قوم اور بین الاقوامیت کا تصور اسلام کی نظر میں

ہم نے جنوری میں شائع ہونے والے اپنے مضمون ''دنیائے انسانیت کے نام اسلام کا فکر انگیز پیغام ''میں اسلام کے معاشرتی حسن کو بیان کیا۔یہ موضوع اس قدر طویل ہے کہ اس پر دیوان کے دیوان بھرے جاسکتے ہیں ۔آپ کے زیر مطالعہ اس تحریر میں ہم'' قوم''اور بین القوامیت '' کے حوالے سے اسلام کا نظریہ آپ کے ذوق مطالعہ کی نظر کریں گے ۔لفظ قوم اکثر ہماری سماعتوں سے گزرتاہے ۔فلاں قوم فلاں قوم۔ہم جسے قوم کہتے ہیں یہ سماجِ انسانی کا تیسرا اجتماعی ادارہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے تعارف کے لئے اقوام کا وجود اپنی مشیت قرار دیا ہے۔
یٰۤاَیُّہَاالنَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّ اُنْثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰی کُمْ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ ()۔(پ٢٦،سورۃ الحجرات،آیت:١٣)
''اے لوگو ہم نے تمہیں ایک مرداورایک عورت سے پیدا کیااور تمہیں شاخیں اور قبیلے کیا کہ آپس میں پہچان رکھو بیشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزّت والا وہ جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے بیشک اللّٰہ جاننے والا خبردار ہے ۔ ''

مذکورہ آیت میں نہایت ہی خوبصورت انداز میں قوم کے وجود کی عکاسی کی گئی ہے نیز قوم کو حقیقی معنی میں فضیلت کے حصول کے راز سے آگاہ کیاگیاہے ۔ انسان کی تمدنی زندگی کے ان دو اداروں قوم اور قبیلہ کے ذریعے انسان کی پہچان قائم ضروری ہے۔ لیکن یہ دونوں شناختیں انسان کی تکریم اور عظمت کی بنیاد نہیں ہیں۔ اس لئے فرمایا گیا: ان اکرمکم عند اللّٰہ اتقاکم۔ اللہ کے ہاں تم میںسے تکریم والا وہی ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔یعنی کامیابی و کامرانی کا ایک پیمانہ بیان کردیاگیا۔

قوموں کی زبانوں میں پیغام اصلاح و فلاح:
قرآن نے تمدنی زندگی میں انسانوں کے تیسرے ادارے قوم کی تشکیل کی بنیاد زبانیں بتائی ہیں۔جورابطہ اور مافی الضمیر پہنچانے کاکام کرتی ہیں ۔
ارشاد باری تعالیٰ فرمایا:وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ لِیُبَیِّنَ لَہُمْ فَیُضِلُّ اللّٰہُ مَنْ یَّشَآء ُ وَیَہْدِیْ مَنْ یَّشَآء ُ وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ۔۔۔(سورۃ ابراہیم)۔۔ترجمہ:''اور ہم نے ہر رسول اس کی قوم ہی کی زبان میں بھیجا کہ وہ انہیں صاف بتائے پھراللّٰہ گمراہ کرتا ہے جسے چاہے اور راہ دکھاتا ہے جسے چاہے اور وہی عزت حکمت والا ہے۔''

سیدِ عالَم صَلَّی اللّٰہ تَعالیٰ عَلَیہ وَسَلَّم کی رسالت تمام آدمیوں اور جنّوں بلکہ ساری خَلق کی طرف ہے اور آپ سب کے نبی ہیں جیسا کہ قرآنِ کریم میں فرمایا گیا '' لِیَکُوْنَ لِلْعَالَمِیْنَ نَذِیْراً ''اور جب اس کی قوم اچھی طرح سمجھ لے تو دوسری قوموں کو ترجموں کے ذریعے سے وہ احکام پہنچا دیئے جائیں اور ان کے معنٰی سمجھا دیئے جائیں ۔سِیَر انبیاء کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ہرہر نبی نے اپنی قوموں کے لئے ان کی زبانوں میں پیغام حق کو عام کیا۔وہ پیغام و درس ،وہ ضابطہ جس کی اس کو قوم کو اس وقت حاجت تھی۔

