پیغمبر اسلام کی تعلیمات میں حقوق انسانی کا تصور
(Abdullah Salman Riaz, India)
چودہ صدی قبل حقوق انسانی
کے بارے میں اسلامی تعلیمات کا جائزہ لیں اور پھر فیصلہ کریں کہ حقوق
انسانی کا حقیقی علمبردار وہ نہیں ہے جو آج ببانگ دہل جھوٹا دعویٰ کرتا
پھرتا ہے بلکہ حقیقی معنی ٰ میں حقوقِ انسانی کا پاسبان وہ ہے جسے آج دنیا
دہشت گرد کا نام دے رہی ہے۔جس مذہب کو اور جس مذہب کے پیغمبر کی تعلیمات کو
آج لوگ دہشت گر، آتنک واد اور Terrorist کہتے پھر رہے ہیں۔آئیے یہاں اس کا
ایک سرسری جائزہ لیتے ہیں کہ حقیقی اور سچا حقوقِ انسانی کا علمبردار، امن
عالم کا پاسبان، انسانیت کا پیامبر، رحمت اللعالمین ، شفیع المذنبین کون ہے
؟ جس نے انسانوں سے لے کر حیوانوں تک چرند وپرند سے لے کر کیڑے مکوڑوں تک
کے حقوق بتائے۔وہ کون ہے جس نے چرواہوں کو امامت و قیادت سے
سرفرازفرمایا۔وہ کون ہے جو سب کے لئے رحمت بن کر آیا ؟ وہ محمد الرسول اﷲصلی
اﷲ علیہ وسلم کی ذات اقدس ہے جس نے ہر ایک کے الگ الگ حقوق بتائے، ہر ایک
کا منصب و مقام متعین کیا۔
حجۃالوداع کے موقع پرآپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے بنی
نوع انسان کو حقوق انسانی کا ایک ایسا عظیم الشان ، جامع منشور عطا
فرمادیاجس کا قیامت تک کوئی متبادل نہیں ہوسکتا۔امریکہ اور اہل مغرب نے جب
کبھی خلوص دل سے اس کا مطالعہ کیا اور اس پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا تو
بلاشبہ اسی روز سے دنیا امن و سلامتی کا گہوارہ بن جائے گی ۔ آپ صلی اﷲ
علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’لوگو! بے شک تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ
بھی ایک ہے ،سنو! کسی عربی کو عجمی پر کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں
،نہ ہی سرخ رنگ والے کوسیاہ رنگ والے پر اور نہ ہی سیاہ رنگ والے کو سرخ
رنگ والے پر کوئی فضیلت ہے ،سوائے تقویٰ کے ۔‘‘ (مسند احمد) دوسری جگہ خطبہ
دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ’’لوگو! تمہارے خون، مال اور عزتیں ایک دوسرے پر
ہمیشہ کے لئے حرام کردی گئی ہیں ان چیزوں کی حرمت ایسی ہی ہے جیسی آج
تمہارے اس دن (یعنی 10ذی الحجہ ) کی جیسی اس ماہ (یعنی ذی الحجہ ) کی اور
جیسی اس شہر میں (مکہ)کی۔‘‘ (بخاری ،ابوداؤد، نسائی)
نبی رحمت صلی اﷲ علیہ وسلم نے انسانی جان کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے
یہاں تک احتیاط کرنے کا حکم دیا کہ ’’جو شخص لوہے(کے ہتھیار) سے اپنے بھائی
کی طرف اشارہ کرے، فرشتے اس پر اس وقت تک لعنت کرتے رہتے ہیں جب تک اس سے
وہ باز نہ آجائے ،خواہ اس کا حقیقی بھائی ہی کیوں نہ ہو۔‘‘(مسلم) غیر
مسلموں کی جان کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے فرمایا ’’جس نے کسی ذمی کو (بلاوجہ)قتل
کیا وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا ۔‘‘غزوات کے لئے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم
نے صحابہ کرام ؓکو درج ذیل ہدایت دے رکھی تھیں : ,,مقتولوں کا مثلہ نہ کرنا
، دشمن کی املاک میں لوٹ مار نہ کرنا ،دشمن کو اذیت دے کر قتل نہ کرنا ،
دشمن کو دھوکے سے قتل نہ کرنا ،دشمن کو آگ میں نہ جلانہ ، دشمن کو امان
دینے کے بعد قتل نہ کرنا ،عورتوں ،بچوں اور مزدوروں ،درویشوں اور عابدوں کو
