دبئی٬ چند ناقابلِ یقین حقائق

دبئی دنیا کا سب سے زیادہ تیزی کے ساتھ ترقی کرنے والا شہر ہے- 1960 میں یہاں صرف ہر طرف ریت ہی ریت ہوا کرتی تھی لیکن آج دبئی میں متعدد بلند ترین اور پرتعیش عمارات موجود ہیں- اور آج سیاحوں کی ایک بڑی تعداد سیر و تفریح کے لیے دبئی کا رخ کرتی ہے- ہم آپ کو آج کے آرٹیکل میں دبئی کے بارے میں چند ایسے حقائق بتائیں گے جن پر یقین مشکل سے ہی آتا ہے-
 

جرائم
دبئی میں جرائم کی شرح صفر فیصد ہے یعنی نہ ہونے کے برابر ہے- اس کی وجہ شہر میں موجود مسلم قوانین کا نفاذ ہے جو کہ شیخ محمد بن الراشد مکتوم کی جانب سے انتہائی سختی کے ساتھ نافذ کیے گئے ہیں- یہاں رہنے والے چاہے غیر ملکی ہوں یا مقامی شہری دونوں ہی جانتے ہیں کہ کسی بھی ہلکی سی غلطی کی صورت میں انہیں جیل کی ہوا کھانے پڑ سکتی ہے یا پھر شہر بدر کیا جاسکتا ہے-

image


آبادی
آپ کو یہ جان کر شدید حیرانی ہوگی کہ دبئی کی 83 فیصد آبادی غیرملکی افراد پر مشتمل ہے جس میں زیادہ تر اس شہر میں بلند و بالا عمارات کی تعمیر کرنے والے مزدور ہیں- ان مزدوروں کا تعلق پاکستان٬ بنگلہ دیش اور انڈیا سے ہوتا ہے-

image


قرضوں کی ادائیگی
دبئی ایک ایسا شہر ہے جو کہ اپنے شہریوں کو ایسے قرضے دینے کے خلاف ہے جنہیں واپس نہ کیا جائے- اگر آپ کسی بھی ادائیگی یا کریڈٹ کارڈ کی وجہ سے نادہندہ پائے گئے تو آپ کو جیل کی ہوا کھانی پڑ سکتی ہے- اسی وجہ سے دبئی نا ادا کیے جانے والے قرضوں کے حوالے سے صفر فیصد شرح رکھتا ہے-

image


ماحولیات
منطقی طور پر ماحولیاتی نقطہ نظر سے دبئی کے اسٹرکچر کا کوئی مطلب نہیں- یہ صحرا کے وسط واقع ہے جہاں ریت کے طوفان تشویش کا باعث ہوتے ہیں اور درجہ حرارت 120 ڈگری سے تجاوز بھی کرسکتا ہے- اگر یہاں کی عمارات میں وسیع پیمانے پر ائیرکنڈیشنڈ نصب نہ کیے جائیں تو دبئی کے شہریوں کا وہاں رہنا تقریباً ناممکن ہے- اسی وجہ سے دبئی کے انجنئیرز نے ان عمارات میں عمودی کولنگ سسٹم نصب کر رکھا جس میں لگے پمپس پانی کو اوپر کی جانب پھینکتے ہیں اور یوں عمارات ٹھنڈی رہتی ہیں-

image


ترقی
دبئی دنیا کا سب سے زیادہ تیزی کے ساتھ ترقی کرنے والا شہر ہے- دنیا کی کُل کرینوں کی 20 فیصد کرین مشینری آپ کو اس شہر کی تعمیرات میں مصروف دکھائی دے گی- دبئی کا میٹرو سسٹم 2009 میں مکمل کیا گیا اور اس کے 42 اسٹیشن ہیں٬ حیران کن طور پر اس کی تعمیر صرف 18 ماہ میں مکمل ہوئی- اس کے علاوہ دبئی میں ایک بہت بڑا امیوزمنٹ پارک بھی تعمیر کیا جارہا ہے جس کا سائز ڈزنی ورلڈ دگنا ہے اور امید ہے کہ روزانہ 2 لاکھ سیاح اس پارک کا رخ کریں گے- اس شہر میں متعدد مصنوعی جزیرے تعمیر کیے گئے ہیں جس کا مقصد سیاحوں کو متوجہ کرنا ہے-