زبانوں کا اختلاف:
دنیا میں انسان بستے ہیں ہر ملک و علاقہ میں اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کے لیے علیحدہ علیحدہ بولیاں بولی جاتی ہیں ۔چنانچہ قران نے اسی جانب بندگان خداکی توجہ مبذول کروائی۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَ مِنْ اٰیٰتِہٖ خَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَ اخْتِلَافُ اَلْسِنَتِکُمْ وَ اَلْوٰنِکُمْ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّلْعٰلِمِیْنَo (پ٢١،سورۃ الروم،آیت٢٢)
''اور اس کی نشانیوں سے ہے آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور تمہاری زبانوں اور رنگتوں کا اختلاف بیشک اس میں نشانیاں ہیں جاننے والوں کے لئے۔''

دنیا میں لوگ مختلف زبانیں بولتے ہیں ۔اپنے پیغام ،موقف و مدعاکو دوسروں تک پہنچانے کے لیے زبان کا سہارالیتے ہیں ۔ان میں کوئی عربی بولتاہے کوئی فارسی ،کوئی انگریزی ،کوئی ہندی،کوئی اٹالین۔اسی طرح شکل و شباہت و رنگتوں کا بھی اختلاف ہے کہ کوئی گورا،کوئی کالا،کوئی گندمی۔لیکن سب کی اصل ایک ہے اور سب حضرت آدم عَلَیہِ السَّلامْ کی اولاد ہیں ''

اللہ تعالیٰ کو انسانوں کی افرادی آزادی عزیز ہے۔ تاکہ وہ نیکی وبدی اور حق و باطل کے دو راستوں کے انتخاب میں مجاز بن سکیں۔ بالکل اسی طرح اقوام کی آزادی بھی اللہ تعالیٰ کو عزیز ہے۔ تاکہ قومیں کسی جبر و غلامی کے بغیر اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی کے فطری طریقوں پر عمل پیرا ہو سکیں۔ اس لئے انسانی تاریخ میں جب بھی افراد و اقوام پر غلامیاں مسلط ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں اور مصلحین کے ذریعہ ان غلامیوں سے نکالنے کے مواقع عطا کیے۔ تمام انبیاء عَلَیہِمُ السَّلامْکی اس جہد مسلسل کی توبہ قرآن مجید میں جا بجا ذکر موجود ہے۔بنی اسرائیل کے اوپرفراعین مصر کی مسلط کی ہوئی غلامی ختم کرنے کیلئے حضرت موسیٰ عَلَیہِ السَّلامْ نے جو جدوجہد کی پورے قرآن میں اس کا بار بار تذکرہ ہوا ہے۔ حضرت موسیٰ عَلَیہِ السَّلامْنے فرعون کی دربار میں واشگاف الفاظ میں بنی اسرائیل کی آزادی کا اعلان کیا۔یہاں ایک بات عرض کرتاچلوں کہ آزادی کی نعمت کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب میں اپنے آبائی علاقہ دوٹھلہ نکیال کشمیر گیاتو وہاں گولہ باری ہورہی تھی انسانی زندگی مسدود ہوکر رہ گئی تھی ۔بچوں ،بوڑوں ،نوجوانوں میں ایک ہیجانی کیفیت ملاحظہ کی ۔حقیقت ہے کہ آزادی بہت بڑی نعمت ہے ۔غلامی اک تاریک جہاں ہے۔چارسو ظلمت ہی ظلمت نظر آتی ہے ۔خوشی و مسرت،فرحت و شادمانی کے قمقمے گل ہوچکے ہوتے ہیں ۔وحشت و بیابانی نے پہرے ڈالے ہوتے ہیں ۔
فطری آزادی:
حَقِیْقٌ عَلٰۤی اَنْ لَّآ اَقُوْلَ عَلَی اللّٰہِ اِلَّا الْحَقَّ قَدْ جِئْتُکُمْ بِبَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ فَاَرْسِلْ مَعِیَ بَنِیْۤ اِسْرٰۤء ِیْلَ (پ٩،الاعراف،آیت:١٠٥)
''مجھے سزا وار ہے کہ اللّٰہ پر نہ کہوں مگر سچی با ت میں تم سب کے پاس تمہارے رب کی طرف سے نشانی لے کر آیا ہوںتو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ چھوڑ دے ۔''

