ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ ۔۔۔۔مگر!

ملت افراد کے مجموعہ اور مرکب سے تشکیل پاتی ہے۔ ملت کی آبیاری ، تخم ریزی اور نشونما افرادہی کیا کرتے ہیں ۔ملت میں موجود مجموعہ افراد میں ہم آہنگی بنیادی شرط ہے ۔اتحاد اتفاق اور یگانگت وہ سنہری اصول ہوا کرتے ہیں جو کسی بھی قوم کا طرہ امتیاز ہوتے ہیں ۔ ملت اسلامیہ کے نوجوانوں اور شا ہینوں کی اہمیت کو اقبال یوں اجاگر کرتے ہیں ۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

تاریخ انسانیت میں کسی بھی قوم کے خود بخود معرض وجود میں آنے کا کوئی تزکرہ موجود نہیں ۔ قوموں کی زندگیوں میں انفرادی تگ ود وکلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ اقبال فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ بھی نہیں کے فلسفہ کو بھی رد نہیں کرتے لیکن وہ نہ مسلمہ حقیقت بھی تسلیم کرتے ہیں کہ سمندر کی تشکیل میں قطروں کو بنیادی اکائی کی حیثیت حاصل ہوتی ہے ۔

اقبال کے فرد کے مفہوم کی وسعتوں میں جائیں تو ہمیں اقبال کا شاہین ملے گا جو خود وار ،پر واز میں بلند اور کسی اور کے شکار کو ناکھانے والا ہے ۔ افسوس کہ آج اقبال کا شاہین کر گس سے مل گیا ہے ۔
شاہین کا جہاں آ ج ممولے کا جہاں ہے
ملتی ہوئی آج ملاں سے مجاہد کی اذاں ہے
مانا کہ اس جہاں سے آگے بھی جہاں ہے
مگر شاہیں میں اب وہ طاقت پرواز کہاں ہے

اقبال کا فر د وہ مرد کا مل ہے جو لیس الانسان الی ماسعی ، پر یقین رکھتا ہے منزلیں اسکا نصب العین نہیں ۔ اسکا مقصد حیات جہدمسلسل ہے ۔ اس کے نزدیک
منزلیں ذوق تجسس کو سُلا دیتی ہیں
حا صل زیست تو بس راہ گزر ہوتی ہے

اقبال اپنے فرد کو، شمشیر وسناں اول طاوس ورباب آخر، کا درس دیتے ہیں اور ان کے نزدیک قومیت کی حقیقی بنیادیں توحید کی طاقت سے مستحکم ہوتی ہیں مگر رونا یہ ہے کہ آج
توحید کی تلواروں سے خالی ہیں نیا میں
اب ذوق یقیں سے کٹتی نہیں کو ئی زنجیر
دیکھا جو محلوں سے پردوں کو اٹھا کے
شمشیر وسناں رکھی ہیں طاقوں پہ سجاکے
آتے ہیں نظر مسند شاہی پہ رنگیلے

تقدیر امم سوگئی طاوس پہ آکے
ایک ہی صف میں محمود اور ایاز کو کھڑا دیکھنے والے اقبال کو معلوم نہ تھا
محمود وں کی صف آج ایازوں سے پرہے
سلطانی جمہور سے جمہور ورے ہے

اقبال کے دیس میں آج غازی علم دین شہید کے چرچوں کی بجائے بازارحسن سے لیکر پرلیمنٹ تک کے قصے ہر زبان زد عام ہیں۔

وطن عزیزآج بریکنگ نیوز کا محوربن چکا ہے۔جسمانی آزادی حاصل کرلینے کے باوجود آج ہم ذہنی اورروحانی طور اسی طرح مقید ہیں۔ زندہ انسانوں کو جلادینا معمول بن چکا ہے۔ چورہاھوں پر \" بچے برائے فروخت\" کے دل ہلادینے والے مناظرنظرآتے ہیں۔ اقبال کا دیس آج شعلوں کی لپیٹ میں ہے ۔ \" اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے \" آج یہاں مقتول شہید تو قاتل غازی۔آج کا رہبر راھزن سے مل گیا ہے۔
یاد رکھیے قومیں افکارکی بنیاد پر عروج پاتی ہیں اور جس قوم کے افراد کی خودی صورت فولادہو وہ قوم کبھی بکھر نہیں سکتی۔ آج اگر ملت اسلامیہ کے افراد غیر ت ایمانی کو جھنجھوڑیں اور لادینی قوتوں کے آلہ کا ر بننے کی بجائے اپنے دست بازوپر انحصار کریں تو بعید نہیں ان میں طارق بن زیاد، ٹیپو سلطان ، سلطان صلاح الدین ا یوبی پھر سے پیداہوجائیں ۔ آ ج تاج سر دارا پھر سے کچلنے کا وقت آگیا ہے۔ نیل کے ساحل سے تابخا کا شغر کی سرحدیں پھر سے اقبال کو پکار رہی ہیں ۔ بحر ظلمات میں دوڑنے والے گھوڑے آج سیبوں کا مربعہ کھانے لگ گئے ہیں ۔ اقبال کا تصور مرد قلندر کشکول کے مفہوم سے ناآشنا ، حرم کا پاسباں ا ور داروسکندر کے جاہ وجلال سے بے خوف وہ فرد ہے جو رب کے سواکٹ تو سکتاہے مگر جھک نہیں سکتا ۔ عشق مصطفی کے بغیر اسکی زندگی بے معنی ۔ آئیے سو چیں ! اقبال کا فرد کہاں کھڑا ہے ۔ ستاروں پر کمنڈ ڈالنے والے اس فرد نے آیا کہ زمین پر چلنا سیکھ لیا ہے یا پھر پتنگوں کی ڈوروں میں الجھا ہواہے ۔
Mushtaq Ahmad kharal
About the Author: Mushtaq Ahmad kharal Read More Articles by Mushtaq Ahmad kharal: 58 Articles with 114693 views Director princeton Group of Colleges Jatoi Distt. M.Garh and a columnist.. View More