ایک ہی سب کا نبیؐ

فرقہ پرستی، عقیدہ پرستی، مسلک پرستی، ذات پرستی، امارت پرستی، کلچر پرستی اور علاقہ پرستی جیسی ناسور کے پرستاروں نے خود اپنی ہتک اور سُبکی کے سامنے گھٹنے ٹیک کر پوری انسانیت کو ہلاکت کے دہانے پر ڈال دیا ہے۔ پرستارانہ ماحول اور مزاج نے ہرقوم، ہرمسلک اور ہر خطے کے افراد کی روح کو دیمک کی طرح چاٹ کر کھوکھلا کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک دوسرے کا جب سامنا ہوتا ہے، تو ہر ایک کے اقوال وافعال سے تفرقہ بازی کے تئیں نفرت ظاہر ہوتی ہے؛ لیکن دل کے نہاخانوں میں کچھ اور ہی بسا ہوتا ہے۔ اگر یہی صورت حال رہی، تو قوم وملت کا کباڑا ہو جائے گا اور پھر کف ِافسوس ملنے کے سوا کچھ بھی باقی نہ رہے گا۔ لہذا مسلمانوں کے موجودہ حالات کے پیش نظر ضرورت ہے مذکورہ تمام پرستیوں کو چھوڑ کر ایک بنیؐ کی امت بن کر آپسی رواداری اور بھائی چارگی کو حقیقی اور عملی جامہ پہنانے کی، تاکہ سارے اختلاف وانتشار، نفرت وعناد اور بغض وعداوت کا خاتمہ ہوسکے اور اسلام دشمن عناصر کو کیفر کردار تک پہنچایا جاسکے۔

وحدانیت کا پیغام انسانیت کے نام
یہ ایک حقیقت ہے کہ آفتاب اسلام کی ضیاپاشیوں سے قبل سر زمین ِ عرب پر جہالت وتاریکی چھائی ہوئی تھی اور نہ صرف عرب بلکہ دنیا کا گوشہ گوشہ تاریک اور چپہ چپہ تیرہ وتار ہورہا تھا۔ دنیا حق پرستی کے نام سے نا آشنا ہوچکی تھی، کرۂ ارض کی تمام آبادی غیر الہی عبودیت وپرستش کی زنجیروں سے جکڑی ہوئی تھی، تہذیب وتمدن کا چراغ گل، فلسفہ وحکمت کا بازار سرد تھا، کائنات عالم کے صفحات کفروشرک، فسق وفجور کے نقشہائے باطل سے ڈھکے ہوئے تھے، معمورۂ عالم کے اوراق رہزنی وسفاکی، ظلم وتعدی،افتراق وانتشار، قبیلہ پرستی اور باہمی تنازع کے گھنا ؤنے دھبوں سے داغدار ہورہے تھے، ’ ظَھَرَ الْفَسادُ فی الْبَرِّ وَالبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْ النَّاسِ‘ خشکی اور تری میں انسانوں کی بداعمالیوں کی وجہ سے فساد پھیلا ہوا تھا۔ایسی حالت اور ایسے وقت میں جب کہ روح انسانی پژمردہ ہورہی تھی، انسانیت تڑپ رہی تھی، کائنات کا ذرہ ذرہ تشنہ کا م ہورہاتھاـ؛ بطحا کی خاک سے ایک یتیم (فداہ ابی وامی) اٹھا اور عالم کے لیے رحمت بن کر نمودار ہوا۔