اللہ تعالیٰ کو افراد و اقوام کی یہ آزادیاں آزاد رائے کے فطری حق کے استعمال کیلئے پسندیدہ ہیں ۔تا کہ بہتر شخصیت و سماج کی تشکیل ممکن ہو سکے۔ اس کے بعد ہی افراد اس لائق ہوسکتے ہیں کہ وہ فرد کی حیثیت میں بہتر خاندان اور اقوام کی حیثیت میں بہتر ملت قائم کرنے کے مقاصد حاصل کر سکیں۔سماج انسانوں کی آبادی جو قبیلوں اور قوموں سے تشکیل پاتی ہے۔ انسانی آبادیوں کو راہِ ہدایت پر چلانے کےلئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یکے بعد دیگرے پیغمبر اور مصلح آتے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں وحی کی تعلیم کے ذریعہ انسانی سماج کے تمام افراد، رشتوں، اداروں کو چلانے کیلئے مکمل رہنمائی کی۔ جو معاشرے وحی کی اس تعلیم کو قبول کرتے رہے، انہیں امن، سلامتی اور اطمینان نصیب ہوا۔ لیکن جن معاشروں نے اس تعلیم کو ٹھکرا کر اپنی سرکشی اور مفادات کے تحفظ کیلئے ظلم و ناانصافی کا راستہ اختیار کیا، قدرت نے ان کو اپنی گرفت میں لے لیا۔

احتساب اور عتاب الٰہی:
وَکَذٰلِکَ اَخْذُ رَبِّکَ اِذَآ اَخَذَ الْقُرٰی وَہِیَ ظٰلِمَۃٌ اِنَّ اَخْذَہۤ اَلِیْمٌ شَدِیْدٌا (پ١٢،ہود،آیت:١٠٢)
''اور ایسی ہی پکڑ ہے تیرے رب کی جب بستیوں کو پکڑتا ہے ان کے ظلم پر بیشک اس کی پکڑ دردناک کرّی ہے ''
انسانیت سوز رویہ اختیارکرنے والوں اور ان رویوں کو ہوا دینے والوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہیں ۔ہر ظالم کو چاہئے کہ ان واقعات سے عبرت پکڑے اور توبہ میں جلدی کرے۔یقینا اس کی پکڑ بڑی ہی دردناک، بڑی ہی سخت ہے۔

قہار کی پکرڑ :
اللہعَزَّوَجَلَّ! مہربان و کریم رب ہے لیکن جو اس کی بنائی ہوئی حدود کو پامال کرتاہے ان کے لیے اس کی سخت پکڑ عبرت کا نشان ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ :وَمَا کَانَ رَبُّکَ مُہْلِکَ الْقُرٰی حَتّٰی یَبْعَثَ فِیْۤ اُمِّہَا رَسُوْلًا یَّتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِنَا وَمَا کُنَّا مُہْلِکِی الْقُرٰۤی اِلَّا وَ اَہْلُہَا ظٰلِمُوْنَ (پ٢٠،القصص،آیت:٥٩)
''اور تمہارا رب شہروں کو ہلاک نہیں کرتا جب تک ان کے اصل مرجع میں رسول نہ بھیجے۔جو ان پر ہماری آیتیں پڑھے اور ہم شہروں کو ہلاک نہیں کرتے مگر جبکہ ان کے ساکن ستمگار ہوں۔
اللّٰہ مہربان و کریم ہے:
وہ کبھی انسانوں کی بستیوں کو (پاداش عمل میں) ہلاک نہیں کرتا، جب تک کہ ان کی مرکزی بستی میں ایک پیغمبر مبعوث نہ کردے اور خدا کی آیتیں پڑھ کر نہ سنادے۔ اور ہم کبھی بستیوں کو ہلاک کرنے والے نہیں صرف اس حالت میں کہ ان کے باشندوں نے ظلم کا شیوہ اختیار کر لیا ہو۔

