آج کل فوجی عدالتوں کے دائرہ کار
میں توسیع اور آئین میں ترمیم کا بل قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا ہے جس کا
مقصد فوجی عدالتوں کو قانونی جواز فراہم کرنا ہے ۔کیونکہ زیادہ تر سیاسی
جماعتیں ،میڈیا دانشوران ،سول سوسائٹی گروپس اور ملکی ماہرین اس کے بارے
میں تحفظات رکھتے تھے ،کیونکہ ماضی میں ایسی فوجی عدالتوں کو مخصوص مقاصد
کے حصول کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے، یعنی کبھی جمہوری آزادیوں کو سلب
کرنے کے نظریے سے ایسی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا اور کبھی قلمکاروں
،تجزیہ اورتبصرہ یا اپنے نظریات بیان کرتے ہوئے تقاریر کرنے والوں کو پابند
کرنے کے لیے ایسی عدالتیں وجود میں لائی گئیں جبکہ آج یہ فوجی عدالتیں
جمہوریت پر دہشت گردوں کے حملے کو روکنے کے لیے بنائی جا رہی ہیں ۔جبکہ
ماضی میں قائم کردہ ایسی عدالتوں نے ایسے ناتوان ہاتھوں اورمبینہ ملزموں کے
ہاتھوں میں بھی ہتھ کڑیاں پہنا دیں کہ جب ان کے ہاتھوں میں یہ کڑیاں سما نہ
سکیں تو ان کے گلے میں رسی ڈال کر انسانیت کو شرمسار کیا گیا ،یعنی خطۂ پاک
کی بقا اور محبت میں لب کشائی کرنے والے آشفتہ سروں نے وہ قرض اتارے ہیں کہ
جن کے وہ روادار نہ تھے ۔
آج آمادگی سے یا روایتی طور پر ان فوجی عدالتوں کے بارے میں ہر کوئی لبیک
کہتا ہوا نظر آتا ہے ،چونکہ یہ عدالتیں آئین ،پارلیمینٹ اور جمہوریت سے جنم
لے رہی ہیں اور اس میں خاص بات یہ ہے کہ ان عدالتوں کی کاروائی تو فوجی
قیادت کرے گی مگر یہ جمہوری حکومت کے سویلین ڈسپلن کے طابع ہونگی ،یہ بات
طے ہے کہ چند باتوں کی کھل کر تشریح کردی اور کروا دی گئی ہے ،کہ کسی کو
تنقید کرنے ،تحریر یا تقریر کرنے کی وجہ سے سزا نہیں ملے گی ،بلکہ جو افراد
یا گروہ سکولوں یا عبادت گاہوں پر حملے کرتے ہیں جس سے ہمیں اپنے اس خطۂ
پاک میں آئے دن منظر لہو لہو نظر آتا ہے ان کے خلاف بھرپور کاروائی کی جائے
گی ۔آج جبکہ اتفاق رائے سے اختلاف رائے ختم ہو چکا ہے اور ان عدالتوں کے
لیے تمام جماعتوں کی حمایت بھی حاصل ہو چکی ہے مگر اب سوال یہ ہے کہ کیا
دہشت گردی کے خاتمے کی ذمہ داری کسی ایک ہی ادارے یا کسی فردِ واحد پر ہی
عائد ہوتی ہے یا ہوگی ؟؟؟
جنرل راحیل شریف کا عزم قابل تحسین ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ناکامی
کا کوئی سوال نہیں ،ان کا یہ کہنا بھی بہت خوش آئند ہے کہ دہشت گردوں کے
خلاف انصاف پر مبنی تیز رفتار کاروائی کے لیے صوبائی حکومت سے مکمل تعاون
کریں گے ۔مگر ایسے حالات میں جب کہ ملک میں ہائی کورٹس اور سپریم کورٹس کی
موجودگی کے باوجود سزاؤں پر عملدرآمد ہورہا تھا نہ زیر التوا مقدمات کے
فیصلے ہو رہے تھے ،جس کی وجہ سے عوام کی آپس کی کشیدگی بڑھ رہی تھی اور
معاشرے میں مختلف وجوہات کی بنا پر اشتعال اور لاقانونیت بڑھ رہی تھی اس