دنیا توحید کی حقیقت سے غافل ہوچکی تھی، عیسائی تین خداؤں کے قائل ہوکر دنیا کو گمراہی کے جہنم میں دھکیل رہے تھے۔ ایران میں آتشکدۂ معبود بنا ہوا تھا اور یَزداںؔ واَہرمنؔ دوخدامانے جاتے تھے۔ ہندوستان میں ہندوؤں نے مظاہر قدرت کو خدا بنا رکھا تھااور تقریباً۳۳؍ کروڑ دیوتا ان کے قلوب پر حکمرانی کررہے تھے۔ غرض دنیا کے گوشہ گوشہ سے توحید الہی مفقود ہوچکی تھی اور شرک وکفر کا دور دورہ تھا۔ کلمہ کے معلم امی محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے آکر سب سے پہلے دنیا کے آگے توحید کا گلدستہ پیش کیا اور لا الہ الا اﷲ کا پیغام شیریں ہر انسان کے کا نوں تک پہنچا دیا۔ ایک ہی پکار میں مدتوں کے مدہوش ِ غفلت چونک اٹھے، برسوں کی سرمست خواب قومیں بیدار ہوگئیں۔

دنیا کی اصلاح اور انسانی عظمت کو برقرار رکھنے کے لیے آپ ؐ ایسا پیغام لے کر آئے ،جو مذہب کی روح، خداشناسی کی شرط اول اور انسانی شرافت کی بنیادہے، وہ توحید الوہیت اور ربوبیت تھی جس کی جامع حقیقت صرف ایک کلمہ لا الہ الا اﷲ میں پنہاں ہے۔

عالمگیر انسانی برادری کا قیام
دوسری چیز جو آپﷺنے انسانیت کا درجہ بلند کرنے کے لیے پیش کی، وہ عالمگیر انسانی برادری کا قیام اور ذات پات کی تفریقوں، رنگ وروپ کے امتیازوں اور نسل وقوم کے اختلافات کا مٹاناتھا۔ پیغمبر اسلا م ہی دنیا میں وہ پہلے انسان ہیں، جنھوں نے اعلی وادنی کا تفرقہ مٹایا، کالوں اور گوروں کا امتیاز فنا کیا، امیر وغریب کی حد بندیاں توڑیں، وطنی اور قبائلی فخر وغرور کا سر کچلا اور تمام بنی نوع انسان کو بلاکسی تفریق وامتیاز کے ایک ہی صف میں لا کھڑا کردیا۔
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمودؔ وایازؔ
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز

خود پیغمبر اسلا م ﷺکی عملی زندگی یہ تھی کہ آپؐ کے دربار میں امیر وغریب، دولت مند وفاقہ کش سب ہی تھے؛ آپؐ کا برتاؤ سب کے ساتھ یکساں تھا۔ آپؐ کی بارگاہ میں اگر ایک طرف ابوبکر ؓوعثمان ؓ جیسے امراء موجود تھے تودوسری طرف اسی شان وحیثیت سے ابوہریرہ ؓ وابوذرؓ جیسے مفلس اور بلال ؓوسلمان ؓ جیسے غلام بھی موجود تھے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آپؐ نے مالداروں کو غرباء پر ترجیح دی ہو یا سرمایہ داروں کو کسی خاص رعایت سے نوازا ہو۔