قرآن حکیم ایسے ظالم معاشرہ کو تبدیل کرنے کی طرف بلاتا ہے۔ وَمَا لَکُمْ لَا تُقٰتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآء ِ وَالْوِلْدٰنِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ہٰذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ اَہْلُہَا وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیًّا وَّاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْرًا(پ٥،النسائ،آیت:٧٥)۔۔ترجمہ :'' اور تمہیں کیا ہوا کہ نہ لڑواللہ کی راہ میں اور کمزور مردوں اور عورتوں اور بچوں کے واسطے جویہ دعا کررہے ہیں کہ اے ربّ !ہمارے ہمیں اس بستی سے نکال جس کے لوگ ظالم ہیں اور ہمیں اپنے پاس سے کوئی حمایتی دے دے اور ہمیں اپنے پاس سے کوئی مددگار دے دے ''۔

محترم قارئین! جب تک سماج میں ظالمانہ نظام کے تبدیلی کی یہ کوششیں جاری رہتی ہیں اس وقت تک اللہ تعالیٰ پورے سماج کو مہلت دیتاہے کہ شاید کبھی یہ لوگ اپنی حالت بدلیں۔ اس وقت اللہ تعالیٰ کی ذات ان سعادت مندوں کی حفاظت فرماتی ہے جو اس بھلائی کے کام میں سرگرم ہوتے ہیں۔لیکن جب اکثریت کسی بھی صورت میں تبدیلی کیلئے تیار نہیں ہوتی تو پھر قانون خداوندی کے تحت ان کو مجرم ٹھہراکر اپنے انجام سے گذارا جاتا ہے۔

انسانوسنبھل جاؤ!!!!
ارشاد باری تعالیٰ:فَلَوْلَاکَانَ مِنَ الْقُرُوْنِ مِنْ قَبْلِکُمْ اُولُوْا بَقِیَّۃٍ یَّنْہَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِی الْاَرْضِ اِلَّاقَلِیْلًا مِّمَّنْ اَنْجَیْنَا مِنْہُمْ وَاتَّبَعَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مَآ اُتْرِفُوْا فِیْہِ وَکَانُوْا مُجْرِمِیْنَ oوَمَا کَانَ رَبُّکَ لِیُہْلِکَ الْقُرٰی بِظُلْمٍ وَّ اَہْلُہَا مُصْلِحُوْنَo (پ١٢،سورۃ ھود ، آیت:١١٦تا١١٧)
''تو کیوں نہ ہوئے تم میں سے اگلی سنگتوں میں ایسے جن میں بھلائی کاکچھ حصہ لگا رہا ہوتا کہ زمین میں فساد سے روکتے ہاں ان میں تھوڑے تھے۔ وہی جن کو ہم نے نجات دیااور ظالم اسی عیش کے پیچھے پڑے رہے جو انہیں دیا گیااور وہ گنہگار تھے ۔اور تمہارا رب ایسا نہیں کہ بستیوں کو بے وجہ ہلاک کردے اور ان کے لوگ اچھے ہوں ۔''

محترم قارئین :سماج کی چوتھی اکائی بین الاقوامیت ہے۔دین ِاسلام میں اقوام کا وجود انسانوں کے تعارف کیلئے مثبت اور مشیت خداوندی کا تقاضا ہے۔ لیکن اسلام اقوام کو مستقل درجے دینے کے ساتھ ساتھ ان کو ایک بین الاقوامیت میں عمل گیر رکھنا چاہتا ہے تاکہ اس عمل سے ملت کی صورت میں وسیع انسانی اجتماعیت قائم ہو سکے۔ اقوام اللہ تعالیٰ کو جس طرح اپنے بندوں کی انفرادی غلامی استحصال اور غیر اللہ کی عبدیت پسند نہیں۔ اس طرح انسانوں کے منظم ترین تمدنی اجتماع قوم کی غلامی اور استحصال بھی ہرگز منظور نہیں۔ اس لئے طاقت و جبر کی بنیاد پر جب بھی انسانوں کو محکوم بنایا گیا ہے تو اللہ تعالیٰ نے بعض کیلئے بعض کے ذریعے مدافعت کروا کے اقوام کی آزادی اوربراء ت کے اسباب بنائے ہیں۔ ''

