ریلوے وزیر خواجہ سعد رفیق کی توجہ کے لیے چند اہم مسائل

پاکستان ریلوے ایک محکمہ ہی نہیں بلکہ ایک انوکھی اورمنفرد دنیا کا نام ہے ۔ہزاروں لوگ اکٹھے ہوکر جب کام کرتے ہیں تو گاڑی پشاور سے کراچی تک پہنچتی ہے اگر ان میں سے کوئی ایک ملازم بھی غفلت کا مظاہرہ کردے تو کروڑوں کے نقصان کے علاوہ قیمتی انسانی جانوں سے بھی ہاتھ دھونا پڑتا ہے ۔یوں تو ریلوے میں رننگ سٹاف کا ہر ممبر انتہائی اہم اور لازم ہے لیکن میں اس وقت صرف کیبن مین اور شنٹنگ پورٹر کی بات کرنا چاہتا ہوں ۔ اس بات کا مجھے اس لیے اندازہ ہے کہ میں خود ایک کیبن مین کا بیٹا ہوں اور میں نے سخت سردیوں کی راتیں انسانی بستیوں سے دور کیبن میں گزاری ہیں ۔اس وقت جبکہ ریلوے افسران اپنے خوبصورت بنگلوں کے گرما گرم بیڈ رومز میں میں بھی رضائی لے کر سکون سے سوتے ہیں وہاں ریلوے کے کیبن مین(جو مین لائن اورتمام برانچ لائنوں کے اسٹیشنوں کے پر موجود ہوتے ہیں)نہ صرف دن میں بلکہ رات کو بھی سخت ترین سردی میں ٹھٹھر کر گزارتے ہیں انسان جتنا چاہے کپڑے پہن لے لیکن بلندی پر سرد ہوا کے جھونکے انسانی جسم کو چیرکے رکھ دیتے ہیں ۔میں ان کی زندگی کی ایک جھلک میں قوم کو دکھانا چاہتا ہوں ۔ میرے والد جو واں رادھا رام( اس وقت اس کا نام حبیب آباد ہوچکاہے ) میں ایک کیبن مین کی حیثیت سے ریلوے ملازم تھے ان کے فرائض میں کیبن پر نصب انتہائی بھاری بھرکم لوہے کے لیور جو برف سے بھی زیادہ ٹھنڈے اور سردیوں میں اور بھی سخت ہوجایا کرتے تھے ہر ٹرین کے آنے سے پہلے چار پانچ لیور پوری طاقت کے ساتھ کھینچنے پڑتے تھے تب جاکر ایک ٹرین گزرتی تھی آٹھ گھنٹے ڈیوٹی میں اگر بیس پچیس ٹرینیں گزریں تو حساب لگا لیں دو من وزنی لیور وں کو پوری طاقت سے کھینچنے میں کتنی طاقت اور ہمت درکار ہوتی ہے پھر اتنی ہی طاقت لیوروں کو واپس دھکیلنے میں صرف ہوتی ہے ۔بات صرف یہاں ہی ختم نہیں ہوتی کراچی سے پشاور سے دو منزلہ ریلوے کوئی کیبن ایسی نہیں جہاں لکڑی کے فریم میں تمام شیشے بھی نصب ہوں ۔ رات کے اس پہر یا دن کے اجالے میں بھی جب سائبریا کی سرد ہوائیں کیبن کی ایک کھڑکی سے داخل ہوکر کر دوسری کھڑکی کی جانب چلتی ہیں تو انسانی جسم کو چیر کے رکھ دیتی ہیں جبکہ دو منزلہ کیبن کا فرش بھی لکڑی کے پھٹوں پرمشتمل ہوتا ہے جہاں سے ٹھنڈی ہوا کا گزرنا اور بھی تکلیف دہ ہوتا ہے ۔ مجھے یاد ہے کہ والد بیماری کی حالت میں کبھی کبھار مجھے بھی ریلوے لائن کے درمیان بچھے ہوئے پتھروں پر رات کے گھٹاٹوپ اندھیرے میں چلاتے ہوئے کیبن پر لے جایا کرتے تھے ۔کیبن پررات کے بارہ بجے پہنچ کر وہ ایک چٹائی لکڑی کے پھٹوں پر بچھا کر مجھے سونے کے لیے کہتے جہاں نیچے سے بھی سرد ہوا کے جھونکے اٹھتے اور کیبن کے ٹوٹے ہوئے شیشوں سے بھی سرد ہوامجھے پریشان کرتی لیکن باپ کی شفقت اور محبت کی بنا پر میں کچھ نہ بول سکتا تھا پھر جب کسی ٹرین کی آمدکا سلاٹر بجتا تو لکڑی کے تختوں سے اٹھ کر مجھے دو من وزنی لیور جب پوری طاقت لگا کر کھینچنے پڑتے تو نانی یاد آجاتی ۔ سردیوں کے موسم میں جہا ں لوہے کی تاریں لیور اور زیادہ سخت ہوجاتے ہیں اسی طرح ان کو کھینچنے میں بھی پہلے سے زیادہ طاقت اور دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہوگی کہ اگر رات کے دو بجے سخت سردیوں کے عالم میں اوٹر سگنل کی بتی تیز ہوا کے جھونکوں سے بجھ جائے تو کیبن مین کی یہ ڈیوٹی ہوا کر تی تھی کہ وہ بارش ہو یا طوفان ٗ سردی ہو یا گرمی کیبن سے اترے اور مشکل ترین حالات اور رات کے اندھیرے میں جاکر سگنل کو دوبارہ روشن کرے ۔