رحمت عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کا میلاد:انعقاد و اہتمام اور تقاضے

آقائے کائنات جانِ ایمان رحمت عالم صلی اﷲ علیہ وسلم جو دین لے کر آئے اس کی صداقت وسچائی آفتاب نصف النہار سے زیادہ روشن وواضح ہے بایں سبب دین اسلام نے بہت جلد ساری دنیا پر اپنے اثرات مرتب کر ڈالے ،اس کے درس محبت نے دلوں کی دنیا کو مسخر کر لیا اور رحمت عالم صلی اﷲ علیہ وسلم سے رشتہ وتعلق نے مسلمانوں کوہر منزل پر کامیاب و سر بلند رکھا۔

زمینی حقائق کی روشنی میں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ دین کے مقابل باطل و طاغوتی قوتیں ہر دور میں سرگرم عمل رہی ہیں اور دین کی شمع کو بجھانے کے لیے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی ۔یہ بھی فطرت کا التزام ہے کہ جس دور میں حق وصداقت کے جس پہلو پر حملہ کیا گیا اس کے جواب میں اسی گوشے کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ۔ماضی کے آئینے میں جب ہم دیکھتے ہیں تو اَن گنت واقعات شہادت دیتے ہیں۔دورِسیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ میں جب انکارِزکوٰۃ کا فتنہ اٹھا تو اس کی سرکوبی کی گئی اور زکوٰۃ کی عظمت کو واضح کیا گیااس کے احکام کی تبلیغ کی گئی ۔اسی عہد میں عقیدۂ ختم نبوت کو دلوں سے نکالنے کے لیے کئی جھوٹے نبوت کے دعوے دار سامنے آئے تو ان کی سرکوبی کی گئی اور عقیدۂ ختم نبوت کی تبلیغ بڑی تندہی کے ساتھ کی گئی اور خاتم الانبیا صلی اﷲ علیہ وسلم کہ وصف ِختم نبوت کو اجاگر کیا گیا ۔……انکارِ احکام قرآن کا فتنہ رونما ہوا تو امام احمد بن حنبل نے قرآن مقدس کی عظمت کو اجاگر کیا……فلاسفہنے عقائد اسلامی کومتزلزل کرنا چاہا ،وجود باری سے متعلق شبہات پیدا کرنے چاہے تو امام غزالی نے انھیں دنداں شکن جواب دیا اور عظمت ِتوحید کا درس دیا۔

ایک دور وہ بھی آیا کہ عقائد و مسائل شرع کو نشانہ بنایا گیا،مسئلۂ تقدیر پر غیر اسلامی ریمارک سامنے آئے یوں عقیدے کو عدم توازن کا شکار بنایا گیا تو امام ابو موسیٰ اشعری و امام ماتریدی میدان عمل میں آئے……فلسفے کے راستے توحید پر حملہ ہوا تو حضرت غوث اعظم و مجدد الف ثانی نے اپنے اپنے دور میں توحید باری سے متعلق اسلامی عقائد کی تبلیغ کی ……غرضیکہ اسلام کی صداقت اور رحمت عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کی چمکتی دمکتی سیرتِ طیبہ انسانیت کے لیے رہ نما بنی رہی اور تاریخ انسانی کا سر فخر سے بلند رہا۔مائیکل ایچ ہارٹ اپنی کتاب ’’The Hundred‘‘ (A Ranking of the most Influential Persons in History)میں لکھتاہے:’’محمد(صلی اﷲ علیہ وسلم)نے تاریخ انسانیت پر جو بے مثال دینی اور دنیوی اثرات ڈالے ہیں وہ میری نظر میں انھیں اس بات کا مستحق قرار دیتے ہیں کہ انھیں تاریخ انسانی کی مؤثر ترین شخصیت قرار دیا جائے۔‘‘

