اسلام ، قرآن اور سائنس
(Mushtaq Ahmad Kharal, Jatoi)
اسلام روح کو ہی اس کائنات کی ابدی حقیقت
تصور کرتاہے۔ جبکہ سائنس ایٹم کو بنیادی اکائی تسلیم کرتاہے۔ جسم اور روح
کی اس کشمکش نے مذہب اور سائنس کے درمیان ایک تصادم کی سی کیفیت پیداکردی
ہے۔ سائنس نے زمین کی گہرائیوں اور آسمان کی بلندیوں کو مسخر کر لیاہے تو
مذہب نے تحت السراء سے اوج ثریا تک تمام نشانیاں عقلمندوں کیلئے کھول کر
رکھ دی ہیں۔ سائنس جہاں اپنی آخری حدوں کو چھورہی ہوتی ہے وہاں اسلام کا
نقطہ آغاز ہوتاہے۔ امریکہ سمیت مغرب کے عظیم سائنس دانوں کا اسلام قبول
کرنا اس دلیل کا ایک واضح ثبوت ہے۔
مذہب اسلام دنیا کا واحد الہامی مذہب ہے جس نے طبعیات اور مابعد طبعیات
عناصر کو یکجا کردیاہے۔ عصرِ حاضر کی جدید ترین اور حیران کن ایجادات اور
دریافتوں کا تذکرہ چودہ سو سال پہلے اسلام کی نازل ہونے والی کتاب قرآن پاک
میں موجود ہے۔ سینکڑوں سال کے سائنس دانوں کی تحقیق کا نچوڑ جب منظر عام پر
آتاہے تو معلوم ہوتاہے کہ یہ کوئی نیا علم نہیں بلکہ چودہ صدی پہلے طبیب
امت کے فرمودات کا حاصل ہے۔ سیرت پاک اور قرآن پاک کا اگر گہرائی اور
تحقیقاتی نظر سے مطالعہ کیاجائے تو معلوم ہوتاہے کہ سائنس اسلام کی ایک
چھوٹی سی شاخ ہے۔ اسلام کے گہرے سمندر میں سائنس ایک چھوٹا سا قطرہ ہے۔
سائنس کی چند حیرت انگیز ایجادات کا قرآن وسنت کی روشنی میں جائزہ لینے کی
کوشش کرتی ہوں ۔ سائنس کا ربن، آکسیجن اور نائٹروجن کو اس کائنات کی اساس
گردانتی ہے یعنی اس کائنات کا نقطہ آغاز ۔اگر ہم انہیں گیسوں کے ایٹمی نمبر
پر غور کریں تو یہ 786بنتے ہیں جبکہ اگر ہم بسم اللہ الرحمن الرحیم کے حروف
ابجد پر غور کریں تو وہ 786 بنتے ہیں۔
سائنس نے ریکارڈنگ کے لیے وی سی آر بنایاتاکہ ماضی کے واقعات کو محفوظ
بنایا جاسکے۔ چودہ صدیاں قبل نازل ہونیوالے قرآن حکیم نے فرمایادیاتھاکہ
روزقیامت جب لوگوں کو ان کے اعمال کی بابت پوچھا جائے گا تو وہ مکر جائیں
گے پھر ان کو ان کے اعمال دکھائے جائیں گے یہ تھا قرآن کا تصورِ وی سی آر۔
سائنس کے کمپیوٹر میں وائرس آسکتاہے اور سارا ڈیٹا ضائع ہوسکتاہے جبکہ
دائیں اور بائیں کندھوں پر موجود فرشتے تو \"خیریر\" اور شرریرا\" کا کبھی
زائل نہ ہونے والا ریکارڈ رکھتے ہیں۔
آج سائنس بیسیوں سال کی تحقیق اور کھوج کے بعد اس نتیجہ پر پہنچی کہ کھڑے
ہوکر پانی پینے سے جوڑوں کا درد ہوتاہے اور ایک ہی سانس میں پانی پینے سے
پانی سانس کی نالی میں جاسکتاہے۔ کاش یہ سائنس دان اتنا عرصہ ضائع کرنے کی
بجائے طبیب امت ﷺ کی پانی پینے کے حوالہ سنت کا مطالعہ کرلیتے ۔ آج الاسکا
میں بہنے والے سمندربالٹک اورنارتھ سی کا ذکر تو قرآ ن پاک نے سورۃ رحمن
میں فرمادیاتھا۔ حَرَجَ البَحْرَیْنِ یَلْتَقْیٰنْ۔بَیْنَھُمَاْ بَرْنرخُ
لاٌیُبْغِیٰنْ۔ اس نے دو سمندر دیکھنے میں ملے ہوئے معلوم ہوں اور ان میں
ایک آڑ ہے کر ایک دوسرے پر بڑھ نہیں سکتا۔ تخلیق انسانی سے متعلق سائنس کا
