سیاسی اور مذہبی جنون
(Sajid Hussain Shah, Riyadh)
برداشت بزدلی نہیں بلکہ زندگی کا
ایک اہم اصول ہے جس دل میں قوت برداشت ہو وہ کبھی ہار نہیں سکتا بہترین
انسان وہ ہے جسکا اپنے جذبات پز مکمل کنٹرول ہونہیں تو اس دنیا میں رہنا نہ
صرف مشکل ہو جاتا ہے بلکے بہت سی دشواریوں کا سا منا کرنا پڑ سکتا ہے یہاں
ایک واقعہ آ پ کی پیش نظر کرنا چاہوں گا جس سے شاید میں جس عنوان پر بات
کرنا چاہ رہا ہوں وہ آپ کو سمجھا سکوں کیونکہ ا س واقعے کی وجہ سے نہ صرف
مجھے بلکے کئی پاکستانیوں کو شرمند گی کا سا منا کر نا پڑا ۔ اپنے پیارے
وطن سے 4000 کلو میٹردور سعودی عرب کے شہر الخرج کے ایک فٹ پاتھ پر بیٹھے
دو پا کستا نی نوجوان روزگار کے متلا شی تھے انکی نظر ہر آنے والی گاڑی پر
تھی اور جیسے ہی کوئی گا ڑی رکتی وہ اس گاڑی پر لپک پڑتے کہ شا ید کوئی
انھیں اپنے کسی کام پر لے جا ئے ا ور وہ دہا ڑی کما کر اپنے بچوں اور
خاندان کا پیٹ بھر سکیں لیکن اس دن انکی بد نصیبی کے انھیں کوئی کام نہ ملا
اوروہ وہیں فٹ پاتھ پر بیٹھ گئے اور گفت و شنید میں مصروف ہوگئے گھر کے
حالات سے بات دھیرے دھیرے سیاست پر آگئی ان میں سے ایک نوجوان حکومت کا حا
می تھا اور دوسرا تحریک انصاف کا جنونی تھا دونوں ایک دوسرے کے لیڈر صا
حبان کو برا بھلا کہنے لگیبات بڑتے بڑتے لڑائی پر آ گئی وہاں موجود لوگوں
نے بیچ بچا ؤ کیا ان میں سے ایک نوجوان اپنی رہا ئش گا ہ کی رخ چلا گیا اور
دوسرا وہیں روزگار کی تلاش میں بیٹھ گیا کچھ دیر گزرنے کے بعدجو نوجوان
اپنی رہائش پر گیا تھا ہاتھ میں چھرا تھامے آ یا اور سیدھا وہاں بیٹھے آدمی
کے پیٹ میں گھومپ دیا جس سے وہ شدید زخمی ہو گیا وہاں موجود لوگوں نے پولیس
کو اطلا ع دی پولیس موقع محل پر پہنچی ایک کو اسپتال بھیجا اور دوسرے کو
جیل لے گئی یہ سارا ما جرا جب پولیس کو سنایا گیا تو نہ صرف پولیس بلکے
وہاں پر مو جود کئی دوسرے مما لک کے لوگ اس بات کو لے کر طنزح ومزاح کرنے
لگے کہنے لگے یہ کیسے لوگ ہیں اور میں یہ کہوں گا کہ دو بیوقوف پا کستا
نیوں نے ہماری جگ ہنسا ئی کروا دی آ جکل ہم ویسے بھی پوری دنیا کے لیے تما
شہ ہی بنے ہو ئے ہیں بحر حال اب وہ نوجوان جیل میں ہے اور دوسرے کو اپنی
اوقات سے کا فی زیادہ رقم آ فر کر رہا ہے کہ لے لو اور مجھے معاف کر دو
لیکن اسپتال والا نوجوان بضد ہے کہ اب جیل میں سڑتے رہو میں معاف نہیں کروں
گا کیونکہ یہا ں تو قا نون سخت ہے جب تک وہ اسے معا ف نہیں کر ے گا تو وہ
جیل میں اپنی مقرر کردہ سزا کا ٹے گا اور اگر وہ اُسے معا ف کرکے اس سے
معاوضہ لے بھی لیتا ہے توپھر بھی اس نوجوان کے لیے مشکلات ہی مشکلات ہیں
کیو نکہ وہ جو رقم اسے دے گا تو وہ کسی سے قرض ہی لے گا اور پھر ا س قرض کو
اتا رنے میں اس کی عمر بیت جا ئے گی اسکے زیر کفا لت جو لوگ پاکستان میں
ہیں وہ بد حالی کا شکار ہوں گے چاہے وہ جیل میں ہو یا آزاد ہو۔اب آ پ ہی
بتا ئیں کہ ان کے اس جنون سے انھیں کوئی فائدہ ہوا یاانکے لیڈر صاحبان کو
کوئی فا ئدہ ہوا ؟ ان نا دانوں سے کوئی پو چھے کے تمہا ری اس حرکت سے
تمہارے لیڈر صا حبان کی طرف سے تمہیں کیا شاباشی ملی وہ تو ہزاروں میل دور
پا کستان میں بیٹھے ہیں انھیں تو اس بات کا علم تک نہیں ہو سکتا اپنے ملک
کو کا نا م بھی خراب کیا اورخود بھی پریشانی میں مبتلا ہوئے-
کسی کی غلطی واضح کرنے کے لیے غیر اخلا قی رویے کی نہیں بلکے ٹھوس استدلال
