رحمت اللعالمین اور کائنات کا نظام

آپ کے سامنے قرآن پاک کی چار مختلف مقامات سے آیات تحریر ہیں۔ ان آیات کے اندر جو چیز مشترک ہے وہ عالمین ہے۔
١۔ الحمد لللہ رب العالمین۔
٢۔ یبنی اسرائیل ازکرونعمتی انعمت علیکم وانی فضلتکم علی اللعلمین۔
٣۔ وما ارسلنک الا رحمت اللعالمین۔
٤۔ سلام علی نوح فی العالمین۔

غور طلب بات یہ ہے کہ قرآن مجید کے اندر لفظ عالمین تہتر مرتبہ آیا ہے۔ اور قرآن کے اندر عالمین کی جو تشریح کی گئی ہے وہ اصل میں ہے کیا؟ ہمارا ذہن عالمین کو کیا سمجھتا ہے؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تمام کائنات، عالمین کی پرورش کرنے والا رب ہے۔ کسی عالم کی پرورش کیسے ہوتی ہے۔؟ عالم کسے کہتے ہیں۔؟ کیا نظام ہے۔؟ عالم وجود میں کیسے آتا ہے، اس کو سمجا جائے۔اگر ہم مادی دنیا پر تفکر کریں تو یہاں ہمیں تین نظام نظر آتے ہیں۔ کرہ ارض کے اندر جتنی بھی اشیاء ہے اگر ہم ان کو مجموعی شکل میں اکٹھا کریں تو ان اہل علم لوگوں نے زمین کے اندر مخلوقات کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔
١۔ عالم جمادات: جس کو ہم پتھروں کی دنیا کہتے ہیں۔
٢۔ عالم نباتات: جس کو ہم پودوں کی دنیا کہتے ہیں۔
٣۔ عالم حیوانات: چوپائے، انسان، پرندے مخلوقات جو حرکت کرتی ہیں۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں عالمین کی پرورش کرنے والا ہوًں۔ پتھر کی بھی پرورش ہوتی ہے۔ درخت کی بھی پرورش ہوتی ہے۔ انسان کی بھی پرورش ہوتی ہے۔ جو اس کرہ ارض میں جو سب سے باشعور مخلوق ہے۔ ہم ذرا انسان کا تجزیہ کرتے ہیں کہ اس کی پرورش کیسے ہوتی ہے۔؟ ہوا: انسان کی زندگی کے لئے ہوا کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اگر ہمارے اندر سانس کا آنا جانا نہ ہو تو ہم مر جائیں گے۔ یعنی ہوا ہمارے جسم کی پرورش کرتی ہے۔

پانی: اگر ہم پانی نہیں پیئیں گے تو ہماری پھر بھی موت واقع ہو جائے گی۔ تو پانی بھی ہمارے جسم کی پرورش کر رہا ہے۔

غذا: خوراک اگر ہم نی کھائیں تو پھر بھی انسان کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ غذا بھی انسان کی پرورش کر رہی ہے۔

روشنی: یہ بھی انسانی زندگی کا اہم جز ہے۔ اگر انسان کو روشنی کے اندر نہ رکھا جائے تو اسکی موت واقع ہو جائے گی۔ اگر کسی انسان کو گھپ اندھیرے میں رکھیں تو میڈیکل سائنس کہتی ہے کہ انسان کی پھر بھی موت واقع ہو جائے گی۔ روشنی بھی انسان کی یپرورش کر رہی ہے۔

اب ثابت ہوا کہ پانی، ہوا، گیسس، خوراک، روشنی ہماری پرورش کر رہی ہے۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان چیزوں کی پرورش کیسے ہوتی ہے۔ گیس کی پرورش کیسے ہوتی ہے؟ جس طرح ہمارے مادی جسم کو بڑھنے کے لئے گیس کی ضرورت ہے اس کا مطلب ہے کہ گیس کو بھی اپنا وجود برقرار رکھنے کے لئے کسی چیز کی ضرورت ہے ۔ اب سائنسدان یہ کہتے ہیں کہ گیسز روشنی کے ٹکرانے سے وجود میں آتی ہیں۔ اگر روشنی کا ٹکراوء نہ ہو تو گیسز وجود میں نہیں ائیں گی۔ روشنی اگر کسی چیز کو وجود میں لاتی ہیں تو روشنی کو بھی اپنا وجود برقرار رکھنے کے لئے کسی چیز کی ضرورت ہے۔ روحانی بزرگ یہ بتاتے ہین کہ روشنی کا وجود نور کی وجہ سے ہے۔ روشنی کی پرورش نور سے ہوتی پے۔ اور پوری کائنات کے اندر اللہ کی ذات نور بن کر کام کر رہی ہے۔ اللہ نور السموت والارض۔ اللہ زمین و آسمان کا نور ہے۔