رحمت عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کی تشریف آوری نے دنیا کو ایک ایسے انقلاب سے آشنا کیا جس کے لیے مشیت نے خاص اہتمام کیا تھااور بزم کائنات آراستہ کی تھی۔رحمت عالم کی تشریف آوری سے باطل عقیدہ ونظریہ کو زلزلہ آگیا ؂
بندھ گئی تیری ہوا ساوہ میں خاک اڑنے لگی
بڑھ چلی تیری ضیا آتش پہ پانی پھر گیا
ؓ باطل قوتوں کی ناکامی نے انھیں غور وفکر پر مائل کیا اور وہ مسلمانوں کی شوکت وعظمت ،کامیابی وکامرانی،عزم وحوصلہ،ثبات واستقامت کا راز جان گئے کہ جب تک مسلمانوں میں رحمت عالم صلی اﷲ علیہ وسلم سے الفت ومحبت اورعشق و جاں نثاری کا جذبہ موجود ہے انھیں زیر نہیں کیا جا سکتا ،شکست سے دوچار نہیں کیا جا سکتا ۔انھوں نے عشق کے اس شعلے کو سرد کرنے کی کوشش کی جو مسلمانوں کے سینوں میں دہک رہا تھا۔محبت کی حرارت کو ناپنے کی کوشش کی ۔انھیں معلوم تھا ان کا ابلیسی ذہن کام کر رہا تھا کہ ایمانی جسم سے عشق نبوی کی روح کو نکال دو جسم خودبے جان ہو جائے گا ؂
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روح محمد اس کے بدن سے نکال دو

انیسویں صدی کے نصف کے بعد باطل تحریکات کا زیادہ تر حملہ عظمت وشانِ رسالت پر ہی رہا ،یہ حملے کئی طرح کے رہے،۱۸۵۷ء میں مسلمانوں کی قوت وعزم کا اندازا لگا لینے کے بعد ہندوستان میں داخلی فتنے کھڑے کیے گئے اور ایسی کتابیں لکھوائی اور چھاپی گئیں جن سے محبت رسول کی شمع بجھائی جا سکے،پھر حجازِ مقدس میں قومی عصبیت کو ہوا دے کر ترکوں اور عربوں کو لڑوا دیا گیا،خالص توحید کی آڑ میں عظمت نبوی پر شب خون مارا گیا،عقیدۂ ختم نبوت کو کم زور کرنے کی کوشش کی گئی قادیانی فتنہ اس کی مثال ہے،ان فتنوں کے سد باب میں نمایاں خدمات انجام دے کر محبت رسول کی طرف دعوت دینے والے اسلامی مفکر امام احمد رضا محدث بریلوی (م ۱۹۲۱ء )کی خدمات کا جائزہ سیرت کے حوالے سے لیا جانا چاہیے۔

مشرکین نے شان رسالت میں گستاخی کی ،عیسائی معاندین اور مستشرقین نے اپنی خود ساختہ تحقیق میں اہانت آمیز حرکت کی،وٹیکن کے پیشوا نے سیرت پر منفی ریمارک داغا،یورپ کے کارٹونسٹ نے توہین آمیز خاکے بنائے پھر پورا یورپ اسی راہ چل پڑاپرنٹ میڈیا اور الکٹرانک میڈیا نے اس کی تشہیر کی،یہ بات خوب ظاہر ہے کہ ہر باطل فکر کو سیرت رسولصلی اﷲ علیہ وسلم کی چمک گراں گزرتی ہے،انھیں وہ عمل نہیں بھاتا جس سے محبت ِرسول دل میں آئے،اقبالؔ کی فکر نے اسے محسوس کر کے دستورِمحبت دیا ؂
بہ مصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبی ست

جب لگاتار سیرت پر ہی حملے ہو رہے ہیں،اسلام کے مخالفین ناموسِ مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم سے کھلواڑ کرنے میں لمحہ لمحہ چاق و چوبند ہیں توعقل بھی یہی کہتی ہے کہ عظمت و شان نبوی کو اجاگر کیا جائے ۔محبتوں کے رشتے بارگاہِ نبوی سے مضبوط کیے جائیں ،ایمان کی پختگی کے لیے لوحِ ذہن پہ عشق رسالت کے نقش جما دیے جائیں ۔قرآن مقدس کے وہ احکام پڑھیں جن میں محبوب رحمت عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کی بارگاہ کے ادب واحترام کی تعلیم دی گئی ہے تو عشق و محبت کی بات سمجھ میں آئے گی ،آج جب کہ اتحاد کی بات کی جاتی ہے تو ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ بے شک کامیابی اتحاد میں ہے اور اتحاد کیسے قائم ہو گا؟اس کی بنیاد اور اساس کیا ہے؟تو یہ ضروری ہوا کہ اس اتحاد کے پائیدار اور مضبوط ہونے کے لیے رحمت عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبت و عشق کو بنیاد مانا جائے۔یہ ایک ایمانی وقرآنی تقاضا ہے لہٰذا یہ فطرت کے عین مطابق ہے۔اس نسبت سے ہونے والا اتحاد کوئی توڑ نہ سکے گا۔قرائین وشواہد مطالبہ کرتے ہیں کہ مسلمانوں بیدار ہو جاؤ!رحمت عالم صلی اﷲ علیہ وسلم سے محبت کا تعلق جوڑ لو!سیرت کے پیغام کو عام کرو !تو اس کے لیے ایک عالمی پلیٹ فارم ’’عید میلاد النبی صلی اﷲ علیہ وسلم‘‘ہے ۔یہ دن شرک کی شکست اور کفر کی موت کا دن ہے،ایمان و اسلام کا دن ہے،اس دن کا منانا باطل پر بڑا بھاری گزرتا ہے،اس دن کااہتمام ایمان میں تازگی لاتا ہے اور ایوان کفر و شرک میں خزاں وویرانی ؂
کس گل کی ہے آمد کہ خزاں دیدہ چمن میں
آتا ہے نظر نقشۂ گلزار ارم آج

اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’تم فرماؤ اﷲ ہی کے فضل اور اس کی رحمت اور اس پر چاہیے کہ خوشی کریں وہ ان کے سب دھن دولت سے بہتر ہے‘‘(سورۂ یونس:۵۸)……فضل ورحمت پر خوشی منانے کاحکم اﷲ تعالیٰ نے دیا ،اور محبوب کے بارے میں فرمایا:’’اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لیے‘‘(سورۂ انبیاء:۱۰۷) ……محبوب کو رحمۃ للعالمین کہا تو معلوم ہوا سب سے بڑی رحمت ونعمت تو رحمت عالمصلی اﷲ علیہ وسلم ہیں،لہٰذا آپ کی آمد آمدکی خوشی مناناکوئی غیر اسلامی کام نہیں ۔یہ امر ثابت ہے کہ میلادِ نبوی ہردور میں مختلف انداز میں منایا گیا۔بلکہ آمد آمد سے قبل بھی ایک محفل سجائی گئی تھی اور محبوب سے وفاداری کا عہد لیا گیا تھا،محبوب کی ولادت کا ذکر کیا گیا تھا،ارشاد الٰہی ہے:’’اور یاد کرو جب اﷲ نے پیغمبروں سے ان کا عہد لیا جو میں تم کو کتاب اور حکمت دوں پھر تشریف لائے تمہارے پاس وہ رسول کہ تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمائے تو تم ضرور ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا فرمایا کیوں تم نے اقرار کیا اور اس پر میرا بھاری ذمہ لیا سب نے عرض کی ہم نے اقرار کیا فرمایا توایک دوسرے پر گواہ ہو جاؤ اورمیں آپ تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوں ‘‘(سورۂ آل عمران:۸۱)

علامہ ابن کثیر دمشقی (م۷۷۴ھ)لکھتے ہیں:’’ابو امامہ باہلی سے روایت ہے،فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ :یا رسول اﷲ آپ اپنے ظہور کی ابتدا کے بارے میں فرمائیں،فرمایا:دعوۃ ابی ابراہیم،وبشری عیسی،ورات امی انہ خرج منھا نور اضاء ت لہ قصور الشام(مسند احمد،دلائل النبوۃ ،ابوداؤد)میں اپنے باپ ابراہیم کی دعا اور عیسیٰ کی بشارت ہوں (علیہم السلام)اور میری ماں نے دیکھا کہ ان کے اندر سے ایک نور نکلا جس نے شام کے محلات کو روشن کر دیا۔‘‘(میلاد ابن کثیر،ص۲۳۔۲۴)
وہ اٹھیں چمک کے تجلیاں کہ مٹا دیں سب کی تعلّیاں
دل و جاں کو بخشیں تسلیاں ترا نور بارِ دوحار ہے