کی ضرورت ہو تی ہے اپنا اظہار ے رائے دینا،تنقیدکرنا،احتجاج کرنا سب کا حق
ہے لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کے ہم جذبا تی ہو جائیں اور اپنے آپ کو ہی نقصان
پہنچا دیں دنیا کی تا ریخ بھری پڑی ہے کہ کیسے تہذیب یا فتہ قومیں اپنے
احتجاج اور اپنا اظہا رے رائے ریکارڈ کرواتی ہیں ان میں سے اگر ہم جنو بی
کو ریا میں ہو نے والے لانگ مارچ کی مثال لیتے ہیں تو اُس لانگ ما رچ میں
لاکھوں لوگ مو جود تھے لیکن مجال ہے جو کسی نے کسی کے سا تھ بد تمیزی کی ہو
یا کسی بھی املاک کو ہا تھ لگا یا ہو یہا ں تک کے ٹریفک بھی بلاک نہیں ہو
ئی سڑک کے دونوں کنا روں پر لاکھوں افراد موجود تھے لیکن کوئی بھی سڑک پر
نہیں آ یا اور ٹریفک رواں دواں رہی جن قو موں میں جنون پا یا جا تا ہے وہ
کا میا ب ہو تی ہیں لیکن جنون مثبت ہو نا چا ہیے ہمیں اپنے جنون کو اپنے
ملک کی بہتری کے لیے استعمال کر نا چا ہیے نہ کہ بر با دی کے لیے جنونی ہو
کر ہم ایک دوسرے کو ما رنے لگتے ہیں اپنی املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں جس کا
خمیازہ بعد میں ہمیں ہی بھگتنا پڑتا ہے اس بڑھتے ہو ئے جنون کا نقصان
دوسروں کو کم اور ہما ری اپنی ذات کو زیادہ پہنچتا ہے-
رات ایک سو شل ویب سا ئٹ پر کسی نا مور صا حب کے نام سے منسو ب ایک پیغام
پڑھا تو دل کا نپ اٹھا کہ خدایا ہماری قوم کا کیا بنے گا اُن صا حب نے شیعہ
سنی فسا دات کو چنگا ری لگا نے کی کو شش کی ہوئی تھی ہم حا ل ہی میں اتنے
بڑے سا نحے سے دو چا ر ہوئے ہیں کہ ہم میں مزید کسی اور سا نحے کو برداشت
کرنے کی ہمت نہیں اور وہ صا حب نیا فساد ابھا ررہے ہیں کیو نکہ شر پسند عنا
صر جا نتے ہیں کہ ہماری قو م کی کمزوری کیا ہے مذ ہبی انتہا پسندی میں بھی
ہما ری قو م کسی لحا ظ سے کم نہیں ہر فر قہ دوسرے فر قے کو کا فر کہہ کر
پکا رتا ہے پچھلے چند سا لوں میں مذہبی انتہا پسندی میں بڑی تیزی سے اضا فہ
ہوا کہیں ایسا تو نہیں کہ ہما رے اس رویے کا فا ئدہ کوئی باہر والا اٹھا
رہا ہو ؟مذہبی انتہا پسندی کو روکنے کے لیے حکومت کو ایسے عنا صر جو شر
پسندانا بیانات دیتے ہیں ان کے خلا ف کا روائی کر نی چا ہیے ایسے لو گ مذہب
کی آڑ میں صر ف اور صرف فتنا پھیلا تے ہیں میری اپنی قوم سے التجا ہے کہ
ایسے لوگوں کی پیروی کر ناچھوڑ دیں ہمارا دین اسلا م بہت آ سان دین ہے دینِ
اسلام میں کوئی ایسی مشکل بات نہیں جو ہمیں سمجھ نہ آ سکے ہما رے لیے ہمارے
آخری پیغمبر محمدﷺ کی پوری زندگی مشعل راہ ہے اس لیے ضروری نہیں کے ہم
دوسروں کی باتوں پر اندھا اعتماد کریں آ پ سے اگر کوئی بھی اسلام کے حوالے
یاسے جہاد کے حوالے سے بات کرے تو آپ بجا ئے اس کے ان کی اندھی پیروی کریں
آپ سب سے پہلے اس بات کا جا ئزہ قرآن وحدیث کی روشنی میں لیں کہ آیا ہمارا
مذہب اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ نہیں کیو نکہ ایسا نہ ہو کے کوئی آپ کے
مذہبی جنون سے غلط فائدہ اٹھائے اور خود بھی جہنم میں جائے اور آپ کی بھی
آخرت خراب کرے ۔دینِ اسلام کبھی بھی کسی بے گناہ کی جان لینے کا سبق نہیں
دیتا اسلام میں جبر نہیں پا یا جا تا اور ہمیں بھی اس بات سے سختی سے منع
کیا گیا ہے کہ کسی کو زبردستی اسلام قبول کر نے پر مجبور نہ کیا جائے اس
لیے ہمیں دوسروں کے عقا ئد کا احترام کر نا چا ہیے جو کسی بھی معا شرے میں
امن قا ئم کر نے کے لیے بے حد ضروری ہے میری دعا ہے کہ ا ﷲ ہم سب کو ہدایت
دے ا ور سیدھی راہ دکھا ئے- |
|