نے سب سے پہلے بعض انبیاء علیھم السلام اور ان کی نسل
کی فضیلت بیان کی۔ یہاں کوئی اِعتراض کر سکتا ہے کہ قرآن حکیم نے تو صرف
گزشتہ واقعہ بیان کیا ہے، آپ اسے میلاد نامہ کیسے قرار دے رہے ہیں؟ یہ
اِعتراض کرنے والوں کو جان لینا چاہیے کہ جو چیز فقط تعلیم و تربیت اور
رُشد و ہدایت کی غرض سے بیان کی جاتی ہے اُس کی حدود و قیود ہوتی ہیں۔ جو
بات جس حد تک مضمون سے متعلق ہو اتنی بتائی جاتی ہے اور غیر متعلق بات کو
کم اَز کم کلامِ اِلٰہی میں جگہ دینے اور صحیفہ اِنقلاب کا مضمون بنانے کا
کوئی جواز نہیں۔ حضرت مریم علیھا السلام کی ولادت سے متعلق ذیل میں دی گئی
آیات اور ترجمہ پر غور کریں، خود بخود پتہ چل جائے گا کہ یہ نفسِ مضمون کسی
تعلیم و تربیت اور رُشد و ہدایت کے لیے نہیں بلکہ فقط ولادت کا قصہ بیان ہو
رہا ہے جسے ہم بجا طور پر میلاد نامہ کا نام دے رہے ہیں۔
اور (یاد کریں) جب عمران کی بیوی نے عرض کیا : اے میرے رب! جو میرے پیٹ میں
ہے میں اسے (دیگر ذمہ داریوں سے) آزاد کر کے خالص تیری نذر کرتی ہوں، سو تو
میری طرف سے (یہ نذرانہ) قبول فرمالے، بے شک تو خوب سننے والا خوب جاننے
والا ہےo پھر جب اس نے لڑکی جنی تو عرض کرنے لگی : مولا! میں نے تو یہ لڑکی
جنی ہے، حالاں کہ جو کچھ اس نے جنا تھا اللہ اسے خوب جانتا تھا، (وہ بولی :
) اور لڑکا (جو میں نے مانگا تھا) ہرگز اس لڑکی جیسا نہیں (ہوسکتا) تھا (جو
اللہ نے عطا کی ہے)، اور میں نے اس کا نام ہی مریم (عبادت گزار) رکھ دیا
ہے، اور بے شک میں اس کو اور اس کی اولاد کو شیطان مردود (کے شر) سے تیری
پناہ میں دیتی ہوں ( آل عمرآن ) یہ حضرت مریم علیھا السلام کی ولادت کا
حسین تذکرہ ہے جسے اللہ رب العزت نے بیان فرمایا۔ اگلی آیات میں ان کے بچپن
کا بیان ہے جب وہ حضرت زکریا علیہ السلام کے سایہ عاطفت میں پرورش پانے
لگیں۔ اس دوران میں اللہ رب العزت نے ان پر جو نوازشات کیں اور بے موسم پھل
عطا فرمائے اُن کا تذکرہ ہے۔ اُن کی قیام گاہ کو وسیلہ بناتے ہوئے حضرت
زکریا علیہ السلام نے اللہ رب العزت سے اولادِ نرینہ کی دعا کی اور اللہ
تبارک و تعالیٰ نے انہیں حضرت یحییٰ علیہ السلام کی بشارت عطا فرمائی -
اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں حضرت یحییٰ علیہ السلام کا میلاد نامہ بھی
تفصیل سے بیان فرمایا ہے۔ جب ان کے والد گرامی حضرت زکریا علیہ السلام نے
حضرت مریم علیھا السلام کی پرورش کے دوران توسلِ مکانی کرتے ہوئے حجرۂ مریم
علیھا السلام میں کھڑے ہوکر دعا کی - سورہ مریم کا پہلا پورا رکوع میلادِ
یحییٰ علیہ السلام کے بیان کے لیے وقف ہے، جس میں پہلے ان کے میلاد کا ذکر
ہے کہ کیسے ان کے والد گرامی حضرت زکریا علیہ السلام نے ان کی ولادت کے لیے
عالمِ پیری میں دعا کی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں حضرت یحییٰ علیہ السلام
کی ولادت کی خوش خبری سنائی۔ جب انہوں نے تعجب کا اظہار کیا تو اﷲ تعالیٰ
