وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتے ہوئے بچوں کے لیے متوازن غذا
انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہے- لیکن اکثر ماؤں کو یہ شکایت ہوتی ہے کہ ان
کا بچہ کھانا نہیں کھاتا یا کھانے کے وقت بھاگ جاتا ہے- اس کے علاوہ یہ بھی
دیکھا گیا ہے مائیں جو کچھ کھلاتی ہیں وہ متوازن بھی نہیں ہوتا کیونکہ وہ
خود ایک متوازن غذا سے ناواقف ہوتی ہیں- متوازن غذا کیا ہوتی ہے؟ بچہ کھانا
کیوں نہیں کھاتا یا اسے کیسے ایک جگہ بیٹھ کر کھانا کھانے کی عادت ڈالی
جائے؟ ان تمام اہم سوالات کے جوابات جاننے کے لیے ہماری ویب کی ٹیم نے
معروف چائلڈ اسپیشلسٹ ڈاکٹر مبینہ آگبٹوالہ سے خصوصی بات چیت کی- ڈاکٹر
صاحبہ کی جانب سے دی گئی مفید معلومات ہماری ویب کے قارئین کی رہنمائی کے
لیے یہاں پیش کی جارہی ہیں:
ڈاکٹر مبینہ کہتی ہیں کہ “ اکثر ماؤں کو شکایت ہوتی ہے کہ ان کا بچہ کھانا
نہیں کھاتا اور وہ اس کے پیچھے بھاگتی رہتی ہیں یا پھر بچے کا وزن نہیں بڑھ
رہا- اور اگر دیکھا جائے تو یہ واقعی ایک بڑا مسئلہ ہے“-
|
|
“ دراصل جب ہم بات کرتے ہیں بچے کی غذا کی تو ہمیں بات کرنی چاہیے ایک
متوازن غذا کی- اور متوازن غذا صرف بچوں کے لیے ہی نہیں بلکہ بڑوں کے لیے
بھی بہت ضروری ہے“-
ڈاکٹر مبینہ کا کہنا تھا کہ “ بڑھتے ہوئے بچوں کو وزن اور قد دونوں ساتھ
ساتھ بڑھانا ہوتا ہے- اور قد صرف 17 سے 18 سال کی عمر تک بڑھتا ہے- اس کے
بعد جو آپ اضافی غذا کھاتے ہیں وہ موٹاپے کی شکل اختیار کر جاتی ہے“-
“ لیکن بچے کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا- انہیں متوازن غذا دی جاتی ہے جن میں
پروٹین زیادہ ہوتے ہیں- بچوں کی متوازں غذا میں پروٹین٬ کاربوہائڈریٹ اور
تھوڑی سی چکنائی ضرور شامل ہونی چاہیے“-
ڈاکٹر مبینہ کے مطابق “ بچوں کے لیے سب سے بنیادی متوازن غذا کچھڑی ہے-
کچھڑی ایک ایسی متوازن غذا ہے جس میں یہ تمام اجزاﺀ شامل ہوتے ہیں- اس میں
موجود دال میں پروٹین اور چاول میں کاربو ہائیڈریٹ پایا جاتا ہے- اور اسے
کم مقدار تیل میں بنایا جاتا ہے جس سے تھوڑی سی چکنائی بھی پیدا ہوجاتی ہے“-
ڈاکٹر مبینہ کہتی ہیں کہ “ اگر آپ چاہیں تو کچھڑی میں چکن شامل کر کے اضافی
پروٹین بھی حاصل کرسکتے ہیں- اس کے علاوہ کچھڑی میں گوشت یا قیمہ بھی شامل
کیا جاسکتا ہے“-
|
|
“ اگر اس کچھڑی میں آپ ہری سبزی یا مٹر٬ گاجر یا گوبھی بہت باریک یعنی
بھوری کر کے ڈال دیں تو اس سے بچے کو وٹامن اور بی کمپلیکس بھی مل جائے گا“-
“ کچھڑی 7 سے 8 ماہ کے بچے کے لیے ایک مکمل اور متوازن غذا ہے“-
ڈاکٹر مبینہ کا کہنا تھا کہ “ دنیا بھر میں عموماً بچوں کو میٹھی اشیا
کھانے کے لیے بہت زیادہ دی جاتی ہیں جیسے کہ کیک وغیرہ“-
“ لیکن اگر ہم کیک کو دیکھیں تو اس میں موجود میدہ اور چینی کاربوہائیڈریٹ
پر مشتمل ہوتے ہیں جبکہ کریم چکنائی پر- اس لیے اسے ایک متوازن غذا نہیں
قرار دیا جاسکتا- اور یوں اگر بچے چینی اور پیسٹری وغیرہ کھاتے رہیں تو
انہیں پروٹین نہیں ملتا“-
“ پروٹین بچوں کے مسلز کو بناتا ہے- اور بچوں کے مسلز مضبوط تو چاہتے ہیں
لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ ان کے جسم میں صرف چکنائی ہی جارہی ہے“-