میلاد ِنبوی کا اہتمام مختلف انداز میں ہوتا رہا ،فضیلۃ الشیخ السید محمد بن علوی مالکی مکی لکھتے ہیں:’’نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے یوم میلاد کی تعظیم کیا کرتے اور اس روز اپنے اوپر اﷲ تبارک وتعالیٰ کی نعمت کبریٰ اور اس کائنات کے لیے اپنے وجود مبارک کے احسان پر اس کا تشکر بجا لایا کرتے تھے کیوں کہ اس سے ہر مخلوق خدا کو عزت وسعادت ملی ۔اس تعظیم کا اظہار روزہ رکھ کر کیا کرتے تھے ۔جیسا کہ حدیث شریف میں حضرت قتادہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے دو شنبہ کے روزے کے سلسلے میں پوچھا گیا تو آپ نے ارشادفرمایا:فیہ ولدت،فیہ انزل علی(کتاب الصوم،مسلم شریف)میں اسی روزپیدا ہوا اور اسی روز مجھ پر وحی نازل کی گئی۔‘‘(جشن میلاد النبی صلی اﷲ علیہ وسلم،ص۲۰،ترجمہ علامہ یٰسین اختر مصباحی)

میلاد کا انعقاد اپنے اجزا کے اعتبارسے نیا نہیں ہاں یہ ضرور ہے کہ عہد بہ عہد منانے کے انداز تبدیل ہوئے ،جو امور شریعت کے دائرے میں ساری دنیا کے مسلمان کرتے ہیں وہ بلاشبہہ مقبول و محبوب ہیں ،ہاں جو خلافِ شرع ہوں گے ان سے بچنے کا حکم ہو گا۔عموماً مسلمان میلاد کا انعقاد مؤدب و محترم انداز میں پورے خلوص کے ساتھ کرتے ہیں ،اس طرح اسلامی شان کاایک اعلیٰ نمونہ دنیا کے سامنے آتا ہے۔

اب ہم ذیل میں ترتیب وار چند امور ذکر کرتے ہیں جن کے ذریعے میلاد مصطفی کے پیغام کو عام کرنا زیادہ آسان و مؤثر ہو گا جو عہد کے تقاضوں کو بھی پورا کرے گا۔ان شاء اﷲ،
(۱) عقائد و اعمال کی اصلاح اورسیرت طیبہ کے موضوع پر مستند کتابیں شائع کر کے تقسیم کی جائیں۔
(۲) سیرت کے وہ گوشے جن پر نافہم افراد(دشمنان اسلام مستشرقین وغیرہ)اعتراض کرتے ہیں اس کا جواب شائع کیا جائے لیکن ترتیب یہ ہو کہ اصل واقعہ تحریر کر دیا جائے پھر معترضین کا سد باب ہو۔
(۳) عالمی زبانوں میں سیرت طیبہ پر مستند مواد کو ترجمہ کر دیا جائے اور انٹر نیٹ پر لوڈ بھی کیا جائے۔
(۴) میلاد کے اس موقع پر مسلمانوں کو عقیدۂ ختم نبوت کی اہمیت سے بھی آگاہ کیا جائے،اس لیے کہ قادیانیت کے فتنے کو یہودی و عیسائی اور دوسری اسلام مخالف مشنریاں پوری شدت سے پھیلانے کے در پے ہیں اس کے لیے محبت رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کا درس ناگزیر ہے کہ جب یہ ہو تو دل کی دنیا فتنوں سے صاف رہتی ہے۔
(۵) علماے کرام کو چاہیے کہ سیرت کے مختلف گوشے مثلاًرحمت عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کی جود و عطا،اختیارات،علم،شان وعظمت،اخلاق وکردار،غربا پروری،سخاوت،اسوۂ حسنہ،مساکین کی داد رسی اور اس جیسے عنوانات پر مستند مآخذ کی روشنی میں تقاریرکریں۔پھر ان تقاریرکو سی ڈیز اور کیسٹس میں تیار کر کے عام کیا جائے۔
(۶) مقررین و مصنفین کو اپنی تقریر وتحریر میں مسلمانوں کی ذہن سازی کرنی چاہیے کہ بارگاہ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کا ادب و احترام اورتعظیم ضروری ہے بغیر اس کے اﷲ کی رضا و خوش نودی حاصل نہیں ہو سکتی اس سلسلے میں قرآن واحادیث کے مآخذ بھی پیش کیے جائیں۔
(۷)نعت خوانوں کو چاہیے کہ ثنا خوانی کرتے وقت علماے کرام اورمستند شعرا کے کلام پڑھیں تا کہ کلام شرعی وفنی خامیوں سے پاک ہو ،اس سلسلے میں حضرت حسان بن ثابت ،امام ابو حنیفہ،امام بو صیریؔ،مولانا عبدالرحمن جامیؔ،امام احمد رضاؔ،مولانا حسنؔ رضا خاں ،مفتی اعظم نوریؔ بریلوی،سید آل رسول نظمی ؔمارہروی،تاج الشریعہ علامہ اختر ؔرضا خاں ازہری وغیرہم جیسے علما کے کلام اہتمام سے پڑھیں جائیں۔اور الفاظ کی ادائیگی بھی د رست ہو ۔
(۸) اسلام کے نظامِ امن ومحبت و اخوت اور انسانی ہمدردی کے پیغام کو سیرت طیبہ کی روشنی میں عام کیا جائے۔
(۹) رحمت عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت،عظمت ،شان،گفتار،اطوار،معاملت،نعت،رفعت اور اسلام کی حقانیت پر اخبارات ومجلات خصوصی اشاعت کا اہتمام کریں۔
(۱۰) غربا،مساکین،یتیموں اور ضرورت مندوں کی حاجت روائی کی جائے،مریضوں کی عیادت کی جائے۔
(۱۱) نمازوں اور فرائض و سنن کی پابندی کی جائے۔
(۱۲) قوم کے تعلیمی وقار کو بلند کیا جائے،علم دین کو فروغ دیا جائے،دین کی بنیادوں پر ہر علم حاصل کیا جائے،اسلامی تمدن و تہذیب کو عام کیا جائے اور مغربی تمدن وتہذیب سے احتراز کیا جائے۔
الغرض!سیرت طیبہ کا ہر ہر پہلو درخشاں و معطرہے جس سے انسانیت کی زلفِ برہم سنورتی ہے اور وقار بلند ہوتا ہے،محبتوں کا آفتاب طلوع ہوتاہے،نفرتوں کے غبار چھٹ جاتے ہیں،تیرہ بختوں کے مقدر جاگ اٹھتے ہیں اور روشنی پھیل جاتی ہے ؂
میری شب تار دن بنا دے
اے شمع جمال مصطفائی
٭٭٭

