آج سے تقریباً ۱۵ صدیاں قبل دنیا
میں ہر طرف ظلمتوں نے ڈیرہ ڈال رکھا تھا،کفر وشرک کی گھٹاؤں نے اسے گھیر
رکھا تھا،فسق وفجور کی کالی آندھیاں اپنے زور پر تھیں،ظلم وجبر کی بجلیاں
ہر طرف کو ند رہی تھیں،انسان حیوانوں کی سی زندگی بسر کررہا تھا، اس کواپنے
پرائے کی کوئی تمیز نہ تھی،اچھے بُرے کا شعور نہ تھا، شعراء فحش باتوں اور
جنگ و جدل کے قصوں کوا پنے اشعار میں بیان کرتے تھے،بچے اور بوڑھے ان
اشعارکو بڑے فخر سے اپنے میلوں میں گاتے تھے،ذراذرا سی بات پر لڑائیاں
ہوجاتیں،جوسالہا سال اور نسل درنسل جاری رہتیں غرضیکہ انسان انسانیت کو
بھلا چکا تھا، انسان اور حیوان میں کوئی فرق نہ تھا۔
ایسے میں اﷲ کی رحمت جوش میں آئی، عرب کے شہر مکہ کے معزز خاندان بنو ہاشم
میں ایک لڑکا پیدا ہوا،خاندان کے سردار عبد المطلب نے اپنے اس پوتے کا
نام’’محمد‘‘اور اس کی والدہ نے ’’احمد‘‘رکھا، یہ لڑکادرحقیقت اسم بامسمیٰ
تھا، زمین وآسمان میں جتنی اس نے اﷲ کی تعریف کی اور جتنی اس کی تعریف کی
گئی، نہ کسی اور نے کی نہ کسی کی کی گئی،یہ لڑکا جاہلیت کے اسی دور میں پلا
بڑھا،نوجوان ہوا،لیکن ظلم وجبر اور فسق وفجور کے اس ماحول میں پرورش پانے
کے باوجود اس نے صادق وامین کا لقب پایا، عربوں سے وراثت میں غیرت تو پائی
لیکن غیرت کی شکل میں حماقت سے دوررہا،غریبوں پر مال لٹانے اور جود وسخا کا
ملکہ تو پایا لیکن شراب نوشی وحرام کاری کے اندر اسراف وفضول خرچی سے
بازرہا،قدرت کی طرف سے اس لڑکے کی اچھی تربیت ہوئی،ذات باری نے اس لڑکے کو
منصب نبوت کیلئے چن لیاتھا، ایک نبی کے اندرجو اوصاف ہونے چاہییں اﷲ تعالیٰ
نے وہ تمام ان میں جمع کردیے،بالآخر وہ دن بھی آگیا کہ فاران کی چوٹیوں سے
ایک آفتاب عالم تاب نمودار ہوا اﷲ تعالیٰ نے بھٹکی انسانیت کو اس کے ذریعے
ہدایت بخشی، جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ’’اﷲ کی تم پر نعمت کو یاد
کرو جب تم دشمن تھے تو اﷲ نے تمہارے دلوں کو جمع کر دیاتو تم اس کی نعمت سے
بھائی بھائی بن گئے’‘‘ایک اورجگہ ارشاد فرمایا ’’یقینا مؤمنین پر اﷲ نے
احسان فرمایا جب ان کے اندر ایک ایسا رسول بھیجا جو انہی میں سے تھا، ان کے
سامنے قرآن کی تلاوت کرتا، ان کاتزکیہ کرتا اور ان کو کتاب اور حکمت کا علم
سکھاتاتھا‘‘اس رسول نے اپنافریضہ ادا کرنا شروع کیا، اس کے لیے تن من دھن
کی بازی لگادی،گالیاں کہیں،بیٹیوں کو طلاق ہوئیں،پتھر کھائے، لیکن ایک قدم
بھی پیچھے نہ ہٹے، جولوگ صادق وامین کہتے تھے وہی مخالف ہوگئے، آپﷺ نے ان
بد چلن اور گمراہ لوگوں کے دلوں پر محنت کی ، ان کو انسانیت کا درس
دیا،خداکا پتابتایا،بتوں میں توحید کا پرچم لہرایا،اورانسانیت کو زمین کی
پستیوں سے نکال کر اوج ثریا پرپہنچادیا۔
وہ انسان جو ایک دوسرے کے دشمن تھے شیر وشکر ہوگئے، آپس میں بھائی بھائی بن
گئے، دوسروں کی جانیں لینے والے ان پر جانیں لٹانے لگے،عرب کے بَدو دنیا کے
عقلمند شمار ہوئے، ہر معاملے میں ان کی پیروی کی گئی،بکریاں چرانیوالے عالم
کے حاکم بنے، تمام دنیا کے انسانوں حتیٰ کہ چرند وپرند اور دریاؤں تک نے ان
کا حکم مانا، زلزلے ایک ٹھر کر سے تھم گئے اور تھمے ہوئے دریا ایک حکم سے
چل دیے، یہ سب کچھ ایک نسخۂ کیمیا اثر(قرآن)کا کمال تھا اور ان سحر انگیز
تعلیمات کا نتیجہ تھا جو بارگاہ خداوندی سے نبی کریمﷺ کو عطا ہوئی تھیں۔
ہمارا زمانہ جہالت میں زمانۂ جاہلیت سے بڑھا ہوا نہیں، نہ ہی وہ کتاب اور
حکمت بھری تعلیمات ختم ہوگئیں، صرف دل بد ل گئے،فکریں اُلٹ گئیں، انداز
نیارُخ اختیار کر گئے،آج بھی وہی بلندیاں حاصل کی جاسکتی ہیں، دریاؤں کے
رُخ موڑے جا سکتے ہیں، قوموں کی کایاپلٹی جا سکتی ہے،عہد فاروقی کا عدل
وانصاف دوبارہ نافذ کیا جا سکتا ہے، پھر سے کمر بستہ ہونا ہوگا،فکروں کو
پلٹناہوگا،اسلام کے اصولوں پر چلنا ہوگا،اپنے آپ کو دینی تعلیمات کے سانچے
میں ڈھالنا ہوگا، اپنے فرائض ادا کرنے اور دوسروں کے حقوق کا خیال رکھنا
پڑے گا،یوں بعید نہیں کہ ہم پھر ساری دنیا کے مقتداء بن جائیں، دنیا امن کا
گہوارہ بن جائے اور ہماری دنیا ہی ہماری جنت بن جائے۔ |