“ بچوں کو دال٬ چکن اور گوشت یا ایسی دیگر اشیا ضرور کھلائیں جن میں پروٹین
پایا جاتا ہوں- اس کے علاوہ انڈہ ضرور کھلائیں کیونکہ اس میں بہت زیادہ
غذائیت پائی جاتی ہے- انڈے میں پروٹین٬ وٹامن اے٬ وٹامن ڈی اور ساتھ ہی
تھوڑی سی چکنائی بھی موجود ہوتی ہے“-
ڈاکٹر مبینہ کہتی ہیں کہ “ اکثر ماؤں کو شکایت ہوتی ہے کہ ہمارا بچہ انڈہ
نہیں کھاتا- تو انہیں چاہیے کہ بچے کو انڈے مختلف اشکال میں دیں مثلاً
بوائل٬ ہاف بوائل٬ فرائی٬ آملیٹ یا پھر انڈے کا کسٹرڈ بنا کر دیں“-
“درحقیقت ہمارے ہاں مائیں ایک جیسا ہی انڈہ یا ایک جیسی ہی خوراک روزانہ
کھانے کو دیتی رہتی ہیں جس سے بچہ کھانے سے اکتا جاتا ہے- یہ ایسے ہی ہے
جیسے آپ روزانہ ایک چیز نہیں کھا سکتے“-
“ بچوں کے کھانے سے اکتانے کی شکایت 1 سے ڈیڑھ سال کی عمر میں اس وقت شروع
ہوتی ہے جب اسے باقاعدہ طور پر غذا دی جاتی ہے اور وہ اس وقت بیٹھ کر کھانا
نہیں کھاتا اور بھاگ جاتا ہے- اس لیے بچے کو روزانہ ایک سی غذا نہ دیں اور
اس میں ورائٹی رکھیں“-
|
|
“ اگر آپ بچے کو پروٹین دینا چاہتے ہیں تو اسے چکن یا گوشت کے کباب دیں یا
انہیں اشیا کے سینڈوچ بنا کر دیں- سینڈوچ میں ڈبل روٹی بھی شامل ہوجاتی ہے٬
اس میں مکھن بھی آجاتا ہے اور ساتھ میں اگر پنیر بھی لگادیں تو اس طرح بچے
کو وٹامن ڈی اور اے بھی مل جائے گا“-
ڈاکٹر مبینہ کہتی کہ “ جن بچوں کا وزن نہ بڑھ رہا ہو انہیں ایسی غذائیں دیں
جن میں پروٹین کے ساتھ ساتھ چکنائی بھی موجود ہو“-
“ بچوں کو موسمی پھل ضرور دیں یا پھر ان کے فریش جوس خود نکال کر پلائیں-
لیکن بہتر یہی ہے کہ بچہ مکمل پھل کھائے کیونکہ اس طرح بچے کے جسم میں
فائبر بھی پہنچتا ہے“-
ڈاکٹر مبینہ کا کہنا تھا کہ “ بچے کو ایک جگہ بیٹھا کر کھانا کھلائیں اور
اسے اس چیز کی عادت ڈالیں کیونکہ ایک دو نوالے لے کر بھاگ جانے سے اس کے
معدے پر اثر ہوگا- بچہ ضرور شروع میں تنگ کرے گا٬ روئے گا لیکن آہستہ آہستہ
اس میں یہ عادت پیدا ہوجائے گی“-
“ اس کے علاوہ بچے کے کھانا کھانے کے اوقات مقرر کریں کیونکہ اس طرح بچہ
سمجھ جائے گا کہ اسے صرف اسی وقت کھانا ملے گا اور بعد میں نہیں دیا جائے
گا- اس طرح بچہ ضرور کھانا کھائے گا“-
“ اگر بچہ کھانا نہیں کھا رہا تو اس کے پیچھے مت بھاگیں اور اسے چھوڑ دیں-
جب اسے بھوک لگے گی تو خود ہی کھائے گا- اس طرح ایک سے دو ہفتے میں بچے میں
بیٹھ کر کھانا کھانے کی عادت پیدا ہوجائے گی“-
ڈاکٹر مبینہ کہتی ہیں کہ “ بچوں کو اسکول کے لنچ کے لیے بھی ایک متوازن غذا
دیں اور اس میں چاہے چکن سینڈوچ ہو٬ روٹی کا رول ہو یا پھر انڈے کا سینڈوچ
ہو- اس کے علاوہ باہر کی پہلے سے تیار شدہ اشیا سے بچیں کیونکہ یہ پیٹ خراب
کرتی ہیں یا ڈائریا کا سبب بنتی ہیں“-
“ بچوں کو اسکول جاتے وقت ناشتہ ضرور کروائیں اور انہیں خالی پیٹ یا صرف
ایک گلاس دودھ پی کر نہ جانے دیں“-
“ یاد رکھیں جب بھی کوئی غذا بنائیں تو اس بات کا خیال رکھیں کہ وہ متوازن
ہونی چاہیے- اس میں پروٹین٬ کاربوہائیڈریٹ اور کسی حد تک چکنائی ضرور شامل
ہونی چاہیے- اس کے علاوہ بچے کی عمر چاہے جو بھی اسے دودھ پینے کے لیے ضرور
دیں“-
|
|
|