بغل میں خنجر

بیٹا سکول سے واپسی پرگھر میں داخل ہوا تو اُس کا چہرہ تھوڑی کی جانب کو ڈھلکا ہوا تھا ۔ ماں نے لختِ جگر کے چہرے کی جانب نگاہ ڈالی تو کلیجہ تھام کر پکاری ’’ کیا ہوا میرے لال تم اتنا افسردہ کیوں نظر آ رہے ہو ؟‘‘ بیٹا تھکے تھکے قدموں سے راہداری سے صحن تک آیا اور کھاٹ پر وجود ڈھیلا چھوڑ کر بیٹھ گیا ’’ ماں تُو تو جانتی ہے کہ گاؤں میں لوگ مر رہے ہیں اور میں نے ابھی ابھی گاؤں کے معتبر لوگوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ ہمارے قصبے میں کوئی موزی مرض پھوٹ پڑا ہے جِس کی وجہ سے مزید اموات کا خدشہ ہے ‘‘ ماں نے بیٹے کی بات سنی تو اُس کا چہرہ چودھویں کے چاند کی ماند دمکنے لگا ’’ بیٹا ! یہ تو بہت ہی اچھی خبر لائے ہو ابھی اسی وقت اپنے باپ کی دوکان پر جاؤ اور اُسے کہو ساری دوکان سستے لٹھے سے بھر لے ۔بیٹا تم دیکھنا اب دھڑا دھڑ کفن بکیں گے اور ساری اگلی پچھلی کسریں نکل آئیں گیں اور ہاں اپنے باپ سے یہ بھی کہنا کہ ریٹ میں سستی کا مظاہرہ نہ کرے دیکھنا لوگ اپنے پیاروں کے کفنوں کیلئے ہر قیمت دینے کیلئے تیار ہوں گے ‘‘

ملک ایک اجتمائی گھرہی تو ہوتا ہے اورہمیں اتنا خطرہ بیرونی طاقتوں سے نہیں جتنا اپنے گھر والوں سے ہے ۔یہاں موٹر بائیک والوں کو ہیلمٹ پہننے کی تاکید کے ساتھ پابندی عائد کر دی جاتی ہے تو ہیلمٹوں کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگتیں ہیں اور ہیلمٹ نہ پہننے کی صورت میں کئی جیبیں گرم ہونا شروع ہو جاتی ہیں ۔پیٹرول مہنگا بعد میں ہوتا ہے اور سادہ لوح انسانوں سے کرائے ڈبل وصول ہوناپہلے شروع ہوجاتے ہیں ۔ کوئی بھی چیز سستی ہو جائے اُس کا فائدہ صرف ہول سیلر اور فروشندوں کو ہی پہنچتا ہے بچارا صارف (عوام) پرانے نرخوں پر ہی خریداری کرنے پر مجبور ہوتا ہے اُسے ہر لحاظ سے آئینے کے دوسرے رخ سے بے بہرہ ہی رکھا جاتا ہے اور وہ بچارا ناخواندہ مرد یا خاتون حکومت کو کوستے ہوئے چلتے بنتے ہیں۔
پاکستان میں پیسوں کا نظام ختم ہوچکا لیکن آج بھی ہم کِسی بھی پروڈکٹ جِس پر قیمت روپوں کے بعد پیسوں میں درج ہوتی ہے اُن آخری پندرہ ، بیس یا پچاس پیسوں کی بجائے پورا ایک روپیہ دوکان دار کودیتے ہیں جِن میں اسی ، پچیاسی یا پچاس پیسے وغیرہ دوکاندار کا غنڈہ ٹیکس ہوتا ہے ۔ ایلو پیتھک دوائیں ، سگریٹ ، پیٹرولیم مصنوعات پر حاصل ہونے والے یہ زائد پیسے صبح سے شام تک ایک الگ حجم بنا لیتے ہیں جو دوکاندار کی بونس بچت ہوتی ہے ۔یہ زائد پیسے جو پیڑولیم مصنوعات پر حاصل کیے جاتے ہیں کیا حکومت کی جیب میں جاتے ہیں یا فروشندوں کی ؟خیر یہ مجنون بھی جانتے ہیں کہ مل بانٹ کر کھانے میں کتنی برکت ہے ۔ایک روپے سے کم مالیت کے سکوں کو یکم اکتوبر 2014سے اسٹیٹ بنک نے غیر قانونی قرار دے دیا ہے لحاظہ اب سب سے چھوٹا سکہ یا پیسہ ایک روپیہ ہی ہے۔اِسے حکومتِ وقت کی سب سے بڑی ناکامی کہیں یا پھر دولت جمع کرنے کا ایک موثر اور خفیہ گر یا پھر پرنٹنگ والوں کی غلط چھپائی کہ خوردنی اشیاء،پیٹرولیم مصنوعات ، سگریٹ، ایلو پیتھک دواؤں وغیرہ کی پیکنگ پر قیمت کے آخر میں پیسوں کا ہندسہ لگ جاتا ہے جبکہ ملک بھر میں پیسوں کا نظام رہا ہی نہیں اور پورے پاکستان میں اِن صبح سے شام تک جمع ہونے والے پیسوں ( جِن کی رقم لاکھوں یا ہزروں میں تو بن ہی جاتی ہوگی) پر کِسی قسم کا نہ تو کوئی ٹیکس لگتا ہے اور نہ ہی کوئی جرمانہ۔ حکومتِ وقت کو چاہیے کہ ہر قسم کی پروڈکٹ پر آخر میں پیسے کا ہندسہ ختم کرواکر سالم روپے میں تبدیل کر وائے۔