آپﷺ حضرت بلالؓ کو دیکھ کر فرماتے ’’ تومیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے‘‘ آپؐ کے دربار میں حضرت بلالؓ نے وہ مرتبہ حاصل کیا کہ انصاریوں نے برضا ورغبت اپنی بیوی ان کو بیاہ دی۔ اور جب ان کا انتقال ہوتا ہے تو حضرت عمر ابن الخطاب ؓجیسے خود دار انسان ــــــــــــــــــــــــــ(جن کی سطوت وہیبت سے کسریٰ وقیصر کے اندام پر لرزہ تھا) ’’اَلْیَومَ ماتَ سَیِّدُنَا‘‘ افسوس آج ہمارا آقا ہم سے جدا ہوگیا، کہہ کر روتے ہیں۔
آنحضرت ﷺ اپنے غلام حضرت زید بن حارثہ ؓکو اس قدر پیار کرتے تھے کہ لوگ ان کو ’زید بن محمد ‘کہنے لگے۔ ان کے بیٹے اسامہ بن زیدؓ کے ساتھ اتنی محبت کرتے تھے کہ حضرت امام حسنؓ اور اسامہ بن زیدؓ دونوں کو آپؐ نے آغوش میں لے کر فرمایا: ’’خدایا میں ان سے محبت کرتا ہوں توبھی ان سے محبت کر‘‘ (بخاری کتاب المناقب) اور صرف اظہار محبت وہمدردی ہی نہیں، بلکہ آپ ؐنے حضرت زید بن حارثہ کو آزاد کرکے ان کے ساتھ اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب ؓکو بیاہ کر دنیا کے لیے ایک بے نظیرمثال قائم کردی۔ (بیان القرآن) اسامہ بن زید ؓکو اس فوج کی سرداری عطا کی جس میں حضرت عمرؓ جیسے حسب ونسب والے افراد شامل تھے۔ فارَس نژاد سلمان ؓکے بارے میں ارشاد فرمایا کرتے تھے ’’سَلْمَانُ مِنَّا اَھلُ الْبَیْتِ‘‘۔ حتی کہ مساوات کے عملی پیغمبر ؐ نے عمل کے ساتھ ساتھ اصولاً بھی یہ فرمادیا ’’لَافَضْلَ لِعَرَبِی عَلٰی عَجَمِی وَلَا لِاَحْمَرَ علٰی اَسْوَدَ کُلُّکم مِنْ آدَمَ وآدمُ مِنْ تُرَابْ‘‘ (روح المعانی) کسی عربی کو کسی عجمی پر فوقیت نہیں اور گورے کو کالے پر کوئی فضیلت نہیں، بلکہ تم سب ایک ہو، کیونکہ تم آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے تھے۔

راہِ اتحاد کی حقیقی اور پائدار صورت
کیا پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفٰے صلی اﷲ علیہ وسلم کی نبوت سے پہلے عرب سوسائٹی میں کسی قسم کے بین الاقوامی اتحاد، قومیت اور باہمی اشتراک وتعاون کا تصور پایا جاتا تھا؟ عرب کی تاریخ کا معمولی مبتدی بھی جانتا ہے کہ نہ ایسا تصور وہاں موجود تھا اور نہ اس پر وہاں عمل ہوتا تھا۔ ہما رے زمانہ میں کم سے کم اتنا ضرور ہوا ہے کہ قبائل وبستیاں ہی نہیں بلکہ ساری انسانیت کے اتحاد اور تعاون کے تصورات بہت عام ہوگئے ہیں، ان تصورات کو کافی تقویت ملی ہے اور اس نصب العین کی طرف ہر ملک کے لوگ قدم بڑھانا بھی چاہتے ہیں اور اس کا عملی ثبوت بھی کسی نہ کسی شکل میں پیش کر رہے ہیں۔ اس کے بر خلاف اُس زمانہ کی عرب سوسائٹی عمل تو کجا اس قسم کے تصورات سے بھی بالکل ناواقف تھی۔ سوسائٹی قبائل میں بٹی ہوئی اور اجتماعی زندگی کی اول وآخر اینٹ قبیلہ تھی۔