ْقوموں کی آزادی:
ارشادباری تعالیٰ :الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیٰرِہِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ اِلَّآ اَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللہُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللہِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لَّہُدِّمَتْ صَوٰمِعُ وَ بِیَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّ مَسٰجِدُ یُذْکَرُ فِیْہَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْرًا وَ لَیَنْصُرَنَّ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہ اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ o
(پ١٧،سورۃ الحج،آیت:٤٠)
''وہ جواپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے صرف اتنی بات پر کہ انہوں نے کہا ہمارا رب اللّٰہ ہے اور اللّٰہ اگر آدمیوں میں ایک کو دوسرے سے دفع نہ فرماتا تو ضرور ڈھادی جاتیں خانقاہیں اور گرجا اور کلیسہ اور مسجدیں جن میں اللّٰہ کا بکثرت نام لیا جاتا ہے اور بیشک اللّٰہ ضرور مدد فرمائے گا اس کی جو اس کے دین کی مدد کرے گا بیشک ضرور اللّٰہ قدرت والا غالب ہے''

قوموں کی بقاء کے لیے پیغام انصاف:
قرآن حکیم نے تمدنی زندگی میں اقوام کی شناخت اور تعارف کے ساتھ عدل و انصاف پر عمل پیرا رہنے کی تاکید کی ہے تاکہ کسی طور پر بھی ان کی خواہشوں، ان کے مفادات اور ان کی ضرورتوں کا احتیاج اور طلب اس حد تک نہ پہنچ جائے کہ وہ دوسری قوموں کے ساتھ انصاف کرنا چھوڑ دیں ۔ فرمان الہی ہے :
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُہَدَآء َ بِالْقِسْطِ وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰۤی اَلَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ہُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ0 (پ ٦،سورۃ المائدہ،آیت:٨)
'' اے ایمان والو!اللّٰہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ انصاف کے ساتھ گواہی دیتے اور تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ ابھارے کہ انصاف نہ کرو انصاف کرو وہ پرہیزگاری سے زیادہ قریب ہے اور اللّٰہ سے ڈرو بے شک اللّٰہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے ۔''
قوم گویا جسم ہے ، افراد ہیں اعضائے قوم
منزل صنعت کے رہ پیما ہیں دست و پائے قوم

ملّت واحدۃ کے لیے پیغام اخوت:
ملت دین الٰہی کی اصل انسان کی وحدت و اخوت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے جتنے رسول بھی دنیا میں آئے سب نے یہی تعلیم دی تھی کہ تم سب اصلاً ایک امت ہو اور تم سب کا پروردگار ایک ہی پروردگار ہے۔ اس لیے تم سب کو چاہیے کہ اسی ایک پروردگار کی بندگی کرو۔ قرآن حکیم کہتا ہے کہ ابتداء میں تمام انسان قدرتی زندگی بسرکرتے تھے اور ان میں نہ تو کسی طرح کا باہمی اختلاف تھا نہ کسی طرح کی مخاصمت۔ پھر ایسا ہوا کہ نسلِ انسانی کی کثرت اور ضروریات معیشت کی وسعت سے طرح طرح کے اختلافات پیدا ہو گئے اور ان اختلافات میں تفرقہ اور ظلم و فساد کی صورت اختیار کرلی۔ہر گروہ دوسرے گروہ سے نفرت کرنے لگااور ہر زبردست زیردست کے حقوق پامال کرنے لگا۔ جب یہ صورتِ حال پیدا ہوئی تو ضروری ہوا کہ نوعِ انسانی کی ہدایت اور عدل و صداقت کے قیام کے لئے وحی الٰہی کی روشنی نمودار ہو، چناچہ یہ روشنی نمودار ہوئی اور خدا کے رسولوں کی دعوت و تبلیغ کا سلسلہ قائم ہو گیا۔
ارشاد باری تعالیٰ:کَانَ النَّاسُ اُمَّۃً وّٰحِدَۃً فَبَعَثَ اللّٰہُ النَّبِیّٖنَ مُبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ وَ اَنْزَلَ مَعَہُمُ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِیَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیْمَا اخْتَلَفُوْا فِیْہ ۔
(پ٢،سورۃ البقرۃ،آیت:٢١٣)
'':لوگ ایک دین پر تھے پھر اللّٰہ نے انبیاء بھیجے خوشخبری دیتے اور ڈر سناتے اور ان کے ساتھ سچی کتاب اتاری کہ وہ لوگوں میں ان کے اختلافوں کا فیصلہ کردے ۔''

