ابوا کی ریت سے

یہودی، عیسائی، مسلمان، ہندو، سکھ، بدھ مت، زرتشت اور نصرانی وغیرہ۔۔۔۔۔یہ سب کیا ہیں؟ مجھے ان چکروں میں نہیں پڑنا۔۔۔۔۔۔آپ مجھے ایک ایسا انسان سمجھیں جس کا کوئی مذہب ہی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔جب کوئی مذہب ہی نہیں تو فرقہ واریت کا سوال اپنی موت آپ مر جاتا ہے۔ میں ایک ایسا انسا ن ہوں جسے تلاش ہے عزیمت کی ایک ایسی داستان کی جو میرے بنائے ہوئے پیمانے پر ایسے پوری اُترے کہ جس کے بعد مجھ میں مزید کسی عظیم کی جستجو باقی نا رہے ۔

میں انسانوں کو پرکھنے کے لیے اپنے ساتھ ساتھ ایک پیمانہ اُٹھائے پھرتا ہوں جس میں تین چیزیں ہیں۔
Greatness of the purpose
Shortness of the means
Astonishing results

میں ہر عظیم انسان کو اسے معیار پہ تول کے دیکھتا آرہا ہوں۔نیلسن مینڈیلا، مارٹن لوتھر کنگ، ہوگوشیاویز، ماؤ، نیوٹن، آئن سٹائن، گوئٹے، ایڈیسن، علامہ اقبال، قائداعظم، عبدالستار ایدھی اور جتنے بھی ایسے بڑے بڑے نام ہیں وہ عظیم تھے، ہیں اور رہیں گے ۔ اپنی قابلیت کے لحاظ سے میرے قائم کردہ پیمانے پر کسی حد تک یہ لوگ پورے بھی اُترتے ہیں مگر مجھے تلاش تھی ایسے بڑے انسان کی جس کے سامنے ان کی وقعت اُس کے قدموں کی خاک سے بھی کم دکھائی دے۔

میں جہاں رکتا ہوں وہاں میرے سامنے مائیکل ہارٹ کی یہ ایک لائن ہے
“He was the most successful person both at religious and secular level”.
مگر میں اس فقرے پہ ہی اکتفا نہیں کرتا ۔۔۔۔۔۔۔مجھے اُن جیسا نہیں بننا جن سے اگر پوچھا جائے کہ آپ کا پسندیدہ شاعر کونسا ہے تو بغیر کسی توقف کے علامہ اقبال کا نام لیتے ہیں اور اگر اُن سے کہہ دیا جائے کہ جناب اقبال کا کوئی شعر تو سنائیں تو اُن کا جواب ہوتا ہے:
"بھائی شعر تو مجھے نہیں آتا"۔

نہیں نہیں بھائی مجھے ایسا نہیں کرنا ۔۔۔۔مجھے لگتا ہے کہ میرے ایسا کرنے سے اُس کی شان میں کمی آئی گی جسے میں نے اپنا پسندیدہ مانا ہے ۔

میں پھر مائیکل ہارٹ کی طرف لوٹتا ہوں اور اُس انسان کو اپنے پیمانے پر جانچتا ہوں جس کے بارے میں مائیکل نے کچھ الفاظ کہے۔
Greatness of the purpose

تو اس کے لیے آپﷺ کی زندگی کا وہ واقعہ جب قریش مکہ آپﷺ کو کہتے ہیں کہ اگر آپ ﷺ کو سرداری چاہیے تو ہم آپ ﷺ کو اپنا سردار چن لیتے ہیں ، اگر آپﷺ کو دولت چاہیے تو ہم آپﷺ کو اپنا امیر بنا دیتے ہیں اور اگر آپﷺ کا مقصد اس تحریک کے ذریعے کسی عورت کا حصول ہے تو ہم آپﷺ کی شادی قریش کی سب سے خوبصورت عورت سے کروا دیتے ہیں۔

ان باتوں کے بعد جب محسنِ انسانیتﷺ کے لب کھلتے ہیں اور اپنے چچا سے مخاطب ہوتے ہیں جو قریش کی طرف سے اس پیغام کو لے کر آئے تھے تو فرماتے ہیں :
"چچا جان! خدا کی قسم ۔ یہ لوگ اگر میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھ کر چاہیں کہ اس مشن کو چھوڑ دوں، تو میں اس سے باز نہیں آسکتا۔ یہاں تک کہ یا تو اللہ تعالیٰ اس مشن کو غالب کردے یامیں اسی جدوجہد میں ختم ہو جاؤں"۔