قتل نہ کرنا ، پھلدار درخت نہ کاٹنا ،جانوروں کو ہلاک نہ کرنا ، بد عہدی نہ
کرنا، جو لوگ اطاعت اختیار کرلیں ان کی جان و مال کی اسی طرح حفاظت کرنا جس
طرح مسلمان کے جان و مال کی حفاظت کی جاتی ہے ،،۔(بخاری ،مؤطا،ابوداؤد،ابن
ماجہ)
شریعت اسلامیہ محمدیہ صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیمات محض زبانی نہیں تھیں
بلکہ ان تعلیمات پر مسلمانوں نے ہر عہد میں پوری پابندی سے عمل بھی کیا ،ہم
یہاں مثال کے طور پر چند واقعات کا ذکر کررہے ہیں۔
شعبان 8ھ میں رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت خالد بن ولید ؓ کو ایک
قبیلہ کی طرف تبلیغ کے لئے بھیجا ،غلط فہمی کی بنا ء پر بستی کے چند افراد
کو کافر سمجھ کر قتل کردیا گیا۔رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو اطلاع ملی تو آپ
صلی اﷲ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے اور فرمایا ’’یا اﷲ ! خالد نے
جو کچھ کیا میں اس سے بری الذمہ ہوں ۔‘‘ بعد میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے
تمام مقولین کی دیت ادا فرمائی اور ان کے دیگر نقصان کا معاوضہ ادا فرمایا
۔
رجب 2 ہجری میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک دستہ ،خبر رسانی کے لئے بھیجا
جس کا ٹکراؤ قریش کے ایک قافلہ سے ہو گیا ۔صحابہ کرام ؓ نے مشاورت کے بعد
رجب کے مہینے میں قریشی قافلہ پر حملہ کردیا، قافلہ کا ایک آدمی قتل ہوا ،دو
گرفتار ہوئے اور ایک فرار ہوگیا۔رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو خبر ملی تو
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ’’میں نے تمہیں حرام مہینے میں جنگ کرنے کا
حکم نہیں دیا تھا ،چنانچہ دونوں قیدیوں کوآزاد کردیا اور مقتولوں کا خون
بہا اداکیا۔
غزوہ بدر میں مشرکین مکہ کے ستر افراد قید ہوئے ۔یہ وہ لوگ تھے جو مسلمانوں
کے جانی دشمن تھے ۔مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے ارادے سے نکلے تھے،
لیکن جب قیدی بن کر آئے تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ کرام ؓ کو ان
قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک کر نے کا حکم دیا، چنانچہ صحابہ کرام ؓ خود
کھجوریں کھاتے اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے جن قیدیوں کے پاس کپڑے نہیں تھے
،انھیں کپڑے فراہم کئے ۔ قیدیوں میں ایک شخص سہیل بن عمرو بھی تھا جو رسول
اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بارے میں اشتعال انگیز تقریریں کیا کرتا تھا ۔حضرت
عمر ؓ نے تجویز پیش کی ’’یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ! اس کے اگلے دو دانت
تڑوادیجئے تاکہ آئندہ یہ آپ کے خلاف گستاخانہ زبان استعمال نہ کر سکے ۔‘‘
سزا دینے کا معقول جواز تھا اور کوئی رکاوٹ بھی نہ تھی ،لیکن رحمت عالم صلی
اﷲ علیہ وسلم نے حضرت عمر ؓ کی تجویز مسترد فرماکر قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک
کی ایسی مثال فرمادی جو رہتی دنیا تک اپنی مثال آپ رہے گی۔
جنگ بدر کے قیدیو ں میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے داماد ابوالعاص بھی شامل
تھے ۔آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی بیٹی حضرت زینب ؓ نے ابوالعاص کے فدیے میں کچھ
