تعلیمی نظام دہشت گردی سے محفوظ کیسے ہو؟

آج کے بچے کل کی پاکستانی قوم ہے۔ کیا ہم ان کے لیئے کچھ نہیں کرسکتے؟ کیا ملک کے صاحب اقتدار و اختیار گنتی کے اپنے بچوں کے بارے ہی سوچتے ہیں اور اس نئی قوم کو نظر انداز کرتے ہیں؟ صرف پشاور کا سانحہ ہی نہیں اس سے قبل بھی لاتعداد دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں۔ ان میں بھی بچوں کی بڑی تعداد تھی۔ جب سے امریکہ کی دراندازی اور ملکی معاملات میں بے جا دخل اندازی شروع ہوئی پاکستان آئے دن نئے عذاب سے دوچار ہے۔ افغانستان پر صلیبی اتحادیوں کا حملہ اور پاکستان کا انہیں لاجسٹک امداد دینا خود پاکستان کے لیئے تباہ کن ثابت ہوا۔ امریکہ نے پاکستان کے عوام کی افغانستانی بھائیوں کی بہی خواہی کو کچلنے اورمستقل طور پر باہمی دست و گریبان کرنے کی سازش تیار کی اور ہم جان بوجھ کر اس کا شکار ہوگئے۔ طالبان کے صلیبیوں کے خلاف اقدامات بالکل درست تھے اور پاکستان کے مسلمان بھی مطمئن تھے لیکن صلیبیوں نے طالبان کے نام پر دہشت گردی کا وسیع نیٹ ورک تیا ر کیا۔ اس میں انہوں نے مالی وسائل اور جدید مہلک ہتھیار فراہم کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ مذہب اورنفاذ شریعت کے لیبل استعمال کیئے۔ جہاں تک طالبان کی صلیبیوں کے خلاف کاروائیوں کا تعلق ہے ان پر پاکستان کے مسلمانوں کو کوئی اعتراض نہ تھا لیکن جب صلیبیوں کی تیار کردہ دہشت گردی فورس نے ایکشن شروع کیا اور مسلمانوں کو ہی نشانہ بنانا شروع کیا تو پاکستانی مسلمانوں نے اس پر احتجاج کیا۔ دہشت گردوں کی کاروائیوں کے پیش نظر اس میں کوئی ابہام باقی نہیں کہ وہ لوگ مسلمان ہیں نہ ہی نظام اسلام یا شریعت کا نفاذ چاہتے ہیں بلکہ پاکستان جو دنیائے اسلام کی امیدوں کا مرکز اور اسلام کاقلعہ ہے اس کی تباہی کے درپئے ہیں۔ یہاں یہ بھی عرض کردوں کہ پاکستان بننے کے بعد کونسی مذہبی یا سیاسی جماعت ہے کہ جس نے اس ملک میں نظریہ پاکستان کے نفاذ کے لیئے کوئی تحریک چلائی ہو، کسی دارالعلوم یا خانقاہ سے قرآن و سنت کے نفاذ کا مطالبہ کیا گیا۔ فساق و فجار منتخب ہوکر ایوانہائے اقتدار میں آئے تو مولوی صاحبان نے ان سے صرف یہ مطالبہ کیا کہ ہمیں بھی کچھ وزارتیں دیں ورنہ آپکے خلاف تحریک چلائیں گے۔ اس طرح انہیں بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے بلکہ نہانے کا موقع مل گیا۔ ان میں جمعت علماء اسلام(ف) (غ) اور (س) ،جماعت اسلامی، جمعیت علماء پاکستان، جمعیت اہلحدیث وغیرہ سبھی شامل ہیں۔نان جویں پر شب و روز بسر کرنے والے علماء کرام کے جانشین اب کروڑوں کی بلٹ پروف لینڈ کروزرو میں سفر کے مزے لیتے ہیں۔ میری یہ باتیں یقینا ان کے لیئے تلخ ہیں لیکن مبنی بر حقیقت ہیں۔ یہی حال خانقاہوں کے سجادہ نشینوں کا ہے ۔ زکوۃ فنڈ اور بیت المال کا بیشتر حصہ دارالعلوموں کے نام پر ہضم ہورہاہے۔ حال یہ ہے کہ مدارس سے فارسی اورعربی صرف و نحو غائب یا اردو میں پڑھائی جارہی ہے ، منطق غائب، اور درس نظامی مختصر کردیا گیا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ محنت کرنا مشکل ہے۔ مسلک کی تبلیغ اور دوسروں کے خلاف نفرت پر مبنی تقاریر تیار کرائی جاتی ہیں ۔ اپنے مطلب کی آیات و احادیث عوام کو سنا کر فرقہ بندی کا سلسلہ جاری ہے۔بڑے اشتہارات پر قرآنی آیات اور ملاؤں کی تصاویر چھپواکر دیواروں پر چسپاں کی جاتی ہیں جو بعد میں گندی نالیوں میں پڑے ہوتے ہیں ۔ علامہ ،پیراور نجانے کیسے کیسے القابات اپنے لیئے استعمال کرتے ہیں گویاکہ غزالی و سیوطی یہی ہیں۔ ان کا محاسبہ کون کرے گا؟