رہبرو رہنما کی تابعداری :
قرآن حکیم حضرت ابراہیمعَلَیْہِ السَّلاَم کی شخصیت سے استشہاد پیش کرتا ہے کہ جس طرح وہ دین حق کی راہ پر تمام نوع انسانی کیلئے خدا کی موحدانہ پرستش اور نیک عملی کی زندگی کی مثال تھے تم بھی اس مقتدٰی کی اقتداء کرو۔
وَقَالُوْا کُوْنُوْا ہُوْدًا اَوْ نَصٰرٰی تَہْتَدُوْا قُلْ بَلْ مِلَّۃَ اِبْرٰہٖمَ حَنِیْفًا وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ0 (پ ا،البقرۃ ،آیت:١٣٥)
''اور کتابی بولے یہودی یا نصرانی ہوجاؤ راہ پاؤگے تم فرماؤ بلکہ ہم تو ابراہیم کا دین لیتے ہیں جو ہر باطل سے جدا تھے اور مشرکوں سے نہ تھے ۔''

ہدایت کی راہ تو وہی حنیفی راہ ہے جو ابراہیم کا طریقہ تھا اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا۔ قرآن حکیم نے امت واحدہ کی تشکیل کے لئے امتِ محمدیہ صَلَّی اللّٰہ عَلَیہ وَسَلَّمْ پر یہ ذمہ داری عائد کر دی کہ وہ انسانیت کو معروف (سلامتی کے اقدار)سے بہرہ ور کریں اور منکر (ہلاکت کے مظاہر)سے بچائیں۔

بہترین امّت کی پہچان:
اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ
(پ٣،العمران ،آیت:١١٠)
''تم بہتر ہواُن سب اُمتوں میں جو لوگوں میں ظاہر ہوئیںبھلائی کا حکم دیتے ہو اور بُرائی سے منع کرتے ہو اور اللّٰہ پر ایمان رکھتے ہو۔''

اے بنی نوع انسان!قران میں غورکیوں نہیں کرتے۔بلاقیدمذہب ،رنگ و نسل اس قران کو پڑھنے کی کوشش تو کریں۔آپ کو جہاں جہاں رہنمائی کی ضرورت ہے یہ کتاب مشفق سائبان کی طرح آپ کے ساتھ ساتھ ہے ۔آپ اس سے فیضیاب ہونے کی کوشش تو کریں ۔

اتحادہی میں کامیابی ہے :
یہودیوں میں سے مالک بن صیف اور وہب بن یہودا نے حضرت عبداللہ بن مسعود وغیرہ اصحابِ رسول اللہصَلَّی اللّٰہ عَلَیہ وَسَلَّم سے کہا ہم تم سے افضل ہیں اور ہمارا دین تمہارے دین سے بہتر ہے جس کی تم ہمیں دعوت دیتے ہو اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔سید عالمصَلَّی اللّٰہ عَلَیہ وَسَلَّمنے فرمایا: اللہ تعالیٰ میری امت کو گمراہی پر جمع نہ کرے گا اور اللہ تعالیٰ کا دست رحمت جماعت پر ہے جو جماعت سے جدا ہوا دوزخ میں گیا۔سید انبیاء محمد مصطفٰےصَلَّی اللّٰہ عَلَیہ وَسَلَّمپر۔(ترمذی شریف)