image


ایڈریس کا نظام
دبئی میں بین الاقوامی معیار کے مطابق ایڈریس کا نظام موجود نہیں ہے- یہاں اگر کوئی ڈاک بھیجنی ہے تو لفافے پر یا تو وہاں کا نقشہ بنا دیا جائے یا پھر کچھ اس طرح کی ہدایات درج کر دی جائیں “ سفید مسجد کے بعد٬ بائیں کی گلی میں سنہری رنگ کا دروازہ“- غیر ملکی افراد یہاں پہنچنے کے بعد اگر کسی ہوٹل میں نہیں جانا چاہتے تو وہ ٹیکسی میں بیٹھ کر ڈرائیور کو اپنے ہاتھوں میں موجود نقشہ فراہم کرتے ہیں اور ساتھ ہی بتاتے ہیں کہ انہیں نقشے میں موجود متعلقہ مقام پر پہنچنا ہے-

image


اونٹ ریس کے لیے روبوٹ
اونٹ ریس دبئی کا ایک انتہائی مقبول کھیل ہے اور یہ ایسے ہی جیسے امریکہ کے لیے فٹبال یا پھر کینیڈا کے لیے ہاکی- اس ریس میں صرف بچے حصہ لے سکتے ہیں- گزشتہ ادوار میں ریس کے حوالے سے بڑے پیمانے پر بچوں کو اغوا کر کے یہاں لایا جاتا ہے- لیکن جب بین الاقوامی سطح پر اس کا شور مچایا گیا تو اس کی روک تھام کے لیے ریس میں بچوں کے سائز کے روبوٹس کو شامل کیا گیا- یہ روبوٹ اونٹوں پر بیٹھا دیے جاتے ہیں اور یوں اونٹ ریس کروائی جاتی ہے-

image

شہر کے اندر شہر
دبئی میں ایک ایسی بہت بڑی عمارت تعمیر کی جارہی ہے جس میں آب و ہوا کو کنٹرول کیا جاسکے گا- یہ مکمل شہر کی مانند ہوگی اور یہاں آنے والے سیاح اس کے اندر بنائے جانے والی گلیوں اور دوسری عمارات کا دورہ کرسکیں گے- دوسرے الفاظ میں ایسا کہا جاسکتا ہے کہ سیاح بغیر صحرا کی تپش برداشت کیے خریداری کرنے٬ کھانا کھانے اور چلنے پھرنے کے قابل ہوں گے-

image

بڑی اور بہترین چیزیں
دبئی کا مقصد بہت بڑی بڑی اور بہترین چیز تعمیر کرنا ہے- یہاں کے ہوٹل دوسرے مقامات کی نسبت زیادہ پرتعیش ہیں اور اسی وجہ سے دبئی کو دنیا کے بہترین ہوٹلوں کا گھر کہا جاسکتا ہے- دنیا کی سب سے بلند ترین عمارت برج خلیفہ بھی دبئی میں ہی تعمیر ہے- دبئی میں دنیا کا بلند ترین ہوٹل٬ سب سے بڑا ایکوریم اور سب سے بڑا اسکائی ریزورٹ بھی موجود ہے-

image
YOU MAY ALSO LIKE:

Dubai is the fastest growing city in the world and is a dazzling, cosmopolitan destination complete with gleaming skyscrapers, amazing weather, thousands of foreigners and some of the most luxurious hotels in the world. In the late 1960s, it was simply a pile of sand with only one large building built upon it and a dozen cars circulating the land.