قیام پاکستان سے قبل جید علماء کرام نے گدا شدہ سوکھے ٹکڑوں پر گزارا کرکے شمع دین مصطفٰے کو روشن رکھا ۔ لیکن وہ دور تو فرنگی اور اصنامی تشدد کا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد پاکستان کا اپنا نظام تعلیم وجود میں آتا تو علماء حق کی محنتیں رنگ لاتیں ، تعلیمی اداروں میں درس نظامی اور علوم جدیدہ کا شاندار امتزاج قائم کیا جاتا۔ تو آج یہ برے دن نہ دیکھنے پڑتے۔ ملکی ترقی کرتا۔ دینی تعلیم ہی انسانی سوچ و فکر کو اعتدال میں رکھتی ہے۔ اب حکومتی تعلیمی اداروں میں تقویٰ کی تعلیم سرے سے مفقود ہے۔ دینی مدارس ذاتی جائیدادوں اور اثاثوں کی صورت اختیار کرچکے ہیں، اسی طرح خانقاہوں میں سوائے سجادہ نشینیوں کی قدم بوسی کے کچھ باقی نہیں۔ جہاں سے مخلوق خدا روحانی فیوض و برکات حاصل کرتی تھی، حرام و حلال کی تعلیم ملتی تھی اب صرف اولیاء کرام کی قبور پر فاتحہ خوانی کے کچھ باقی نہیں رہا۔ سجادہ نشینوں کے شاہانہ کروفر،ان کی امارت پر بڑوں بڑوں کو رشک آتاہے۔ جن کے بڑوں نے راتوں کو جاگ کر جنگلوں بیابانوں میں شمع دین حق روشن کی تھیں اب وہ نقش کہن بھی مٹ چکے۔ پاکستان کے اسلامی جمہوریہ ہونے میں کوئی شک نہیں لیکن یہ صرف نام ہے ایسے ہی کہ آنکھوں سے اندھی نام نور بھری۔ جب تک ملک میں قرآن و سنت کا نظام نافذ نہیں ہوتا دہشت گردی جیسی بلائیں نازل ہوتی رہیں گی۔ قرآن کریم میں ہے کہ جو لوگ اﷲ اور رسول سے لڑائی کریں انکی سزا یہ ہے کہ انہیں قتل کیا جائے یا انہیں سولی چڑھایا جائے۔ اسلام میں سزائیں عبرت کے لیئے ہیں تاکہ معاشرے سے بد امنی اور قتل و غارتگری کا خاتمہ ہو۔یہ امر بھی قابل غور ہے کہ کیا دین اسلام اور اسکے اثاثے چند مخصوص وضع قطع کے اشخاص کے لیئے مختص ہیں یا تمام مسلمان اس وراثت میں شریک ہیں؟ اسلام میں رہبانیت نہیں۔ تو پھر نکاح، امامت نماز،و نماز جنازہ اور دعا کے لیئے ایک خاص شخص کی تلاش کیوں رہتی ہے؟ میں اہل اسلام سے اپیل کرتا ہوں کہ اپنے فرائض کو سمجھو اور انہیں ادا کرو۔ حکومت تمام تعلیمی اداروں بشمول جملہ دینی مدارس کی تفریق ختم کرے اور تمام مدارس میں جامع نصاب کی درجہ بند کرکے سب کو ایک صف میں کھڑا کرکے یکساں نصاب کا پابند کرے ۔حکومت صرف وسائل اور مالی امداد فراہم کرے اور ہر ادارے میں صرف ایک منتظم کا تقرر کرے جو ادارے کے تعلیمی و دیگر اندرونی بیرونی معاملا ت پر سختی سے عمل کرائے۔ اس عمل سے تعلیمی اداروں میں فرقہ وارانہ نفرت انگیز جذبات کی تعلیم بھی ختم ہوجائے گی اور جن مدارس میں دہشت گردی کے عناصر ہیں وہ بھی ختم ہوجائیں گے۔ کیا کوئی مائی کا لال یہ کام کرے گا یا یہ بھی سالار اعلیٰ جناب راحیل شریف ہی کریں گے؟
AKBAR HUSAIN HASHMI
About the Author: AKBAR HUSAIN HASHMI Read More Articles by AKBAR HUSAIN HASHMI: 146 Articles with 140736 views BELONG TO HASHMI FAMILY.. View More