تمام حاصل قرآن مجید کی درج ذیل آیات کا ثبوت ہے۔ خلق الانسان من علق۔ آدمی
کو خون کی پھٹک سے بنایا (العلق) خَلِقَ مَنٗ ماَءِِ دافِقْ، یَخْرُجْ مِنٗ
بَیْنِ الْصُلْبِ وَالترٌَآءِبْ۔ (الطارق)۔اسلام کے ابتدائی ایام میں سائنس
کے مرکزی مضامین طبعیات ، حیوانیات ، نباتات اور علم کیمیا ۔ قرآن ، فقہ،
حدیث اور علم فلکیات کے ساتھ ساتھ مسجد میں پڑھائے جاتے تھے۔ آج ہم نے ان
علوم کو چھوڑ دیاہے اورمغرب کے عیسائیوں نے تعلیمات قرآنی پر تحقیق شروع
کردی ہے۔ بدقسمتی سے ہم قرآن پاک کو یاتو قسم اٹھانے کیلئے اٹھاتے ہیں یا
پھر کسی کے مرجانے پر ۔ قرآن پاک انسان کو مظاہر فطرت کا مشاہدہ کرنے کی
دعوت دیتاہے۔ یہ موت و حیات کی پر اسراریت اور دن رات کے تغیر پر غور کرنے
کا حکم دیتاہے۔ یہ تمام ثبوت ہیں ایک تخلیق کا رکے جنہیں سائنس اپنی تمام
ہر تگ و دو کے باوجود کبھی بھی تبدیل نہ کرسکی ۔ اس کائنات کے تمام عناصر
کسی ان دیکھی قوت کے ماتحت ہیں اور سائنس یہ بات ماننے پر مجبور ہے کہ ان
تمام عناصر کے خودبخود وجود میں آنے کے کوئی ثبوت نہیں ملے۔ ان کاکوئی
تخلیق کار موجود ہے جسے وہ God(خدا) تسلیم کرتے ہیں۔ سوچ اور فکر کی تمام
تر آزادیوں کے باوجود انسان قانون فطرت کامحکوم ہے اور انہیں قوانین میں نہ
تو انسان کوئی ترمیم کرسکتاہے اور نہ ردوبدل ۔ خدا کی ہر چیز پر قدرت کا جو
اعلان قرآن حکیم نے چودہ سو سال پہلے کیا سائنس آج اسکا اعتراف کررہی ہے۔
انسان تو کیا حیوانات اور حشرات کو زیر زمین سمندر کی اتھاہ گہرائیوں اور
پتھروں کے سینوں میں خوراک کی فراہمی کا دعویٰ جو قرآن مقدس نے کیا۔ مغرب
کے جیوگرافیکل چینلز آ ج انہیں حقیقتوں کی کھوج میں لگے ہوئے ہیں اور ہر
موڑ پر انہیں قرآن کی دلیل کو تسلیم کرنا پڑ رھا ہے۔
آج ایٹم بم کی تباہ کاریوں کو دیکھ کر ہمیں سورۃ قارعۃ کی وہ آیات یاد آرہی
ہیں کہ \" اس دن پہاڑ روئی کی طرح اڑ رہے ہوں گے\"۔ یوم یکون الناس کالفراش
المبثوث ۔ وتکون الجبال کالعھن المنفوش۔ جس دن آدمی ہوگے جیسے پھیکے پتنگے
اور پہاڑ ہون گے جیسے دھنکی ہوئی اون۔
زیر بحث موضوع کی طوالت کو ان الفاظ کے ساتھ سمیٹنے کی کوشش کرتے ہیں کہ
سائنس اور مذہب میں تصادم کی بجائے ہمی سائنس کو مذہب کی ترویج کا ذریعہ
بنانا چاہیے۔ آج ہمیں ٹیلی ویژن موبائل اور انٹرنیٹ کو تنقید کا نشانہ
بنانے کی بجائے انہیں سے مذہب اسلام کا پیغام پوری دنیا تک پہنچانا چاہیے۔
قرآن ، احادیث اور سنت بنوی کا پرچار آج انٹرنیٹ اور ٹیلی ویژن کے ذریعے
زیادہ موثر انداز میں کیا جاسکتاہے۔ سائنس کسی بھی حالت میں دین اسلام کی
نفی یا اختلاف نہیں کرتی بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قرآن پاک کی تفسیر پر
تحقیق سائنس کیلئے نئی ایجادات اور دریافتوں کے لیے راہیں کھول رہی ہے۔ صرف
ہمیں اپنی سوچ کومثبت سمت میں لانا ہوگا کیونکہ شیکشپئیر کے بقول \"دنیا
میں کوئی چیز اچھی یا بری نہیں ہوتی ہماری سوچ ہی اسے ایسا بنادیتی ہے\"۔ |
|