لیے آج ان اداروں کو بھی چاہیئے کہ اپنے اوپر سے سوالیہ نشان کو ختم کریں
وہ ادارے بھی ملک کے مقدس ادارے ہیں۔مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اگر ان
سے انصاف اور قانون کی بالا دستی کا بول بالا قائم رہتا اور لوگوں کو جلد
اور سستا انصاف فراہم ہوتا تو آج پاکستان میں نا دہشت گردی پروان چڑھتی اور
نہ ہی فوجی عدالتوں کی کڑوی گولی ہمیں کھانی پڑتی ،لیکن اگر ان عدالتوں کے
حوصلہ افزا نتائج برآمد ہو گئے تو اس اقدام کوجمہوری حکومت کا عظیم ترین
فیصلہ قرار دیا جائے گا لیکن دہشت گردی کے عفریت کے خاتمے کے لیے ان پہلوؤں
پر بھی غوروفکر لازم ہے جنھوں نے اس کو پنپنے کے مواقع فراہم کئے اور حالات
کو اس نہج پر پہنچایا ہے ۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ مسلم امہ کو جو کہ اسلام کے پیروکار اور داعی ہیں
اور وہ اسلام جو امن و سلامتی کا سراپا پیغام ہے اور وہ اسلام جس کا حتمی
پیغام یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے جنوں اور انسانوں کو پیدا ہی
صرف اس لیے کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں اور کتاب اﷲ جابجا واطیعوالرسول
کی پرزور تلقین کر رہی ہے جس کے نتیجے میں مسلمانوں کے لیے دنیا و آخرت میں
نجات ہے ایسے متنازعہ نظریاتی حالات میں اﷲ اور رسول پاک ؐ کی اطاعت ہی
مناسب ہے۔ کہ ایسے حالات میں مختلف ادوار میں دینی خدمات سرانجام دینے والی
انتہائی قابل تعظیم اور بلند مرتبہ بزرگ ہستیوں کے پیروکاروں نے اپنے اپنے
من پسند مکتبہ ہائے فکر بنا لئے اور اس طرح تفرقہ بازی اور فرقہ واریت نے
جنم لیا اور کچھ عرصے سے مذہبی تفرقے سے پیدا ہونے والی شدت پسندی اور
انتہا پسندی اور کئی صورتوں نے ملک میں بد امنی اور آپسی جنگ کو فروغ دے
دیا ہے۔جو کہ ایسی تمام صورتوں کو بھی ختم کرنے کے لیے موجودہ قائم فوجی
عدالتوں کا قیام نا گزیر تھا ۔آج اگر ہم پاکستان میں دہشت گردی کا مکمل طور
پر قلع قمع کرنا چاہتے ہیں ۔تو ہمیں کوئی نیا اجتماعی کلچر مرتب کرنے کی
جسارت نہیں کرنی چاہیئے ،اس لیے کہ ماضی کے انتہائی طاقتور حکمرانوں نے بھی
کبھی دین اکبری اور کبھی آئینہ جہانگیری جیسے نئے اجتماعی کلچر مرتب کرنے
کی کوشش کی جو کہ یہ سب جسارتیں اﷲ اور نبی پاک ؐکے عطا کردہ رشد و ہدایت
اور امن و سلامتی پر مبنی طریقہ ہائے کار اور قوانین سے مکمل انحراف کی
صورتیں ہیں ۔اگر ہم فرقہ واریت ،مذہبی شدت پسندی اور انتہا پسندی سے بچنا
چاہتے ہیں تو ہمیں قرآنی تعلیمات اور سیرت النبیؐ سے اسلامی کلچر کی غیر
متنازعہ بنیادیں فراہم کرنا ہونگی ۔جس سے ہمارا معاشرہ ہر طرح کی دہشت گردی
اور بدحالی سے پاک ہو جائے گا ۔
مگر ۔۔یہاں یہ بات لکھنا بھی بے محل نہ ہوگا کہ کسی بھی فرد کو سنگین مجرم
بننے کی معاشی اور معاشرتی وجوہات بھی ریاست کو ختم کرنا ہونگی جن کی وجہ
سے جرم فروغ پاتا ہے ،کیونکہ کوئی بھی شخص پیدائشی مجرم نہیں ہوتا ۔وقت اور
