پشاور کا ایک رہائشی نصیر احمد آجکل منفرد طرز کی جنگ میں
مصروف ہے جو انسانوں سے نہیں بلکہ چوہوں سے لڑی جارہی ہے- لیکن دوسری جانب
یہ چوہے بھی کوئی عام چوہے نہیں ہیں بلکہ اب تک پشاور رہائشیوں کے بے شمار
چوزے کھا چکے ہیں، بالغوں کو کاٹ چکے ہیں اور بیماریاں پھیلانے کا محرک بن
رہے ہیں۔
|
|
اب پشاور کے رہائشیوں کا بچانا نصیر احمد کا مشن بن چکا ہے اور ایک کدال ،
ایک ہتھ گاڑی ہے اور پلاسٹک کے دستانے لیے اپنے تین بچوں کے ہمراہ چوہوں کے
خلاف اس لڑائی میں مصروف ہے۔
40 سالہ نصیر احمد گزشتہ 18 ماہ سے یہ چوہا مار مہم شروع کیے ہوئے ہے اور
اس کا کہنا ہے کہ وہ اب تک ایک لاکھ سے زائد چوہے ہلاک کر چکا ہے۔
نصیر احمد کا کہنا ہے کہ ’’ میں نے اپنے اس مشن کا آغاز اس وقت کیا جب میرے
ایک دوست کو اپنی بیوی کو چوہے کے کاٹنے کی وجہ سے ہسپتال لے جانا پڑا ۔“
“ اسپتال میں میرے دوست کو اپنی بیوی کے علاج معالجے پانچ ہزار روپے خرچ
کرنے کے ساتھ اینٹی ریبیز انجیکشن بھی لینا پڑے۔“
یہ مخصوص چوہے بھی 9 سے 12 انچ تک لمبے ہیں اور ان کی دُم بھی ان کے جسم کی
لمبائی جتنی ہی ہوتی ہے-
نصیر احمد کے مطابق “ یہ چوہے ہرجگہ پائے جاتے ہیں چاہے وہ گلیاں ہوں،
مارکیٹیں ہو یا پھر دکانیں“-
|
|
“ یہ رات کے وقت حملہ آور ہوتے ہیں اور صبح ہونے سے پہلے ہی غائب ہو جاتے
ہیں۔ لیکن اس دوران یہ کپڑے کاٹ ڈالتے ہیں، خوراک کو زہریلا بنا دیتے ہیں
اور خواتین اور بچوں کو کاٹتے ہیں“۔
رات کا وقت ہی نصیر بھی اپنے مشن پر نکل پڑتا ہے۔ اور وہ پیدل، گلی گلی،
گھر گھر اور دکان دکان جا کر ان چوہوں کو ہلاک کرتا ہے۔ چوہوں کو ہلاک کرنے
کے لیے وہ روٹی کے ٹکڑوں پر میٹھا لگا کر ان پر زہریلا کیمیکل اسپرے کر
دیتا ہے۔ اور یہ کیمیکل بھی نصیر کا اپنا ہی تیار کردہ ہے- |