نیابت الہی :
نیابت الٰہی کی ذمہ داریوں کا تعلق انسان کی اپنی انفرادی زندگی سے زیادہ اجتماعی زندگی سے ہے، اس لئے قرآن حکیم نے انسانوں کی اجتماعیت کو قائم رکھنے کیلئے وحدت انسانیت اور وحدت دین کوہرحال میں برقرار رکھنے کی تلقین ہے۔
یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّحِدَۃٍ وَّخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالًا کَثِیْرًا وَّنِسَآء ً وَاتَّقُوا اللّٰہ الَّذِیْ تَسَآء َلُوْنَ بِہٖ وَالْاَرْحَامَ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًا (پ٤،سورۃ النساء ،آیت:١)
''اے لوگو!اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیااور اسی میں سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد و عورت پھیلادیئے اور اللّٰہ سے ڈرو جس کے نام پر مانگتے ہو اور رشتوں کا لحاظ رکھو بے شک اللّٰہ ہر وقت تمہیں دیکھ رہا ہے ۔''

قرآن کریم نے انسانیت کی اس وحدت کو قائم رکھنے کے لئے ایمان کے مرکزی نکات اور عمل کیلئے المعروف اور المنکر کی تفاصیل بھی بیان کردی ہیں۔ معروف عرف سے ہے جس کے معنی پہچاننے کے ہیں۔ پس معروف وہ بات ہوئی جو انسانوں کی سلامتی و فلاح کیلئے جانی پہچانی بات ہو۔ منکر کے معنی انکار کرنے کے ہیں۔ یعنی ایسی بات جس سے انسانی ہلاکت کے محرکات و مظاہر کے طور پر انکار کیا گیا ہو۔ قرآن نے نیکی اور برائی کیلئے یہ الفاظ استعمال کیے ہیں تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ دنیا میں عقائد و افکار کا کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو لیکن کچھ باتیں ایسی ہیں جن کے اچھے ہونے پر سب کو اتفاق ہے اور کچھ باتین ایسی ہیں جن کے برے ہونے پر سب متفق ہیں۔ مثلاً اس بات میں سب کا اتفاق ہے کہ سچ بولنا اچھا ہے، جھوٹ بولنا برا ہے۔ اس میں سب کا اتفاق ہے۔ دیانتداری اچھی بات ہے، بددیانتی برائی ہے۔ اس سے کسی کو اختلاف نہیں کہ ماں باپ کی خدمت، ہمسایہ سے سلوک، مسکینوں کی خبرگیری، مظلوم کی داد رسی انسان کے اچھے اعمال ہیں اور ظلم اور بدسلوکی برے اعمال ہیں۔

گویا یہ وہ باتیں ہوئیں جن کی اچھائی عام طور پر جانی بوجھی ہوئی ہے اور جن کے خلاف جانا عام طور پر قابل انکار و اعتراض ہے۔ دنیا کے تمام مذاہب، دنیا کے تمام اخلاق، دنیا کی تمام حکمتیں دنیا کی تمام جماعتیں دوسری باتوں میں کتنا ہی اختلاف رکھتی ہوں، لیکن جہاں تک ان اعمال کا تعلق ہے سب ہم آہنگ وایک رائے رکھنے والی ہیں۔ اس لیے انسانیت کی ان سچائیوں پر وحدت انسانیت قائم کی جائے، تا کہ انسانیت کی فوزوفلاح کے اعلیٰ مقاصد حاصل ہوسکیں۔ قرآن کہتا ہے انسانیت کی سچائیوں پر مشتمل یہی راہ عمل نوع انسانی کیلئے خدا کا ٹھہرایا ہوا فطری دین ہے۔ یہی سیدھا اور درست دین ہے جس میں کسی طرح کی کجی اورخامی نہیں۔