سبزیاں زمیندار اور کسان سے لیکر آڑھتی تک پہنچنے اور آڑھتی سے دوکاندار اور پھر فروشندوں سے صارف (عوام) تک پہنچتے پہنچتے کتنے روپ بدلتی ہیں اِس بات کا اندازہ لگانا بھی کوئی مشکل کام نہیں اور یہی حال فروٹ فروشوں کا ہے ۔آج ہر شخص نہ صرف بغل میں خنجر چھپائے گھوم رہا ہے بلکہ ایک دوسرے کا گلا کاٹنے کی تاک میں ہے اور کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیتا۔ انسان بھول گیا ہے کہ آخری بچنے والا انسان بھی موت کے چنگل سے بچ نہیں سکتا۔ایک معروف مصنف نے ایک انتہائی مختصر افسانہ لکھا تھا کہ ’’ دنیا کا آخری شخص گھر میں تنہا بیٹھا ہے اور دروازوے پر اچانک دستک ہوتی ہے‘‘ یقینا وہ دستک فرشتہ ملک الموت ہی کی جانب سے بلاوا ہوگی۔

غریب کاایک دن کا بچہ بھی حکومتِ وقت کو ٹیکس ادا کرنے پر مجبور ہے خواہ وہ ڈبے کا دودھ پیتا ہے یا ماں کا کیونکہ ماں بچاری بھی تو شکم کی بھوک مٹانے کیلئے خوارک کی قیمت ادا کرتی ہے ۔ بچوں کو اگر سبز باغ دیکھانے کیلئے چولہا جلا کر اُس پر پتیلی میں صرف پانی گرم ہونے کیلئے رکھنا ہے تو یقینا چولہا ماچس سے جلایا جائے گا اور اُس ماچس کی مد میں بھی وہ بھوکا خاندان ٹیکس ادا کر رہا ہے اگر کوئی ٹیکس ادا نہیں کر رہا تو وہ طبقہ انتہائی معزز اور سفید پوش ہے جو اگرکچھ خرید کر بھی لے تو جانیں کہ انہیں بالکل فری مِلاہے ۔یہاں لاٹھی بھی دولت والوں کی ہے اور بھینس بھی۔

اب 16دسمبر سانحہِ پشاور کے بعد سکولوں کو سختی سے ہدایت کی گئی ہے کہ سکول کی عمارتوں میں کیمرے نصب کیے جائیں لیکن خود کار سکیورٹی کی یہ ہدایت دینے والی حکومت اور ذمہ داران نے پلٹ کر مارکیٹوں میں یہ تک نہیں دیکھا کہ دوکاندار پندرہ سو والاکیمرہ دو ہزاراور دو ہزار والا تین ہزار یا پچیس سو میں کیوں فروخت کر رہے ہیں اور میٹل ڈی ٹیکٹر کی قیمتوں کے قد بھی اچانک کیوں بڑھ گئے ہیں ؟اکثر دوکانداروں نے واویلا مچادیا ہے کہ اسٹاک ختم ہوگیا تاکہ مزید قیمتوں میں اضافہ کیا جاسکے ۔

ہمیں دہشتگردوں کی جانب سے ایک ٹاسک دے دیا جاتا ہے اور پھر سارا ملک اُسی جانب توجہ مبذول کر لیتا ہے ۔ 16دسمبر کو سانحہ پشاور کے بعد حکومت یہی سوچ رہی ہے کہ حملہ آور پھر کِسی اسکول کی دیوار پھلانگ کر فائرنگ شروع کر دیں گے لیکن وہ بیوقوف نہیں وہ A to Zسے کہیں آگے کے پلان بناتے ہیں اور ہماری توجہ ایک جانب چسپاکر وا کر دوسری جانب کام دیکھا جاتے ہیں ۔حکومت کو چاہیے کہ وہ صرف سکولوں ہی نہیں بلکہ پورے ملک کو دہشت گرد پروف بنا دیں اور اِس کا م میں عوام کو حکومت کا بھرپور ساتھ دینا ہوگا کہ تالی دونوں ہاتھوں کے ملاپ کا نام ہے ۔
Muhammad Ali Rana
About the Author: Muhammad Ali Rana Read More Articles by Muhammad Ali Rana: 51 Articles with 41386 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.