حالات اسے مجرم بناتے ہیں اور جب ملک میں بے شمار معاشی مسائل ہونگے تو
کمزور ارادوں والے لوگ جرائم کی طرف راغب ہونگے ۔جب معیار تعلیم پست ہوگا
تو منفی رحجانات کی طرف جھکاؤ زیادہ ہوگا ۔جب معیار زندگی میں نمایاں تضاد
ہونگے اور لوگ بنیادی سہولیات کے لیے ترس رہے ہونگے توبدلے اور نفرت کی فضا
جنم لے گی ، دولت کے حصول میں جائز و ناجائز کا فرق و فہم مٹ جائے گا اور
ضرورت مندوں کو نظر انداز کیا جائے گا ،امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا
جائے گا ،مذہبی راہنما خدا اور رسولؐ کی تعلیمات کو فراموش کر کے اپنی مرضی
کے طور طریقوں کو رائج کریں گے تو وہ بھی فرقہ واریت کا ماحول دیکر مذہب سے
بیزاریاں پیدا کریں گے ،اور لوگ اسلامی تعلیمات سے دور ہوکر جب گناہ اور
جرائم کے نزدیک ہونگے تو دہشت گردیاں بڑھیں گی ۔اور میڈیا کردار سنوارنے کی
بجائے منفی طریقے سے واقعات کو اچھالے گا اور قماشی و عریانی پر کوئی قدغن
نہ ہوگا تو خشگوار تبدیلیوں کا یقینی فقدان ہوگا ،کردار کی تعمیر و تخریب
کے لیے چھپنے والا لٹریچر سنسی خیز ہوگا اورنوزائیدہ بچوں کو کھیلنے کے لیے
بندوق اور پستول جیسے کھلونے دئیے جائیں گے تو جرائم کو پنپنے کے مواقع
ملیں گے ۔اس کے علاوہ بھی اور بھی بے شمار ایسے عوامل ہیں جن کا احاطہ کیا
جاسکتا ہے مگر شاید خصوصی عدالتوں کے قیام کے بعد مناسب نہ ہوگا ۔اس میں
کوئی شک نہیں کہ افواج پاکستان ایک ایسا مایہ ناز ادارہ ہے کہ جس کو جب بھی
کسی حال میں آزمایا گیا تو یہ توقعات پر پورا اترا ہے اور آج ہمیں یہ بات
لکھنا پڑے گی کہ فوجی عدالتیں جن مقاصد کے لیے قائم کی جارہی ہیں ان کے
حوصلہ افزا نتائج حاصل ہونگے ۔مگر اس میں جو بڑی ذمہ داری موجودہ حکومت پر
عائد ہوتی ہے وہ ہے کہ وفاقی حکومت کوئی بھی مقدمہ فوجی عدالتوں کو بیجھ
سکے گی اور یہ کہ فوجی عدالتوں میں دہشت گردوں کے مقدمات چلانے کے لیے
وفاقی حکومت سے اجازت لینا پڑے گی تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ فوجی عدالتوں کے
دائرہ اختیار اور دائرہ کار کو یقینا محدود کر دیا گیا ہے کیا ہی اچھا ہوتا
اگر قومی خزانہ اور ملکی وسائل لوٹنے والوں اور اختیارات سے تجاوز ہو کر
عوام کا استحصال کرنے والوں کے خلاف بھی اختیار دے دیا جاتا تو شاید جو
کمیاں رائج عدالتی نظام میں موجود ہیں،مقدس افواج کے ذمہ داران بغیر مارشل
لاء لگائے ان کا بھی سد باب کر پاتے ،اب حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ
بھی متذکرہ بالا معاشی مسائل کو مدنظر رکھ کر اپنے اپنے تمام محکموں میں
اہلیت اور اچھی شہرت کی بنیاد پر تبدیلیاں لائیں تاکہ معاشرے میں معاشی اور
معاشرتی ہمواری پیدا ہو جس سے عوام کو جمہوریت کے ثمرات سے بہرہ ور ہونے کا
موقع مل سکے ،دہشت گردی کے خاتمے کی ذمہ داری کسی فرد واحد پر لاحق نہیں
ہوتی اس کے عفریت کا خاتمہ سب کی مشترکہ اولین ضرورت اور ذمہ داری ہے۔ |