شادی ایک خوبصورت بندھن ہے۔ مگر
یہ کہ جس قدر پیارا اور مضبوط بندھن ہے اْسی قدر نازک بھی ہلکی ہلکی ضربیں
بھی اس کی مضبوط ڈور کو ناقابل تلافی نقصان دیتی ہے یہ جس قدر مضبوط بندھن
ہے۔ اْسی قدر توجہ کا طلبگار بھی ہے۔میاں بیوی کے رشتے کو دنیا کا سب سے
حسین رشتہ تصور کیا جاتا ہے۔ جوانی کے دور سے گزرتے ہوئے لڑکے اور لڑکیاں
اپنے آنے والے مستقبل کے لیے کئی تقریب خواب دیکھتے ہیں اپنے ہونے والے
شریکِ سفر کا نقش اپنی آنکھوں میں سجاتے ہیں بہت سی اْمیدیں باندھتے ہیں اس
معاملے میں لڑکیاں زیادہ حساس ہوتی ہیں غرض یہ ایک سنہری دور ہوتا ہے جس
میں ہر نسل ہر مذہب سے تعلق رکھنے والا تقریباً ایک ہی کیفیات سے گزرتا ہے۔
شادی کے وقت سب کچھ بہت اچھا لگتا ہے پہلے پہل زندگی حسین خواب سی محسوس
ہوتی ہے مگر اْس کے بعد زندگی کی حقیقت کْھلنا شروع ہوتی ہے جوں جوں حقائق
سامنے آتے ہیں تو ایک دوسرے کی کوتاہیاں بھی نظر آنے لگتی ہیں آہستہ آہستہ
بات ناراضگیوں جھگڑوں تک پہنچ جاتی ہے اور اگر بات مزید بگڑ جائے تو معاملہ
طلاق تک پہنچ جاتا ہے اور پھر لمحوں میں سب کچھ بکھر جاتا ہے۔ طلاق وہ واحد
حلال چیز جو اﷲ کو سخت نہ پسند ہے۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ و سلم نے
فرمایا کہ ’’ حلال چیزوں میں اﷲ کے نزدیک سب سے زیادہ بغض اور نفرت کی چیز
طلاق ہے ‘‘ (ابو داؤد)۔طلاق کو ہر زمانے میں بْرا سمجھا جاتا رہا ہے، پہلے
کسی خاندان میں طلاق کا سانحہ ہوتا تو پورا خاندان ، برادری دہل جاتی، طلاق
کی خبر سننے والے حیرت و تاسف کے مارے اْنگلیاں دانتوں تلے دبالیتے مگر آج
آئے دن طلاق کے قصے سننے میں آتے ہیں آج کے دور میں کسی کی طلاق ہوجانا عام
سی بات ہوگئی ہے ۔ لمحۂ فکریہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں طلاق کا تناسب دن
بہ دن بڑھتا جارہا ہے جو دیمک کی طرح معاشرے کو چاٹ رہاہے۔ غور طلب بات یہ
ہے کہ طلاقوں کا تناسب اپر کلاس کے ساتھ ساتھ مڈل اور لوئر کلاس میں بھی
تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ایک ہی دن میں طلاق کے کئی کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں۔اعداد
وشمار کے مطابق صرف شہرِ قائد میں2005 سے 2008 تک تقریبا 75,000 مقدمات
کراچی کی خاندانی عدالتوں میں رجسٹرڈ کئے گئے تھے۔2008 اور 2011 کی مدت کے
درمیان طلاق کے 124,141 مقدمات دائر کئے گئے ۔ صرف 2010 میں 40,410 علیحدگی
کے مقدمات شہر کی خاندانی عدالتوں میں رجسٹرڈ کئے گئے اور سال 2014 کے
اختتام تک اس تعداد میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ بڑھتی
ہوئی طلاق کے واقعات کی وجوہات کو جانا جائے اور پھر اْن کی بہتری کے لیے
سدِباب کیا جائے۔بڑھتی ہوئی طلاق کی شرح میں اضافہ عدم برداشت سب سے بڑی
وجہ ہے من حیث القوم ہم عدم برداشت کا شکار ہیں جس کے نتائج طلاق جیسی وبا