یہی دین حنیف ہے۔ جس کی دعوت حضرت ابراہیم عَلَیْہِمُ السَّلامْنے دی تھی۔ اسی کانام قرآن کی اصطلاح میں'' الاسلام''ہے۔یعنی خداکے ٹھہرائے ہوئے قوانین کی فرمانبرداری۔ قرآن حکیم نے دین کیلئے الاسلام کا لفظ اس لئے اختیار کیا ہے کہ الاسلام کے معنی کسی بات کے مان لینے اور فرمانبرداری کرنے کے ہیں۔ وہ کہتا ہے دین کی حقیقت ہی ہے کہ خدا نے جو قانون سعادت انسان کیلئے ٹھہرایا ہے اس کی ٹھیک ٹھیک اطاعت کی جائے۔یہ بات صرف انسان کے لئے ہی نہیں بلکہ تمام کائنات ہستی اسی اصل پر قائم ہے۔ سب کی بقا و قیام کیلئے خدا نے کوئی نہ کوئی قانون عمل ٹھہرا دیا ہے اور سب اس کی اطاعت کر رہے ہیں۔ اگر ایک لمحے کیلئے بھی روگردانی کریں تو کائنات ہستی درہم برہم ہو جائے۔ خدا پرستی کا رشتہ ایک ایسا رشتہ ہے جو انسانیت کا بچھڑا ہوا گھرانہ پھر آباد کرسکتا ہے۔ یہ اعتقاد کہ ہم سب کا پروردگار ایک ہی ہے اور ہم سب کے سر اسی ایک چوکھٹ پر جھکے ہوئے ہیں، وحدت انسانیت کا ایسا جذبہ پیدا کردیتا ہے کہ ممکن نہیں انسان کے بنائے ہوئے تفرقے اس پر غالب آسکیں۔

محترم قارئین!
انسان کی فطرت ہے کہ وہ تنہا زندگی بسر نہیں کرسکتااس لیے فطرتاً گروہ پسند ہے ۔انسان زندگی کو گزارنے کے لیے ہم جنسوں سے تعاون کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔

میں اپنے موضوع کو سمیٹتے ہوئے آپ کی خدمت میں آخری کلام کے طور پر عرض گزار ہوں کہ انسان کی ذات سے جڑے عنوانات جس سے انسان کی معاشرتی زندگی پر بحث کی جاتی ہے ۔ان میں چندعنوانات مندرجہ ذیل ہیں جن پر آپ بھی غورو فکر کیا کریں اور انھیں ملاحظہ کریں تاکہ حسن معاشرت کے قیام میں آپ بھی اپنا کردار اداکرسکیں۔

اسلامی تصور کائنات میں انسان۔۔۔۔۔انسانی اقدار۔۔منفی اقدار۔۔۔حسین یا بدصورت۔۔متعدد پہلوؤں کی حامل مخلوق۔۔۔۔ علم و دانائی۔۔۔۔۔ اخلاقی نیکی۔۔ ۔۔انسان کی مختلف قوتیں۔۔خود شناسی۔۔انسانی صلاحیتوں کی تربیت۔۔۔۔۔جسم کی پرورش۔۔روح کی پرورش۔۔۔۔۔مستقبل کی تعمیر میں انسان کا کردار۔۔۔آزادی کی حدود اور انسان کا ارادہ۔۔۔۔۔ وراثت۔۔۔ جغرافیائی اور قدرتی ماحول۔۔۔ معاشرتی ماحول۔۔۔۔۔۔۔ تاریخ اور عصری عوامل۔۔۔۔ ۔انسان اور قضا و قدر۔۔انسان اور فرائض۔۔۔ بلوغت ۔۔۔۔۔ ۔ عقل ۔ ۔۔ علم و آگاہی۔۔۔ طاقت و توانائی۔۔۔ آزادی و اختیار۔۔۔۔۔۔خود شناسی۔۔۔ دنیوی خود شناسی۔۔۔ طبقاتی خود شناسی۔۔۔۔ قومی خود شناسی۔ انسانی خود شناسی۔ عارفانہ خود شناسی۔

دعاہے ۔اے کریم تو ہمیں حق و سچ کے راہ پر چلنے کی توفیق عطافرمائے اور انسانیت کے لیے ہمیں نفع بخش بنا دے ۔۔۔
DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 381 Articles with 593866 views i am scholar.serve the humainbeing... View More