گزرے جس راہ سے وہ سید ِ والا ہوکر
از:امام احمد رضاؔ محدث بریلوی
گزرے جس راہ سے وہ سید والا ہوکر
رہ گئی ساری زمیں عنبر سارا ہوکر
رخ انور کی تجلی جوقمر نے دیکھی
رہ گیا بوسہ دہ نقشِ کفِ پا ہوکر
وائے محرومی ِ قسمت کہ میں پھر اب کی برس
رہ گیاہمرہِ زوّارِ مدینہ ہوکر
چمن طیبہ ہے وہ باغ کہ مرغِ سدرہ
برسوں چہکے ہیں جہاں بلبلِ شیدا ہوکر
صرصر دشتِ مدینہ کا مگر آیا خیال
رشک گلشن جو بنا غنچۂ دل وا ہوکر
گوش شہ کہتے ہیں فریاد رسی کوہم ہیں
وعدۂ چشم ہے بخشائیں گے گویا ہوکر
پائے شہ پرگرے یارب تپشِ مہر سے جب
دل بے تاب اڑے حشرمیں پارا ہوکر
ہے یہ امید رضا ؔکو تری رحمت سے شہا
نہ ہو زندانیِ دوزخ ترا بندہ ہوکر

مسلمانو! صبح بہاراں مبارک
عیدوں کی عید ۱۲؍ربیع الاول شریف کا موسم بہاراں جلوہ فگن ہے اس ساعت سعید و دل افروز پر ہم مسلمانان عالم کو مبارک باد و تہنیت کی ساغات پیش کرتے ہیں ۔اﷲ تعالیٰ اپنے محبوب کے صدقے ہمیں عید میلاد النبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے برکات وحسنات سے مستفیض و مستنیر فرمائے اور ایمان و ایقان وعشق و محبت رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی حفاظت وصیانت فرمائے۔آمین۔
من جانب:نوری مشن،حافظ شکیل احمد رضوی،مالیگ فیملی آف برطانیہ

مضمون برائے اشاعت……بموقع یوم رحمۃللعالمین ﷺ

Ghulam Mustafa Rizvi
About the Author: Ghulam Mustafa Rizvi Read More Articles by Ghulam Mustafa Rizvi: 277 Articles with 257364 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.