یہ ایک عظیم انسان کا مقصد ہے اور مجھے اس سے بڑا مقصد اور مقصد سے لگن کسی اور کی زندگی میں نظر نہیں آئی۔
پھر میں
Shortness of the means
کی طرف آتا ہوں تو مجھے ابوا کی تپتی ریت پہ ایک معصوم بچہ نظر آتا ہے جس کی ماں آخری سانسیں لیتے ہوئے اُس سے یہ الفاظ کہہ رہی ہے:
"اے بیٹا محمدﷺ ! میں جارہی ہوں۔یاد رکھو ہر نئی چیز نے پُرانی ہونا ہے، ہر باقی نے مٹنا ہے، مگر میرا نام ہمیشہ زندہ رہے گا وہ اس لیے کے میں تیرا جیسا عظیم بیٹا دنیا میں چھوڑے جارہی ہوں"۔

پھر چراغوں میں روشنی نہیں رہتی وہ معصوم بچہ اپنی ماں کو ننھے ننھے ہاتھوں سے دفن کرتا اور قبر پہ آنسوؤں کا چھڑکاؤ کرکے ام ِ ایمن کے ساتھ چل پڑتا ہے دنیا کو درسِ انسانیت دینے کے لیے ، وہ لمحات بھی تاریخ کے سینے میں من و عن محفوظ ہیں اور تاریخ کا دامن آج بھی اُن واقعات کے حوالے سے تر ہے ۔۔۔۔۔تاریخ بتاتی ہے کہ جب سردار قریشِ مکہ عبدالمطب کا جنازہ اُٹھتا ہے تو سارا مکہ اُمڈ آتا۔۔۔۔مگرایک چھوٹا سا بچہ ہے جو دیواروں سے لپٹ لپٹ کا رو رہا ہے۔۔۔۔۔جس کے رشتے اُس سے ایک ایک کر کے چھوٹتے جا رہے ہیں۔۔۔۔۔۔شعب ابی طلب میں کٹے دن رات کو بھی چشم ِ فلک فراموش نہیں کر سکی ۔۔۔۔۔۔۔طائف کی زمین آج بھی گواہ ہے اُن دکھ بھرے لمحات کی جب آپﷺ کو پتھر مارکر وہاں سے نکالا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پیٹ پر بندھے پتھر ، اُس عظیم جرنیل کی فوج کے ہاتھوں میں کھجور کے تنے اور ہر طرح کے آلاتِ حرب سے لیس صف آرا دشمن۔۔۔۔۔یہ واقعات ظاہر کرتے ہیں اُس انسانﷺ کےپاس وسائل کی دستیابی کو۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے ابتدا میں عرض کیا تھا میں ایک عام سا انسان ہوں جسے مذہب کوایک طرف رکھتے ہوئے کسی عظیم کی تلاش ہے۔
اب آتے ہیں
Astonishing results
کی طرف تو میں آپ کو میدانِ عرفات میں لے چلتا ہوں جہاں تا حدِ نظر صحابہ ہی صحابہ ہیں۔آپﷺ مسندِ افتخار پہ جلوہ گر ہیں اور فرما رہے ہیں:
"آگاہ رہوکہ میں نے بات پہنچا دی! اے اللہ تو خود گواہ رہیو!"۔

قارئین ! سوچنے کا مقام ہے ایک تنہا شخص ایک پیغام لے کر چلا تھا ۔۔۔۔۔۔۔لوگوں کی طرف سے بے پناہ مشکلات کے پہاڑ اُ س پر توڑے گئے مگر وہ اُن کے خلاف ڈٹا رہا۔۔۔۔۔۔۔آخر اُس کی محنت رنگ لائی کائنات کے کونے کونے میں اُس کا لایا ہوا پیغام پھیل چکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس وقت دنیا کا دوسرا بڑا مذہب اسلام ہے ۔۔۔۔۔۔اور اس مذہب کے ماننے والوں کی تعداد ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے ۔

ہمیں بحثیتِ انسان خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اُس نے اس کائنات کے باسیوں کو محسنِ انسانیت جیسی نعمت سے نوازا۔
Shah Faisal Naeem
About the Author: Shah Faisal Naeem Read More Articles by Shah Faisal Naeem: 36 Articles with 34049 views Student of BBA (Honors)
Institute of Business Administration (IBA), University of the Punjab, Lahore.
Blogger at:
http://www.express.pk/blog/
http
.. View More