مال بھیجا جس میں ایک ہار بھی شامل تھا ،جو حضرت خدیجہ ؓنے اپنی بیٹی کو
رخصتی کے وقت دیا تھا ۔رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے وہ ہار دیکھا تو رقت
طاری ہوگئی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ کرام ؓ سے کہا کہ اگر آپ لوگ
اجازت دیں تو ابوالعاص کو بلا فدیہ چھوڑدیا جائے ۔صحابہ کرام ؓنے برضاو
رغبت اجازت دی تب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ابوالعاص کو رہا فرمایا۔
جنگ حنین میں چھ ہزار قیدی مسلمانوں کے ہاتھ لگے ۔رسول اکرم صلی اﷲ علیہ
وسلم نے تمام قیدی بغیر فدیہ لئے نہ صرف آزاد کردیئے بلکہ تمام قیدیوں کو
ایک ایک قبطی چادر ہدیۃً عنایت فرماکر رخصت کیا ۔آج پوری دنیا میں اپنی
عظمت اور تہذیب کا پھر یرا بلند کرنے والے حقوق انسانی کے علمبردار اور
محافظ اپنی صدیوں پرانی تاریخ میں سے کوئی ایک ہی ایسی مثال پیش کرسکتے ہوں
تو پیش کرکے دکھائیں ۔
عہد فاروقی میں اسلامی لشکر نے ایک ذمی کی زراعت پامال کردی۔ حضرت عمر ؓ نے
اس کو بیت المال میں سے دس ہزار درہم کا معاوضہ ادا فرمایا۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلا م نے آج سے چودہ سو سال قبل جس انداز میں حقوق انسانی
کا تحفظ کیا ہے آج پوری دنیا اپنی تمام تر ترقی اور حریتِ فکر کے باوجود ان
حقوق کا تصور تک نہیں کرسکتا ۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 10 دسمبر 1948
ء کو انسانی حقوق سے متعلق 30 دفعات پر مشتمل جس عالمی منشور کا اعلان کیا
تھا ،اسے شروع سے لے کر آخر تک پڑھ ڈالئے اس میں دئیے گئے تمام حقوق
’’انسان‘‘ کے حوالے سے ہی ملتے ہیں ،لیکن پیغمبر اسلام نے جس طرح ہر انسان
کی الگ الگ حیثیت کا تعین کر کے حقوق مقرر کر کے فرمائے ہیں۔مثلاً والدین
کے حقوق،اولاد کے حقوق ،شوہر کے حقوق، بیوی کے حقوق، رشتہ داروں کے حقوق
،ہمسایوں کے حقوق ، یتیموں کے حقوق،مسکینوں اور محتاجوں کے حقوق ،سوالیوں
کے حقوق، مسافروں کے حقوق ،قیدیوں کے حقوق، غیر مسلموں کے حقوق ،حتیٰ کہ
چند لمحوں کے لئے کسی جگہ ساتھ کھڑے ہونے والے ساتھی (صاحب الجنب) کے حقوق
بھی مقرر فرمادئیے۔آج پوری دنیا میں اس انداز سے حقوق کا تعین کرنے کی سوچ
قیامت تک پیدا نہیں ہو سکتی ۔
اہل مغرب کے ہاں عورت کے حقوق کا بڑا شورو غوغا ہے ،لیکن سچی بات یہ ہے کہ
مغرب نے حقوق نسواں کے نام پر عورت کو سربازار عریاں کرنے کے علاوہ اگر
کوئی اور حق دیا ہے تو ثنا خوان تقدیس مغرب کو اس کی وضاحت کرنی چاہئے۔ جب
کہ اسلام نے نہ صرف عورت کی عصمت اور عفت کا تحفظ کیا ہے بلکہ اسے معاشرے
میں با عزت اور باوقار مقام بھی عطا فرمایا ہے ۔ماں کی حیثیت سے اسے باپ سے
بھی زیادہ حسن سلوک کا مستحق قرار دیا ہے ۔بیوی کی حیثیت سے اس کے الگ حقوق
مقرر فرمائے ،بیٹی اور بہن کی حیثیت سے بھی اس کے حقوق مقرر فرمائے ہیں
۔اگر بیوہ ہے تب بھی اس کے حقوق مقرر فرمائے ہیں، اگر مطلقہ ہے تب بھی اس
کے حقوق مقرر فرمائے ہیں ۔کیا ترقی یافتہ اور حریت فکر کا علمبرداردنیا
عورت کو آج بھی یہ حقوق دینے کے لئے تیار نہیں ؟ سچ بات یہ ہے کہ حقوقِ
انسانی کے سلسلے میں پیغمبر اسلام نے جس طرح واضح انداز میں حقوق بتائے ہیں
، اس کی مثال کسی اور کی تعلیمات میں ملنی مشکل ہے۔ |
|