نے اپنی قدرت کا بیان فرمایا۔ الغرض حضرت یحییٰ علیہ السلام کی ولادت کے
وقت اﷲ تعالیٰ اور اس کے محبوب پیغمبر کے درمیان جو مکالمہ ہوا قرآن کریم
نے تفصیل سے بیان کیا۔ پھر حضرت یحییٰ علیہ السلام کے روحانی مقامات اور
سیرت کے چند خصوصی گوشوں کا بھی تذکرہ کیا۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کی
ولادت سے آغاز کرکے ان کی سیرت کے مختلف پہلو بیان کرنے کے بعد بات ان کے
یومِ میلاد، یومِ وصال اور یومِ بعثت (قیامت کے دن اٹھائے جانے) پر سلام کے
ساتھ ختم کی۔ قرآن حکیم کا ان جزئیات کو بیان کرنے کا مقصد صر ف ایک
برگزیدہ نبی حضرت یحییٰ علیہ السلام کی ولادت کی اہمیت کو اجاگر کرنا اور
پڑھنے والوں کے ذہنوں میں اسے جاگزیں کرنا ہے۔ حضرت مریم علیھا السلام کے
میلاد نامہ کے بعد ان کے فرزند حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا میلاد نامہ بھی
قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے۔ سورۂ مریم کا ایک مکمل رکوع میلاد نامۂ
عیسیٰ علیہ السلام پر مشتمل ہے جس میں ان کی ولادت سے قبل ان کی والدہ
ماجدہ کو بیٹے کی خوش خبری دی گئی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کا ذکر
کرتے ہوئے حسبِ سابق چھوٹی چھوٹی جزئیات بھی بیان ہوئیں کہ کس طرح جبرئیل
امین علیہ السلام آئے اور انہوں نے روح پھونکی اور حضرت مریم علیھا السلام
اُمید سے ہوئیں۔ وضعِ حمل کے وقت حضرت مریم علیھا السلام کو تکلیف ہوئی،
قرآن کریم نے ان کی اس تکلیف کا بھی ذکر کیا اور بہ تقاضائے نسوانیت ان کا
شرمانا بھی بیان فرمایا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے جب وہ خلوت گزیں
ہوگئیں تو اس کا بھی ذکر کیا۔ پھر یہ بیان کیا کہ کس طرح تکلیف کو رفع کرنے
کے لیے اللہ تعالیٰ نے چشمے کا شیریں پانی مہیا کیا، تازہ کھجوریں دیں جن
کے کھانے سے تکلیف دور ہو گئی۔ عین لمحۂ ولادت کا ذکر کیا۔ ولادت کے بعد جب
وہ نومولود کو اٹھا کر اپنی قوم کے پاس لے گئیں اور انہوں نے طعنے دیئے، ان
طعنوں کا ذکر کیا اور طعن و تشنیع کے جواب میں پنگھوڑے میں حضرت عیسیٰ علیہ
السلام کے کلام کرنے کا ذکر کیا۔ ان انبیاء کرام علیھم السلام کے میلاد
نامے بیان کیے جن کا میلاد خواں خود خدائے رحمان ہے۔ قرآن مجید کے حوالے سے
ان انبیاء کرام علیھم السلام کے میلاد نامے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ
انبیاء کرام علیھم السلام کی ولادت کے واقعات، ان کے کمالات و برکات اور ان
پر رب کریم کی عنایات کا ذکر کرنا سب سنتِ الٰہیہ اور ان کا بار بار دہرانا
قرآنِ مجید کا منشاء ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم سے پہلے انبیاء کرام کا ذکر تو قرآن مجید میں آیا ہے، کیا
حضور علیہ السلام کی ولادت کا ذکر بھی قرآن مجید میں ہے؟ اس کا جواب اثبات
میں ہے۔ جو انشاءالله آئندہ بیان کروں گا ( جاری ہے )
|