اب ہم پانی کی طرف آتے ہیں۔ پانی کی پرورش دو گیسز آکسیجن اور ہائیڈروجن کرتی ہیں۔ جب یہ دو گیسز آپس میں ملتی ہیں تو پانی کی پرورش شروع ہو جاتی ہے۔ اور گیسز کی پرورش روشنی سے اور روشنی کی پرورش اللہ کے نور سے۔ اب بات یہاں بھی اللہ پر آکر ختم ہو گئی۔ اب ہن اپنی خوراک کی طرف دیکھتے ہیں ہماری خوراک زمین سے نکلنے والی اجناس ہیں۔ پھل ہے، گندم ہے، سبزیاں ہین، یہ ہمارے جسم کی پرورش کرتی ہیں۔ پھل اور زمین کی پرورش کیسے ہوتی ہے؟ پودوں کے لئے بھی چار چیزوں کی ضرورت ہے۔ روشنی، ہوا، پانی اور مٹی۔ اب پودے مٹی کے ذریعے اپنی خوراک لیتے ہیں۔ پانی لیتے ہیں۔ فضا سے ہوا لیتے ہیں۔ روشنی لیتے ہیں۔ اس کو ضیائی تالیف کا عمل کہتے ہیں۔ اب زمین کے اندر بنیادی چیز مٹی ہے۔ مٹی بھی اپنا وجود برقرار رکھنے کے لئے کہیں سے مدد لیتی ہے۔ تو مٹی کا وجود اس طرح بنتا ہے کہ روشنی گیسز کے اندر تبدیل ہوتی ہیں۔ گیسز مائع کے اندر تبدیل ہوتی ہیں۔ مائع ٹھوس میں تبدیل ہو جاتا ہے جس کو ہم پھتر بھی کہتے ہیں مٹی بھی کہتے ہیں۔ یعنی جو ٹھوس چیزیں ہیں وہ مائع کے نظام سے گزر کر ایک مخصوص پروسس کے ذریعے تخلیق ہو جاتی ہیں۔ ان کے پیچھے جو نور کام کرتا ہے اس کو توانائی یا انرجی کہتے ہیں۔ برف ایک ٹھوس چیز ہے۔ جب ہم اس کو حرارت دیتے ہیں تو وہ مائع میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ جب ہم پانی کو گرم کرتے ہیں تو وہ گیسز میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ آگر ہم کسی طرح گیسز میں حرارت داخل کریں تو ہمیں وہاں پر روشنی کی سپارکینگ نظر آئے گی۔ مختلف رنگوں کے حالے نظر آئیں گے۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ روشنی گیسز کو تخلیق کر رہی ہے۔ گیسز مائع کو تخلیق کر رہی ہیں۔ مائع ٹھوس چیزوں کو تخلیق کر رہا ہے۔ تو ہر نظام ایک دوسرے کی پرورش کر رہا ہے اور پرورش کے اندر جو چیز مشترک ہے وہ کیا ہے؟ وہ اللہ تعالیٰ کا نور ہے۔ اس پروسس کو ہم یہ کہتے ہیں الحمد لللہ رب العالمین۔

یہ اس عالم ناسوت کی بات ہے۔ جس نظام کے اندر تین چیزیں ہیں۔ جمادات۔ حیوانات۔ نباتات۔ ان چیزوں کو دیکھ رہے ہیں۔ اب روشنی کا جو ذریعہ ہے وہ کیا ہے؟ جس طرح ہمیں زمین کے اندر تین طرح کی مخلوق نظر آتی ہیں اس طرح آسمانی دنیا میں بھی تین چیزیں نظر آتی ہیں۔ آسمانی دنیا کے اندر تین ذریعے ہیں۔ سورج، چاند اور ستارے ہیں۔

اب چاند جو ہے وہ اپنی بقا کے لئے سورج سے روشنی لیتا ہے۔ روشنی لے کر وہ زمین پر ریفلیکٹ کرتا ہے۔ اور روشنی زمین کی تخلیق کے اندر کردار ادا کرتی ہے۔ سورج روشنی کا ذریعہ ہے۔ سورج بھی روشنی زمین کی طرف بھیجتا ہے اس روشنی سے گیسز بنتی ہیں۔ پودے تخلیق ہوتے ہیں۔ خوراک وجود میں آتی ہے۔ یعنی کہ روشنی بنیادی طور پر ہمارے نظام کو تخلیق کرنے کا ذریعہ بن گئی ہے۔ اب یہ ہے کہ سورج بھی، چاند بھی اپنی بقا کے لئے روشنی لیتا ہے۔ستاروں سے بھی روشنی نکل رہی ہے اور سائنسدان یہ کہتے ہیں کہ ستاروں کی روشنی ایک لاکھ چھیاسی ہزار دو سو کلو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے زمین کی طرف آرہی ہے اور ان روشنیوں کے ٹکراؤ سے کہکشانی نظام وجود میں آتے ہیں۔ ہمارے نظام شمسی کے اندر یا کسی بھی نظام کے اندر سسائنسدان کہتے ہیں ۔ نو، گیارہ یا تیرہ سیارے مل کر ایک نظام بناتے ہیں۔ اور ان سیاروں کے اندر ایک زمین بھی ہے۔ جن کے اندر زندگی جاری و ساری ہے۔ اور اس زندگی کو برقرار رکھنے کے لئے ایک اور نظام اسکی پرورش کر رہا ہے۔ اب جو نظام پرورش کر رہا ہے ہم نے اس کو ذرا ذہن میں رکھنا ہے۔

جاری ہے۔
Hafiz Taj Muhammad
About the Author: Hafiz Taj Muhammad Read More Articles by Hafiz Taj Muhammad: 8 Articles with 52257 views Spiritual Healer, Reiki Healer, Hypnotherapist, NLP practitioner and Silva mind control... View More