کی صورت میں نظر آرہے ہیں بڑھتی ہوئی طلاقیں معاشرے کی جڑوں کو کھوکلا اور
کمزور کر رہی ہیں۔ زندگی کے ہر موڑ ، قدم پر برداشت و تحمل سے کام لینا
ضروری ہے۔ میاں بیوی جیسے نازک رشتے میں براداشت کا ہونا بے حد ضروری ہے تک
ایک دوسرے کی کو تاہیوں کو نظر انداز کر کے برداشت کا مظاہرہ نہیں کیا جائے
تو کسی بھی رشتے کو قائم رکھنا مشکل ہوجاتا ہے۔ حدیثِ شریف میں آیا ہے کہ
’’ کوئی مرد کسی مومن عورت سے بغض نہ رکھے کیوں کہ اگر اسکی کوئی خصلت
ناگوار ہوگی تو دوسری پسند آجائے گی ‘‘ (مسلم)۔ کوئی بھی شخص مکمل نہیں
ہوتا کسی انسان میں کچھ خامیاں ہوتی ہیں تو کچھ خوبیاں بھی ضرور ہوتی ہیں۔
چنانچہ ٹھنڈے دل و دماغ سے ایک دوسرے کی خامیوں، کوتاہیوں کو نظر انداز
کرکے خوبیاں اور اچھائیاں تلاش کرنی چاہئیں۔ایک پْرسکون زندگی کے لیے عورت
کے ساتھ ساتھ مرد کو بھی صبرو تحمل سے کام لینا چاہیے یہ تاثر غلط ہے کہ
گھر صرف عورت بناتی ہے جب میاں بیوی کو گاڑی کے دو پہیئے تصور کیا جاتا ہے
تو دونوں کو مل کر گھر بنانے اور بچانے کی کوشش کرنی چاہیے عورت کو بھی
چاہیے کہ وہ تحمل سے کام لے۔ نبی پاک صلی اﷲ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ’’
جو عورت بغیر کسی مجبوری کے اپنے شوہر سے طلاق کا سوال کرے اس پر جنت کی
خوشبو حرام ہے ‘‘۔ (تر مذی)تشویشناک بات یہ ہے کہ بچے ہوجانے کے باوجود
معمولی وجوہات کی بنا پر علیحدگیاں ہورہی ہیں ، علیحدگی کے بعد عورت اپنے
ماں باپ کے گھر چلی جاتی ہے مرد بھی نئی زندگی شروع کردیتاہے متاثر ہوتی ہے
صرف اولاد جوکبھی کسی کے ہاتھوں پلتی ہے کبھی کسی کے اور اس طرح اْس کی
شخصیت بکھر جاتی ہے۔طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح میں عدم برداشت کے علاوہ دینی
احکامات سے دوری، انسانی نفس کا پیسے کے پیچھے بھاگنا، ایک دوسرے کو سمجھنے
کی کوشش نہ کرنا، بے اعتمادی، دیگر لوگوں کی میاں بیوی کے معاملات میں بے
جا مداخلت اور دوسروں کی باتوں پر بلا تصدیق یقین کرلینا شامل ہیں۔ آج کل
کے ڈراموں میں طلاق کو اہم ترین موضوع کے طور پر پیش کیا جارہا ہے گھر
بسانے اور مضبوط رکھنے کے حوالے سے رہنمائی کی بجائے طلاق کے لیے ماحول
سازگار بنانے کی نئی تراکیب متعارف کرائی جارہی ہیں۔ اس بارے میں میڈیا کو
اپنی روش بدلنی پڑے گی۔ اگر ایسا ہی رہا تو معاشرہ اپنی ساکھ کھوبیٹھے گا
اور ہمارے پاس سوائے ہاتھ ملنے کے کچھ نہ بچے گا۔دور حاضر میں انسان نے
اپنی زندگی کو خود بے سکون بنایا ہوا ہے جب تک ہم اپنے اندر صبرو تحمل پیدا
نہیں کریں گے تب تک کسی بھی رشتے کو صحیح طرح سے نہیں نبھا سکتے۔ اﷲ کے
احکامات پر عمل کر کے اور ایک دوسرے کو سْن کر اْس کی بات کا احترام کرکے
ہی ہم رشتوں کو احسن اندازی میں نبھا کر ایک خوشگوار زندگی گزار سکتے ہیں۔
یہ جو نکاح کا رشتہ ہے
کچے دھاگے سا نازک ہے
پرواہ، وفا، محبت سے ہی
صبر، ظرف، عزت سے ہی
اس رشتے کی سانس چلتی ہے |