لیکن ایسے ناگفتہ بہ حالات اور سماجی ماحول میں اﷲ پاک نے ایک بندے کو اصلاح حال کے لیے بھیجا، تو اس ذات کریم ؐنے اپنی ۲۳؍سالہ جدوجہد کے طویل دور میں ایک بار بھی یہ نہیں کہا کہ اے میری قوم کے لوگ تم متحد ہوجاؤ کیونکہ اتحاد ہی قوت ہے۔ یا یہ کہ اے میری قوم کے لوگ تم ٹولیوں، ٹکریوں اور قبیلوں میں بٹے رہنے کی بجائے اپنے اندر جذباتی ہم آہنگی پیدا کرو، قومیت کا شعور بیدار کرو اور ایک مضبوط قوم بن کردنیا کی متمدن وترقی یافتہ (ایران وروم) کی صف میں شامل ہوجاؤ۔ اور اس ذات کریم نے کسی چینؔ، کسی روسؔ یا کسی پاکستانؔ اور امریکہؔ کا خوف وخطرہ بھی اپنی قوم کو نہیں دلایا؛ بلکہ جو کچھ کہا وہ صرف یہ تھا کہ ’’ایک اور صرف ایک خدائے برتر کے بندے بن جاؤ، اس کے بعد کہا کہ تم سب ایک آدم کی اولاد ہو، کسی کو کسی پر فوقیت اور برتری حاصل نہیں، اِلّایہ کہ وہ تقویٰ والا ہو۔ نسل، رنگ، قبیلہ اور زبان کا جو کچھ اختلاف ہے وہ محض اس لیے کہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ اس کے بعد بتلایا کہ ایک حقیقی خداکے بندے بن کر زندگی گزارنے کا طریقہ یہ ہے، کہ زندگی کے ہر مرحلہ، ہر آن اور ہرموڑ پر تم اپنے نفس کے ساتھ اور دوسرے بندگانِ خدا کے ساتھ عدل وانصاف کا برتاؤ کرو۔ اور یہ کہ تم جو بھی ظلم وزیادتی کروگے خواہ وہ اپنے ساتھ ہو یا حقیر سے حقیر نظر آنے والے بندۂ خدا کے ساتھ، اس کے لیے تمھیں مرنے کے بعد جواب دینا ہوگا۔ اگر تمھارے گناہ زیادہ ہوئے تو تم عذاب کے مستحق ہوگے، اور اگر تمھارے کا موں سے راضی ہوکر اﷲ بخش دے تو تمھا را ٹھکانہ دائمی راحت ہوگا‘‘۔

یہی سیدھی سادی اورہر کس وناکس کی سمجھ میں آجانے والی چند باتوں نے جو اثر کیا وہ تاریخ انسانیت کا روشن ترین باب بن کر ہماری عبرت اور سبق کے لیے محفوظ ہے۔

کیا کو ئی انکار کرسکتاہے کہ اس تعلیم نے جب اپنا اثر دکھلا یا تو چشم فلک نے وہ اتحاد، وہ وَصل اور باہمی میل محبت کا وہ سما ں دیکھا جس کی نظیر مشکل ہے۔ کیا کوئی اس سے انکار کرسکتا ہے کہ تمام مصنوعی امتیازات مٹ گئے، بندھن ٹوٹ گئے اور انسان کی تکریم وعزت، بڑائی چھوٹائی کا معیار صرف اس کے اخلاق اور اس کے تقوی والی ذاتی اوصاف کے سوا کچھ اور نہیں رہا۔ جو ساری زندگی باہمی شکشتگی میں مبتلا رہے،تالاب سے پانی پینے میں اونٹ کے سبقت کرجانے پر سالہاسال جنگ وجدال کرتے رہے؛ جب اسلام نے انھیں جوڑ دیا، تو وہی ساری دنیا کو انسانیت کے اتحاد کا پیغام دینے والے بن گئے۔

علامہ اقبالؒ نے جب مسلمانوں کے حالات اور رحمۃ للعالمینﷺ کی آفاقی سیرت کا گہرائی سے مطالعہ کیا تو اس طرح گویا ہوئے:
منفعت ایک ہے اس قوم کی ،نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی دین بھی ،ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی، اﷲ بھی ،قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ،ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں، اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

افسوس! کہ مسلمان، جس کا خدا ایک، رسول ایک، قرآن ایک، ایمان ایک اور حرم پاک بھی ایک؛ وہ بھی سیرت طیبہ اور تعلیمات نبویہ سے الگ کوئی اور دوسری راہِ اتحاد تلاش کرنے میں سرگرداں ہے۔

Fayyaz Qasmi
About the Author: Fayyaz Qasmi Read More Articles by Fayyaz Qasmi: 10 Articles with 10026 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.