(اب شاید مین لائن پر الیکٹرک سگنل نصب ہو چکے ہیں۔لیکن برانچ لائنوں پر اب بھی پراناہی سسٹم چلا آرہاہے ۔اسی طرح شنٹنگ پورٹر کی جاب بھی بہت خطرناک ہوتی ہے ۔حبیب آباد سے میرے والد رشوت دے کر( ریلوے میں کوئی کام رشوت کے بغیر نہیں ہوتاحتی کہ چھوٹے ملازمین کی پنشن کی رقم کی ادائیگی بھی رشوت کے بغیر نہیں ہوتی ) ہماری تعلیم کے لیے ٹرانسفر کروا کر لاہور کینٹ پہنچے تو انہیں یہاں شنٹنگ پورٹر کا خطرناک ترین کام کرنا پڑا ۔ میرا دل اس وقت دھک سے بیٹھ جاتا تھا جب میں اپنے والد کو ریلوے کے درمیان میں گاڑی کا دو من وزنی لیور ہاتھوں میں اٹھائے کھڑا ہوا دیکھتا تھااور ریلوے انجن اسی لائن پر اسی کھڑی ہوئی گاڑی کی جانب دوڑتا چلا آتا پھر وہ ایک دھماکے سے گاڑی سے ٹکراتا تو شنٹنگ پورٹر کی حیثیت سے میرے والد دو من وزنی لیور کو اٹھا کر انجن کے ہک میں نہ صرف ڈالتے بلکہ چند لمحوں میں اسے کس کے تیزی سے باہر بھی نکل آتے ۔ اگر چند لمحوں کی تاخیر یا سستی ہوجاتی تو انسانی جسم کئی ٹکڑوں میں تبدیل ہوجاتا ۔افسوس تو اس بات کا ہے کہ ریلوے کی تاریخ میں نہ کیبن مین کی قربانیوں کا کہیں ذکر آتا ہے اور نہ ہی جان پر کھیل کر ریلوے کو چلانے والے شنٹنگ پورٹر کو کوئی یاد کرتا ہے انتہائی مشکل اور جان لیوا کام کرنے والے ان ملازمین کو اتنی کم تنخواہ ملتی ہے جس سے بیوی بچوں کا تو کجا اپنا پیٹ بھی نہیں بھر سکتے ۔ انہیں تنخواہ کے علاوہ نہ تو سردی الاؤنس دیا جاتا ہے اور نہ ہی سخت ترین سردیوں میں ٹھٹھر کر اور شدید ترین گرمیوں میں جان خطر ے میں ڈال کر فرائض کی انجام دہی کا کوئی ایوارڈ ملتا ہے چنانچہ ان دونوں پوسٹوں پر کام کرنے والے ریلوے ملازمین ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ذہنی پستیوں اور غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبے ہوئے قبروں میں نہ صرف خود اتر جاتے ہیں بلکہ اپنے بچوں کو بھی تعلیم دلوا کر اچھا شہر ی نہیں بنا سکتے ۔اگر میرے والد اپنی جان پر کھیل کر انتہائی خطرناک ڈیوٹی سنبھال کر ہمیں حبیب آباد سے لاہور نہ لے کر آتے تو آج ہمارا شمار بھی تعلیم یافتہ انسانوں میں نہ ہوتا ۔پتہ نہیں اب بھی کتنے ہی کیبن مین اور ان کے بیوی بچے بدترین حالات میں سخت ترین سردیوں میں مشکل ترین زندگی گزارنے پر مجبور ہیں پتہ نہیں ان کے بچے سکول کیسے جاتے ہوں گے اور وہ باعزت شہری کیسے بنیں گے وگرنہ معاشرے پر بوجھ تو ثابت ہوں گے ہی ۔ ریلوے وزیر خواجہ سعد رفیق سے میری گزارش ہے کہ وہ خود کراچی سے پشاور تک بلکہ جہاں تک ریلوے ٹرین چلتی ہے وہاں تک کیبن کے کم ازکم شیشے تو لگوا دیں اور نیچے لکڑی کے پھٹوں کی جگہ پلاسٹک شیٹ لگوا دیں تاکہ وہ انسان جو کیبن مین کی حیثیت سخت ترین سردیوں میں بھی ریلوے کو جاری رکھنے کا اہم ترین فریضہ انجام دے رہے ہیں ان کی زندگی میں بھی کوئی راحت اور سکون کا لمحہ میسر آجائے اسی طرح جان پر کھیلنے والے شنٹنگ پورٹر کے لیے خصوصی الاؤنس کا اعلان کیا جائے ۔
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 785007 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.